امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو خدا نے جن لازوال علمی و فقہی کمالات، باطنی و نظری خصوصیات اور علمی و ادبی خصائص سے نواز رکھا تھا ان میں سے ایک صفتِ خاص آپ کی منفرد نعت گوئی ہے۔ اگر ایسے اساتذہٴ فکر و فن کی فہرست تیار کی جائے جنہوں نے اس صدی میں ثناے مصطفی کا پرچم لہرانے والوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا تو ان میں یقینا سرِ فہرست حضرتِ فاضل بریلوی کا اِسم گرامی ہوگا کہ جن کی نعت گوئی کا اعتراف اپنوں نے ہی نہیں بلکہ بیگانوں نے بھی کیا ہے۔ بلکہ ان نابغہٴ روزگار ثناگویانِ کوچہٴ مصطفی علیہ التحیة والثناء میں سے بیشتر نے انہیں فنِ نعت کے حوالے سے اہم سخن گویاں قرار دیا ہے۔ آپ کی نعتیہ شاعری کا سورج جب ایک بار چمکا تو پھر اس کی روشنی کبھی بھی ماند نہ پڑسکی بلکہ ہر آنے والے دور کا شاعر جب مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ذہن و فکر کو آمادہ کرتا ہے تو احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے کلام بلاغت سے راہنمائی ضرور حاصل کرتا ہے۔ جب ایشیا کی مساجد سے لے کر یورپ کے اسلامی مراکز تک ہر جگہ
مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ چونکہ بہت بڑے عالم دین اور علومِ شریعت سے غیر معمولی آگاہی رکھنے والے نعت گو شاعر تھے اس لیے انہوں نے نعت کے حقیقی مقام و مرتبہ کو اجاگر کیا۔ اس ضمن میں آپ نے نعت کی جو تعریف کی ہے وہ اصحابِ ذوق کے لیے شمع ہدایت ہے:
”حقیقتاً نعت شریف کہنا بڑا مشکل کام ہے جس کو لوگوں نے آسان سمجھ لیا ہے اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں صاف راستہ ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض حمد میں اصلاً حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب حد بندی ہے۔“
امام احمد رضا بریلوی نے نعت کی شرعی حدود و قیود کا پورا پورا پاس کیا ہے۔ امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کی نعت عشق و عقیدت کی حسین داستان ہے۔ ایسی داستان کہ جس کا ایک ایک نقطہ ذوق و شوق کی کیفیات سے بہرہ ور کرتا اور عنایات مصطفوی کا حق دار ٹھہراتا ہے۔ نعت میں عشق و عقیدت کو وہی حیثیت حاصل ہے جو پھول میں خوشبو کو حاصل ہے۔ خوشبو پھول کے باطنی حُسن کو اجاگر کرتی اور اس کی حقیقی پہچان بن جاتی ہے۔ امام احمد رضا بریلوی بہت بڑے عاشق رسول تھے۔ یہی عشق ان کا سرمایہٴ حیات اور یہی ادب و احترام ان کا اثاثہٴ عمل اور روحانی گداز ان کے لیے ذریعہ نجات تھا۔
مضمون آفرینی کو شاعری کی جان کہا جاتا ہے ۔ شاعر جتنا بلند مضمون باندھے گا اس کا کلام اتنا ہی زیادہ مقبولیت عام اور فکری و فنی شوکت کا مقام حاصل کرے گا۔ اعلیٰ حضرت نے نعتِ مصطفی ( صلی اللہ علیہ وسلم) رقم کرتے ہوئے مضامین آفرینی کی سربلندیوں کو چُھوتے ہوئے بھی ادب و احترامِ مصطفی کو فراموش نہیں کیا کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ اس کوچہٴ ارادت و عقیدت میں معمولی سی ٹھوکر بھی انہیں بلند مقام سے نیچے گراسکتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ آپ نے خود نعت کے تقدس کو ملحوظ رکھا بلکہ دوسرے شعرا کی بھی راہنمائی فرمائی۔ چنانچہ اردو کے بلند پایہ شاعر حضرت اطہر ہاپوری نے ایک نعت لکھ کر آپ کی خدمت میں بھیجی جس کا مطلع یہ تھا
کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
مجنوں کھڑے ہیں خیمہٴ لیلیٰ کے سامنے
اعلیٰ حضرت نے سن کر ناراضگی کا اظہار کیا کہ دوسرا مصرعہ مقامِ نبوت کے لائق نہیں ہے۔ آپ نے قلم برداشتہ اصلاح فرمائی ہے
کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
قدسی کھڑے ہیں عرش معلّٰی کے سامنے
اعلیٰ حضرت کی اس اصلاح سے اطہر ہا پوڑی کی مضمون آفرینی اور رفعتِ تخیل کو چار چاند لگ گئے۔
حضرت احمد رضا خاں صفت و ثناے حضور میں اس درجہ محو ہوئے کہ تمام زیست نعت کے علاوہ کسی اور طرز سخن کی جانب توجہ نہ کی۔ حضور آقائے دو عالم علیہ الصلوٰة والسلام تو سلطانِ اقالیم دو عالم ہیں۔ افتخارِ آدم و بنی آدم ہیں رحمت پناہِ عاصیاں اور چارہٴ بے چار گاں ہیں۔ آپ کا دربار وہ دربارِ معلّٰی ہے جہاں سے گداوٴں کو شہنشاہی اور بوریا نشینوں کو عشق و عقیدت کے نام پر کجھکلاہی عطا ہوتی ہے۔ اس لیے کون چاہے گا کہ ایک بار اس دربارِ معلّٰی سے نسبت حاصل کرکے کسی اور دروازے کی طرف دیکھے یا اپنے دور کے کسی سلطان یا امیر کا قصیدہ کہے۔ شاہ احمد رضا علیہ الرحمۃ کو حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے نسبت پر اس قدر ناز تھا کہ اس کا اظہار ان کے کلام میں جابجا ملتا ہے۔
کروں مدحِ اہل دُوَل رضا پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مرا دین پارہٴ ناں نہیں
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمة نے نعت کو ان بلندیوں پر پہنچادیا کہ زمانے کو ان کی عظمت تسلیم کرتے ہی بنی۔ نعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم وہ افتخار ہے کہ نعت گو شاعر بے اختیار اس کے احساس سے اپنے جذبات کو وجدمیں لے آتا ہے۔ اس لیے شاہ احمد رضا خاں فرماتے ہیں
مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلّم
جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھادیے ہیں
یہی کہتی ہے بُلبلِ باغِ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں
نہیں ہندمیں واصف شاہِ ہدیٰ مجھے شوخی طبعِ رضا کی قسم
گونج گونج اٹھے ہیں نغماتِ رضا سے بوستاں
کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وا منقار ہے
جب اعلیٰ حضرت بریلوی علیہ الرحمۃ حضور سید کائنات صلی الله علیہ وسلم کے حُسنِ باطنی اور جمالِ سیرت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کا انداز بیان دیدنی ہوتا ہے ان کی نگاہوں میں حضور نبی کریم کے تمام خصائص و کمالات گھومنے لگتے ہیں حضور علیہ الصلوٰة والسّلام کی عظمتِ کردار، رفعتِ گفتار، بے پایاں رحمۃ للعالمینی، میدان محشر میں آپ کی شفیع المذنبینی، گنہگار امت کے لیے حضور کی گریہ وزاری، خطا کاروں کی بخشش کے لیے رحمت شعاری، جُود و کرم کی فراوانی، لطف و عنایات کی فراخ دامانی، اخلاق عالیہ کی رفعت، سیرت و کردار کی عظمت خدا کی اپنے محبوب پر بے پایاں عنایت اور حضورنبی کریم کا امت کے لیے ہر آن امنڈتا ہوا بحر شفاعت، یہ سب خصائص جب احمد رضا خاں کے قلم میں سمائے ہیں تو ان کے خامہٴ عنبر فشاں کو نئی توانائی اور ان کے ذوقِ مدحت کو حیرت انگیز گہرائی و گیرائی وعطا ہوتی ہے۔
شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ کی نعتیہ شاعری کا وہ حصہ دلوں کو بے اختیار گداز آشنا کرتا ہے جب آپ حرمین شریفین کی جانب سفر کی تیاری کرتے ہیں۔ مکہٴ معظمہ اور مدینہٴ منورہ کو دیکھنے کی تمنّا ہر صاحبِ ایمان کے دل میں مچلتی ہے اور پھر جب وہ شخصیت اس مبارک سفر پر روانہ ہورہی ہو جس نے عمر بھر عشقِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا درس دیا ہو۔ توحیدِ خداوندی کے آداب سکھائے ہوں، احترام و عقیدتِ رسول کی چمک عطا کی ہو۔ دلوں میں شمعِ عشقِ رسول جلا کر اجالا کیا ہو۔ جس کی اپنی زندگی عشقِ مصطفوی کی تصویر اور محبت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تفسیر ہو۔ جس کے شب و روز بیت الله کے طواف اور حرمِ نبوی کی زیارت کے تصور میں گزرتے ہوں۔ تو پھر اس پر کیف سامانی کا سحاب کس شان سے پرتوفگن ہوگا۔ اس کا تذکرہ بہار آفریں بھی ہے اور روحانی لطف و سرور کا باعث بھی ۔
جب آپ حجِّ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرکے مدینہٴ منورہ حاضر ہوتے ہیں تو ان کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے اور مدینہ منورہ کا تصور ان سے کس طور خراجِ عقیدت حاصل کرتا ہے اس کی جھلک ملاحظہ ہو
حاجیو! آوٴ، شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو
غور سے سُن تو رضا! کعبہ سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے مرے پیارے کا روضہ دیکھو
مدینہٴ منورہ کے بارے میں احترام و عقیدت کا کس شان سے اظہار کرتے ہیں انداز دیکھیے
مدینے کے خطّے خدا تجھ کو رکھے
غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے
اور پھر مدینہ منوّرہ کی گلیوں میں اس عاشقِ رسول کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ آنکھیں کس طرح اشکوں کی لڑیاں پروتی ہیں۔ انہیں یہاں ہر گام پر سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف آپ کی بے قراری ہے اور دوسری طرف آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی نوازشوں کا احساس۔ اسی احساس سے سرشار ہو کر مدینہ طیبہ کے گلی کوچوں کا طواف کرتے ہیں۔ گنبد خضریٰ کی زیارت کرتے کرتے جی نہیں بھرتا، دل مکینِ گنبد خضریٰ کی زیارت کے لیے مچلتا رہا۔ یہی بے قراری رنگ لائی اور حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی عنایاتِ بے کراں سے نوازے گئے۔
شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمة کا نعتیہ مجموعہ ”حدائق بخشش“ ہے جس کا اولین سالِ اشاعت 1325ھء ہے۔ رضا بریلوی علیہ الرحمة کے نعتیہ کلام کا ایک دلاویز اور خوبصورت حصّہ نعتیہ قصائد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے قصیدہٴ نور، قصیدہٴ معراجیہ اور آپ کا طویل سلام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ قصیدہ ور میں بطورِ خاص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ اقدس کے حوالے سے آپ کی صفات عالیہ کو موضوعِ شاعری بنایا گیا ہے۔ یہ قصیدہ اس قدر جامع اور اثر آفریں ہے کہ بے شمار عشاقِ مصطفےٰ اسے وظیفہٴ عقیدت جان کر پڑھتے ہیں۔
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
تاج والے دیکھ کر تیرا عماما نور کا
سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا
تیری نسل پاک میں ہے بچّا بچّا نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانانور کا
”قصیدہٴ معراجیہ“ میں نبی کریم علیہ اصلوٰة والسلام کے سفیر معراج کے حوالے سے آپ کی عظمت و فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ قصیدہ بذاتِ خود فکر و فن کا شہکار اور کاروانِ مدحت نعت کا افتخار ہے۔ طویل بحرمیں لکھا گیا یہ قصیدہ تشبیہات، استعارات اور برجستہ تراکیب کے حوالے سے اردو ادب کے لیے سرمایہٴ اعزاز ہے۔ یہ قصیدہ آپ کی جَوْدَت وحِدَّتِ طبع کا آئینہ دار ہے۔ روانی و تسلسل اور زبان کی لطافت و پاکیزگی کے اعتبار سے معاصرین کے معراجیہ قصائد میں سب سے بلند ہے۔ اعلیٰ حضرت کے ہم عصر مشہور نعت گو شاعر محسن کاکوروی نے انہیں دنوں معراج پر قصیدہ ” سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرابادل“ لکھا تھا۔
محسن کا کوروی اپنا قصیدہ سنانے کے لیے بریلی میں مولانا احمد رضا خاں کے پاس گئے۔ ظہر کے وقت دو شعر سننے کے بعد طے ہوا کہ محسن کا کوروی کا پورا قصیدہ عصر کی نماز کے بعد سنا جائے۔ عصر کی نماز سے قبل مولانا نے خود یہ قصیدہ معراجیہ تصنیف فرمایا۔ نماز عصر کے بعد جب یہ دونوں بزرگ اکھٹے ہوئے تو مولانا نے محسن کاکوروی سے فرمایا کہ پہلے میرا قصیدہ معراجیہ سن لو۔ محسن کا کوروی نے جب مولانا کا قصیدہ سنا تو اپنا قصیدہ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا اور کہا مولانا آپ کے قصیدے کے بعد میں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا۔
مولانا احمد رضا خاں کا سلام ہر لحاظ سے ادب عالیہ کا ایک حصہ ہے۔ اسے فنِّ شاعری کے حوالے سے دیکھیں، یا محبت و عقیدت کے حوالے سے ثناے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں دیکھیں یا الفاظ و تراکیب کی برجستگی کے حوالے سے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سلام حضور صلی الله علیہ وسلم کے نورانی سراپا کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے ایک ایک عضو پر عقیدت کی مہکبار پتیاں نچھاور کی گئی ہیں۔
شہریارِ ارم تاجدارِ حرم
نوبہار شفاعت پہ لاکھوں سلام
صاحبِ رجعتِ شمس و شقّ القمر
نائب دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
قدِّ بے سایہ کے سایہٴ مرحمت
ظلِّ ممدودِ رافت پہ لاکھوں سلام
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام
جن کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام
پتلی پتلی گُل قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نامور محدث اور علومِ شریعت کے عالم کامل تھے۔ تاریخ اور سیرت مصطفوی صلی الله علیہ وسلم کے روشن ادوار پر آپ کی گہری نظر تھی۔ اس لیے آپ نے جہاں حُسنِ تغزل کی بہار بکھیرتے ہوئے اپنے آقا و مولا کے لامتناہی فیوض و برکات کا تذکرہ کیا ہے وہاں آپ نے اپنے علمی کمالات اور علوم دینیہ پر گہری گرفت رکھنے کی بنا پر بہت سے ایسے واقعات اور معجزات کی طرف بھی اشارا کیا ہے جن سے عظمت و شانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی قرآن فہمی اور احادیثِ نبوی پر عبور نے انہیں بہت مدد دی ہے ۔ بعض نعتیہ اشعار تو آیات قرآنی اوراحادیث نبوی کا منظوم ترجمہ معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نے قرآنی آیات اور احادیث کو اس خوبی سے اپنی نعتوں میں سمویا ہے کہ ہر صاحب فکر کو ان کی قدرتِ فن کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ بعض نعتوں میں تو عربی کے الفاظ اس طرح جگہ پاگئے ہیں کہ مستقل طور پر انہی کا حصّہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان نعتوں میں عربی الفاظ کی آمیزش نے کس طرح ان نعتوں کے حُسن کو دوبالا کیا ہے اس کی بہترین مثال ان کی یہ شہرہٴ آفاق نعت ہے۔
لَمْ یَاتِ نَظیرُکَ فِیْ نَظَرٍ مثلِ تو نہ شُد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہِ دو سرا جانا
اب چند مثالیں خصائص نبوی اور معجزات و کمالاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے پیش ہیں
تیری مرضی پاگیا سورج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجہ چر گیا
تیری رحمت سے صفی الله کا بیڑا پار تھا
تیرے صدقے سے نجی الله کا بجرا تِر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت الله مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بُت تھر تھرا کر گر گیا
کیوں جناب ِ بوہریرہ تھا وہ کیسا جامِ شِیر
جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گیا
تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہاترے خالقِ حُسن وادا کی قسم
مولا علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے
صدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے
ہاں تو نے ان کو جان انہیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کرچکے تھے جو کرنی بشرکی ہے
کھائی قرآں نے خاکِ گزر کی قسم
اس کفِ پاکی حرمت پہ لاکھوں سلام
امام احمد رضا کی حیثیت اس صدی کے نعت گو شعرا میں میرِکارواں کی ہے۔ آپ کی نعتوں نے فقط آپ کے دور کو نہیں بلکہ آنے والے ادوار کو بھی متاثر کیا۔ فقہی اور شرعی امور میں آپ سے شدید اختلاف رکھنے والے حضرات بھی جب نعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہیں تو تمام ترتعصّب کے باوجود انہیں بھی ایوانِ نعت کی سب سے سربلند مسند پر حضرت رضا بریلوی کو ہی جگہ دینی پڑتی ہے۔ ایک مضمون کہ جہاں صفحات کی تنگ دامانی راہوارِ قلم کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہو بھلا آپ کے تمام تر شعری اوصاف کا کس طور احاطہ کرسکتا ہے۔ آج فاضل بریلوی کی اثر آفریں نعت گوئی اپنی تاثر انگیزی کی گرفت کو اس قدر مضبوط کرچکی ہے کہ فقط بر صغیر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلم ممالک میںآ پ کی شخصیت اور کلام پر تحقیقی کام کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ضمن میں شفیق بریلوی کی کتاب ارمغانِ نعت کے حوالے سے کراچی میں 1975ء میں منعقد ہونے والی تعارفی تقریب میں مولانا کوثر نیازی کی یہ رائے خاص اہمیت رکھتی ہے۔
”بریلی شریف میں ایک شخص پیدا ہوا جو نعت گوئی کا امام تھا اور احمد رضا خاں جس کا نام تھا۔ ان سے ممکن ہے بعض پہلووٴں میں لوگوں کو اختلاف ہو۔ عقیدوں میں اختلاف ہو لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عشقِ رسول ان کی نعتوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔“
مولانا احمد رضا خاں نے نعت گوئی میں قرآن حکیم سے بھر پور راہنمائی لی۔ اس ضمن میں ان کے فتاویٰ رضویہ بخوبی شاہد ہیں کہ وہ نعت گوئی کے تقاضوں کو کس درجہ سمجھتے تھے او ر نعت گو شعرا سے کس درجہ احتیاط اور ادب کی توقع رکھتے تھے۔
شاعری میں ان کے پیشِ نظر مداح رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) سیدنا حسان بن ثابت رضی ا لله تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی مشعلِ راہ تھی۔اپنے دور کے شعرا میں مولانا کفایت علی کافی کی نعت گوئی سے متاثر تھے۔ اکابرکے ہاں جس قدر ادب و احتیاط کا غلبہ تھا ویسا ہی منظر وہ ہر دور کے نعت گو شعراء کے ہاں دیکھنا چاہتے تھے۔
احتیاط اور ادب کا یہ عالم تھا کہ ایک صاحب نے آپ کی بارگاہ میں حاضرہوکر اپنے اشعارسنانے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا میں اپنے چھوٹے بھائی حسن میاں یا حضرت کافی بدایونی کا کلام سنتا ہوں (اس لیے کہ ان کا کلام میزانِ شریعت پہ تُلا ہوتا ہے) اگرچہ حضرت کافی کے یہاں لفظ ” رعنا“ استعمال ہوا ہے لیکن اگر وہ اپنی غلطی پر آگاہ ہوجاتے تو یقینا اس لفظ کو بدل دیتے ۔ پھر خیال خاطر احباب کے پیش نظر ان صاحب کو کلام سنانے کی اجازت عطا کردی ان کا ایک مصرعہ یوں تھا ع
شانِ یوسف جو گھٹی ہے تو اسی در سے گھٹی
آپ نے فوراً اس شاعر کو ٹوک دیا اور فرمایا ”حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کسی نبی کی شان گھٹانے کے لیے نہیں بلکہ انبیائے کرام کی شان و شوکت کو سربلند سے سربلند کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ مصرعہ یوں بدل دیا جائے۔
شان یوسف جو بڑھی ہے تو اسی در سے بڑھی
یہ احکامِ شریعت کو حد درجہ ملحوظ رکھنے ہی کا کما ل تھا کہ مصرعہ کی تبدیلی سے مضمون انتہائی جاندار اور شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگیا۔
رضا بریلوی علیہ الرحمة کا دور مسلمانوں پر انتہائی مصیبت اور ابتلا کا دور تھا۔ حکومت تو ہاتھوں سے چھن چکی تھی بدقسمتی سے مسلمان احساسِ زیاں سے بھی محروم ہوچکے تھے۔ غیر مسلم قوتیں ا ن پر اپنے نظریات ٹھونس رہی تھیں اور دوسری طرف نیشنلسٹ مسلم زعما و علما جبّہ و دستار اور منبر و محراب کے وارث ہونے کے باوجود اسلامی نظریات کی شوکتِ دیرینہ کے تصور کو بھی پاش پاش کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ ایسے عالم میں امام احمد رضا خاں کا ذہن جاگ رہاتھا۔ ان کی نظریاتی سوچ اپنی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کے نظریاتی اعتقادات سے بغاوت کرنے والی ہر قوت کو للکارا اورانہیں پیغام دیا
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والے جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے
آنکھ سے کاجل صاف چرالیں یہاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گٹھڑی تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
اور یہ نعتِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا عملی فیضان ہی تھا کہ آپ کی آواز تاریخ کے سب سے بڑے حدی خوان کی صداے درد ناک بن کر بر صغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر گئی۔ آپ کو دشنام طرازیوں اور طعنوں کے طوفان سے گزرنا پڑا مگر آپ کی نظم اور نثر نے حیرت انگیز انقلاب برپا کردیا۔ وہ محبت رسول میں کسی سمجھوتے کے قائل نہیں تھے اور اس سلسلہ میں انہیں اپنے قلم کی قوت اور سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی تائید و کرم کا پورا پورا احساس تھا۔
اور اسی حقیقت میں کلام نہیں کے رضا کے نیزے کی مار نے کتنے ہی اسلام دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملادیا۔ دو قومی نظریہ کے دشمنوں سے مثالی جنگ لڑی۔ گاندھی اور سبھاش چند کو راہنما بنانے والوں کا تعاقب کیا۔ پاکستان کے دشمنوں کو بے نقاب کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے بڑے بڑے راہنماوٴں کی پروا نہیں کی اور ان کو سرِ عالم للکارا۔ ان کی نعت گوئی نے ایک موثرہتھیار کا کردا ر ادا کیا۔ جس طرح حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے حسان بن ثابت رضی الله تعالیٰ عنہ کو اُن کی شاعری سے کفر کے خلاف شمشیر و سنان کا کام لینے کا مشورہ دیاتھا ۔ اور واقعی انہوں نے ایسا ہی کردیا۔ اسی طور پر رضا بریلوی نے اپنی نعت گوئی سے ایک زبردست نظریاتی حصار قائم کردیا۔ اس سلسلہ میں ان کی زبان دانی، فصاحت و بلاغت، تراکیب و تشبیہات، صنائع بدائع پر بھر پورگرفت اور اسلام سے غیر متزلزل وابستگی نے اہم کردار ادا کیا۔ رضابریلوی کی زبان شستگی اور روانی میں اپنے سے پہلے کے ادوار اور اپنے دور کے اساتذہٴ فن میں کسی سے کم نہیں بلکہ بعض حوالوں سے سبقت لے جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔
ممتاز نقاد نیاز فتح پوری آپ کے علم و فضل اور شعری محاسن پر آپ کی بھر پور گرفت کے قائل تھے۔ انہوں نے فاض بریلوی کو قریب سے دیکھا تھا اور ان کی شخصیت کا مشاہدہ کیا تھا۔ ان کا کہناہے کہ
”اردو نعت کی تاریخ میں اگر کسی فردِ واحد نے شعراے نعت پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں تووہ بلاشبہ مولانا احمد رضا کی ذات ہے۔“
اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں:
”شجر علمی“ زور بیان اور وابستگی و عقیدت کے عناصر ان کی نعت میں یوں گھل مل اور رچ بس گئے ہیں کہ اردو نعت میں ایسا خوشگوار امتزاج کہیں اور دیکھنے میں نہیں آیا … اردو نعت کی ترویج و اشاعت میں ان کا حصّہ سب سے زیادہ ہے۔ کسی ایک شاعر نے اردو نعت پر وہ اثرات نہیں ڈالے جو مولانا احمد رضا خاں کی ذات نے ۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اعلیٰ معیاری نعتیں تخلیق کیں بلکہ ان کے زیر اثر نعت کے ایک منفرد دبستان کی تشکیل ہوئی“۔
(حضرت فاضل بریلوی کے بارے میں نیاز فتح پوری کے تاثرات ، محمد احمد قادری)
شاہ احمد رضا خاں نے مدحتِ سرکار کے جس دبستان کی بنیاد ڈالی تھی اس کی بدولت آج ایک زمانہ ان کا ہمنوا نظرآتا ہے اور ہر دور میں ان کے ہمنواوٴں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ فاضل بریلوی کو اول و آخر مدحتِ سرکار صلی الله علیہ وسلم سے سرو کار تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد اسحق قریشی کے یہ جملے خاص طور سے قابل ذکر ہیں:
”نعت کے مشتملات و شمائل کا ذکر ہر نعت گو کے ہاں مرغوب رہاہے۔ اس لیے کہ ان کا شمار ہی عظمت کا احساس دلاتا ہے۔ فاضلِ بریلوی کے ہاں خصائص میں وجہِ تخلیق ہونا، سراپا نور ہونا، قاسمِ عطایا ہونا، سب سے افضل ہونا، سرتابقدم شانِ حق ہونا، جانِ ایمان ہونا، کائنات ہست و بود کی رونق و جلا ہونا اور مرکزِ عقیدت و محبت ہونا بہت نمایا ں ہیں۔ یہ خصائص ان کے ایمان کا حصّہ ہیں اسی لیے ردیف اور قافیہ کے تنَّوع کے باوجود تذکرہ انہیں کا ہوتا رہا۔“ (نعت رنگ 1
مدّعا یا طلب شفاعت شعرائے نعت کا خاص جزو رہا ہے، استغاثہ اور پھر توسّل انہیں اپنے ممدوح کی عظمت کے اظہار اور اپنی بے کسی و بے بسی کے اقرار کا قرینہ بخشتا ہے۔ اگر مدعا طلبی شاہانِ دنیا سے ہو تو یہاں بڑے سے بڑا قصیدہ بھی پست نظر آتا ہے لیکن اگر مدّعا طلبی محبوب دو عالم صلی الله علیہ وسلم سے ہو تو پھر نعت گو کی ہر فکری کاوش ادبِ عالیہ کی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ نعت میں بات فقط قوافی و اوزان کی نہیں بلکہ یہاں تو توسّل اور شفاعت طلبی کے لیے شاعر کی بلند خیالی بطور خاص مدنظر رکھی جاتی ہے۔ فاضل بریلوی کے ہاں یہ مضمون ہر بار نئے انداز اور نئے حسن سے جلوہ گر نظر آتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مرکز محور ہی حضور علیہ الصلوٰ ة والسلام کی رحمت بے کراں کا حصول ہے۔ فاضل بریلوی کے ہاں علم شریعت قرآن و حدیث اور سچے جذبوں کاتوازن ہے۔ وہ استغاثہ بھی پیش کرتے ہیں تو آقا و مولا صلی الله علیہ وسلم کی سیرت نگاری کو بھی مدنظر کھتے ہیں
جب ہم اُمّتِ اسلام پر بپا ہونے والے صدمات اور مصائب کا ذکر کرتے ہیں تو الطاف حسین حالی کی یہ مناجات ہر عہد کی ترجمانی کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اے خاصہٴ خاصانِ رُسُل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آگے عجب وقت پڑا ہے
یہ استغاثہ یا نوحہ اُمّتِ اسلام سقوطِ بغداد سے لے کر سقوطِ ڈھاکہ تک ہر عہد اور ہر زمانے میں زوال آمادہ مسلمانوں کے رنج والم کا ترجمان ہے۔ حالی کے استغاثے نے اردو ادب میں باقاعدہ استغاثہ نگاری کی بنیاد رکھی اسی کیفیت کی ترجمانی کرتی ہوئی رضا بریلوی کی صدائے غمناک ابھری۔
اَلْبَحْرُ عَلَیٰ والْمَوْج طغےٰ مَن بے کس و طوفاں ہوش ربا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیّا پار لگا جانا
پُر شکستہ لمحات میں غم کے ماروں کی نگاہیں سوئے مدینہ ہی اُٹھتی ہیں۔ یہاں فاضل بریلوی علیہ الرحمة کے آنسو بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شرح و غم بیان کردیے۔
نعت کہتے ہوئے فاضل بریلوی کہیں بھی یاس و قنوطیت کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کا حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے عشق وارادت کا رشتہ اس قدر مضبوط،غیر متزلزل اور مستحکم ہے کہ وہ راہِ حیات سے لے کر میدانِ حشر تک کہیں بھی مایوس و ناامیدی کو قریب نہیں آنے دیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے جس ذاتِ والا صفات کو اپنا رہبر و راہنما مانا ہے وہ محبوب دو عالم اور ممدوحِ خدا و ملائکہ ہے۔ یہ وہ ذات جس کے سر اقدس پر شفاعت کا نور آفریں تاج جگمگارہاہے۔جس کے ماتھے پر عفو و درگزر اور لطف و کرم کا جمال اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر سلام سندیلوی کی رائے ملاحظہ کیجیے:
”مگر جہاں تک امام احمد رضاخاں کی شاعری کا تعلق ہے وہ رسمی یا روایتی نہیں۔ آپ کو مذہب سے زبردست علاقہ تھا۔ آپ کو بزرگانِ دین سے عقیدت تھی۔ آپ حُبِّ رسول میں غرق تھے اس لیے آپ کی شاعری میں صداقت موجود ہے۔ آپ کی شخصیت اور شاعری کے درمیان فاصلہ نہیں ہے۔ بلکہ آپ کی شخصیت آپ کی شاعری ہے اور آپ کی شاعری آپ کی شخصیت۔ شخصیت اور شاعری میں اس قدر ہم آہنگی اردو کے بہت کم شعرا کے یہاں ملے گی۔“
(المیزان۔ امام احمد رضا نمبر ص 466)
اسی بات کو آگے بڑھانے میں سید شان الحق حقّی کی رائے کا مطالعہ کیجیے:
”میرے نزدیک مولانا کا نعتیہ کلام ادبی تنقید سے مبرا ہے۔ اس پر کسی ادبی تنقید کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی مقبولیت اور دلپذیری ہی اس کا سب سے بڑا ادبی کمال اور مولانا کے مرتبے پر دال ہے۔“
(خیابانِ رضا ۔ ص 66)
ان دونوں آراء کو دیکھیے تو ہماری متذکرہ بالا رائے کو تقویت ملتی ہے کہ رضا بریلوی کی روحانی اور فقہی شخصیت اور آپ کی شاعری ایک دوسرے میں گُم ہوگئی تھیں۔ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی رحمتِ بے کراں پر آپ کا بھروسہ فقط آپ کی شاعری کا خاصہ ہی نہیں تھا بلکہ آپ اپنی شخصیت اور نظریات کے لحاظ سے اس پر کامل ایمان بھی رکھتے تھے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کی نگاہِ عنایت اور عنایاتِ بے کراں پر آپ کا کس قدر بھروسہ تھا اس کوآپ نے مکالماتی اسلوب میں بیان کیا ہے۔ کمال کی روانی ہے۔ غضب کالسانی خرام ہے کہ پڑھنے والا آپ کی فکر کی بلند پروازی کے ساتھ ساتھ محوِ پرواز نظر آتا ہے۔
مولانا احمد رضا خاں کی شاعری کو وہ کمال حاصل ہوا کہ آج تک اس کی مقبولیت و دلپذیری میں کمی واقع نہیں ہوسکی بلکہ تمام اصحابِ تنقید و تاریخ کے مطابق ہر آنے والا دور آپ کی نعتیہ شاعری کی مقبولیت و ہر دل عزیزی میں اضافہ کر رہا ہے۔ صرف آپ کی نعت گوئی پر ہی ڈاکٹریٹ اور ایم فل کی ڈگریوں کے علاوہ یونیورسٹیوں کے مقالہ جات کاشمار کرنے بیٹھیں تو عقل محوِ حیرت ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید نے آپ کی نعتیہ شاعری کا احاطہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے:
”کسی ایک نعت گو نے اردو نعت پر وہ اثرات نہیں ڈالے جو مولانا احمد رضا خاں کی نعت گوئی نے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اعلیٰ معیاری نعتیں تخلیق کی ہیں بلکہ ان کے زیرِ اثر ایک منفرددبستان کی تشکیل ہوئی۔
ان کی نعت گوئی کی مقبولیت اور شہرت نے دوسرے شاعروں کو نعت گوئی کی ترغیب دی۔ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ عاشقانِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے لیے آج بھی ان کا کلام ایک موٴثر تحریکِ نعت کا درجہ رکھتا ہے۔“
جوں جوں ہم رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری کی گہرائیوں میں اترتے ہیں ان کا وجود ایک رجحان ساز شاعر کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ انہوں نے برصغیر پاک وہند کی ملّتِ اسلامیہ کے باطنی جذبات کو اپنی قلبی واردات سے ہم آہنگ اور مربوط کرکے صنفِ نعت کو نئے تخلیقی امکانات سے روشناس کرایا۔ قلبی تطہیر، ذہنی عبارت، ایمان افروزی کی بدولت ان کی نعتیں دنیاے شعر و سخن کے نعتیہ ادب کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔ بہت سے تذکرہ نگاروں نے انہیں اپنی ذات میں ایک پوری کائنات اور نعت کا ایک مکمل دبستان تسلیم کیا ہے۔ بلاشبہ ”حدائق بخشش“ فن کا معجزہ اور سرچشمہٴ فیض ہے۔
حدائقِ بخشش میں حضرت رضا بریلوی نے بعض مشہور اساتذہٴ فن کی زمینوں میں بھی طبع آزمائیاں کی ہیں۔ اس سے ان کا مقصد تفاخر فن کا اظہار نہیں تھا بلکہ وہ توصیفِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے ہر رنگ اور ہر پیرایا اختیار کرنا چاہتے تھے۔ اسدالله خاں غالب نے ”کیوں“ کی ردیف میں ایک غزل کہی۔ جبکہ امام احمد رضا نے اس ردیف میں دو نعتیں کہی ہیں۔ کالی داس گپتا رضا نے غالب اور رضا بریلوی کے ایک ایک شعر کے حوالے سے موازنہ پیش کیا ہے
غالب :
ہاں نہیں وہ خدا پرست جاوٴ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
رضا:
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی میں جائے کیوں
کالی داس گُپتا رضا لکھتے ہیں۔ مولانا نے ”میں“ کو ”سے“ سے بدل کر نعت کہنے کا حق ادا کردیا ہے۔ نعت اور غزل کو یک جان کر نا اسی کو کہتے ہیں ۔ (سہو و سراغ۔ المیزان کا امام احمد رضا نمبر)
ان کا موازنہ ایک اور شعر میں دیکھیے۔
غالب:
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
رضا:
یادِ حضور کی قسم، غفلتِ عیش ہے ستم
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں؟
دونوں کے ہاں اسلوب کا بانکپن خوب ہے۔ لیکن غالب کے یہاں قنوطیت ہے اور رضا کے ہاں رجائیت۔ دوسری نعت کے دو تین اشعار میں اسلوب کا بانکپن دیکھیے۔
یادِ حرم ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں؟
بیٹھے بٹھائے بدنصیب سر پہ بلا بٹھائی کیوں؟
کس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آنکھ میں
نرگسِ مست ناز نے جس سے نظر چرائی کیوں؟
اسی طرح غالب کی ایک غزل ”کہ یوں“ کی ردیف میں ہے۔ یہ نہایت مشکل ردیف ہے جس سے غالب جیسا بلند فکر ہی عہدہ برآہ ہو سکتا تھا مگر یہاں بھی امام احمد رضا کا قلم اپنے فنِّ نعت گوئی کی جولانیاں دکھاتا نظر آتا ہے۔
قصرِ دنیٰ کے راز میں عقلیں تو گم ہیں جیسی ہیں
روحِ قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سنا کہ یوں
دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا دو نیم کر
مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھ سے اب دکھا کہ یوں
دل کو ہے فکر کس طرح مردے جلاتے ہیں حضور
اے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتاکہ یوں
اسی طرح آپ کی بعض نعتیں امیر مینائی، داغ دہلوی کی زمین اور ردیفوں میں بھی ملتی ہیں جن میں آپ نے اسلاف کے بانکپن سے اشعار کے ایسے گل و سمن کھلائے ہیں جن سے ان کی معنی آفرینی، انداز بیان، سربلند تخیل اور لطافتِ خیال کا اظہار ہوتا ہے۔ ورنہ جہاں تک تقابل کا تعلق ہے تو نہ تو وہ امام احمد رضا کے پیش نظر تھا اور نہ ہی ہمارا موضوع ہے۔
سراپا نگاری ہر دور کے شعرا کے پیش نظر رہی ہے۔ عربی، فارسی، اردو اور پنجابی سمیت تمام زبانوں کے شعرا نے اپنے اپنے اندازِ فکر کے مطابق حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے سراپاے اقدس کے بارے میں رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اردو میں محسن کا کوروی کی شاعری اس کی روشن مثال ہے۔ لیکن اس ضمن میں جو کمال امام احمد رضا کے حصّے میں آیا وہ کسی اور کا مقدر نہیں بن سکا ۔ متفرق نعتیہ اشعار اپنی جگہ، ان کی نعتوں میں تو بعض مقامات پر سراپا نگاری کے حوالے سے مسلسل اشعار جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ قصیدہ سلامیہ میں تو سراپا نگاری کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس ضمن میں چند ایسے اشعار پیش کیے جاتے ہیں جن میں حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے سراپاے مبارک کی نورانی جھلکیاں دلوں کے ایوانوں کو جگمگاتی محسوس ہوتی ہیں۔ محبوبانِ مجازی کا سراپا لکھتے ہوئے مبالغہ آرائی اپنی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے مگر نعت میں تو مبالغہ آرائی بھی پابندِ شریعت ہوکر رہ جاتی ہے۔ اور پھر امام احمد رضا کا قلم جو شریعت کی حدود سے لمحہ بھر بھٹکنے کو بھی تیار نہیں ہے ۔
ہم تفصیلات سے گریزکرتے ہوئے فقط یہ عرض کرنا چاہیں گے ”حدائق بخشش“ کے دوسرے درجنوں اشعار کے ساتھ ساتھ آپ کے قصیدہٴ سلامیہ کے پہلے حصّے کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ قصیدہٴ سلامیہ کے اشعار میں آپ کے سرِاقدس کے گیسووٴں سے لے کر آپ کے پاے اقدس کے ناخنوں تک کو شعری حسن عطا کیا گیا ہے
لَیْلَةُ الْقَدْر میں مَطْلَعِ الْفَجْر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھووں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا
اس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام
غرضیکہ اس حوالے سے بھی امام احمد رضا کی شاعری کا مطالعہ کریں تو یہاں بھی ایک حیرت کدہ نظر آتا ہے کہ آپ کے قلم نے جدھر بھی رُخ کیا اپنی قادر الکلامی اور شعری سرفرازی کے سکّے بٹھادیے۔ آپ نے سراپا نگاری میں اگر تشبیہات و تراکیب اور دوسرے صنائع بدائع کا استعمال کیا ہے مگر دامانِ شریعت کو کہیں بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ یہاں بھی آپ کی انفرادی احتیاط پسندی شعریت اور شریعت کے امتزاج کا خراج لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
امام احمد رضا علیہ الرحمة نے قصائد بھی رقم کیے مگر شاہانِ عجم کے نہیں۔ قصیدہ ایک مشکل صنفِ سخن جو بہت سے لوازمات کا تقاضا کرتا ہے مگر احمد رضا تو بہت پہلے ہی یہ اعلان کرچکے ہیں
کروں مدحِ اہلِ دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مرا دین پارہٴ ناں نہیں
آپ کی فضیلت مآبی اور علمی مقام و مرتبہ کو دیکھتے ہوئے کئی ریاستوں کے امرااور سلاطین نے آپ سے اپنے ہاں آنے کی درخواست کے ساتھ ساتھ ہی یہ استدعا بھی کی کہ وہ آپ کے علمی اشغال کے تسلسل کے لیے مستقل اعزازی وظائف بھی مقرر کریں گے۔ مگر جو محبِّ مصطفی بازار حسنِ حضور علیہ التحیة والثنا میں بِک چکا ہو وہ کسی اور خریدار کی طرف کیا دیکھے۔ آپ نے بصد خلوص انکار فرمادیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ میرے ربِّ کریم نے اپنے حبیب کریم صلی الله علیہ وسلم کی جانب سے اتنا کچھ عطا کر رکھا ہے کہ اب کسی اور جانب نظر ہی نہیں اٹھتی ۔ شاہان عجم اور سلاطین ہند کی پیش کشوں کو آپ نے پاے استحقار سے ٹھکرا دیا۔ اور پھر جب سلطان دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی قصیدہ نگاری کی جانب متوجہ ہوئے تو انوار کی برسات ہونے لگی۔ کس کس قصیدہ کا ذکر کیجیے ہر جگہ ہی عقیدت اور محبت و وارفتگی کا حُسن پھیلا ہوا ہے۔ چند قصائد کے مطلعے پیش نظر ہیں
قصیدہٴ نوریہ:
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
قصیدہٴ سلامیہ:
مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
قصیدہٴ معراجیہ:
وہ سرورِ کشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے
قصیدہٴ درود:
کعبہ کے بدر الدّجی تم پہ کروڑوں درود
طیبہ کے شمس الضحیٰ تم پہ کروڑوں درود
ان طویل قصائد کے علاوہ آپ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت فاروق اعظم، حضرت علی المرتضی، سیدة خاتون جنت اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی شان میں بھی مختصر قصائد کہے ہیں۔ ان قصائد کے علاوہ آپ نے ایک قصیدہ در ”اصلاحاتِ ہیئت“ بھی کہا ہے۔ یہ بھی نعتیہ قصیدہ ہے جس میں تمام تر علم ہیئت اور علمِ نجوم کی اصطلاحات ہیں۔ پورا قصیدہ 100 اشعار پر مشتمل ہے۔ اس قصیدہ کی بدولت جہاں آپ صنفِ قصیدہ پر غیر معمولی دسترس رکھتے دکھائی دیتے ہیں وہاں علم ہیئت اور علمِ نجوم آپ کے افکار کی کاسہ گدائی کرتے نظر آتے ہیں۔ سچ ہے کہ
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔
آپ کی علمی و فقہی او ر شعری سر بلندیوں کے حوالے سے فکرِ رضا کے عظیم نقاد اختر الحامدی کی رائے ملاحظہ ہو:
”آپ کا مجموعہٴ نعت حدائق بخشش نہ صرف عشقِ حبیب کی شعری تصویر ہے بلکہ نعت حبیب کا وہ مشرق ہے جس سے آفتاب عرب کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں جو آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر کائناتِ حیات کو منوّر کردیتی ہیں۔ سوز و درد اور جذب و اثر نے الفاظ کو گویا زبان دے دی ہے اور وہ کوے حبیب کی حدیث عشق سنا رہے ہیں۔ یہ خصوصیت، یہ اندازِ بیان، یہ سلیقہٴ نعت آپ کے علاوہ اور کسی کے ہاں نظر نہیں آتا۔ آپ نے الفاظ میں عشقِ حبیب کا وہ طلسم پھونک دیا ہے کہ مفاہیم کی پرت پرت کھولتے چلے جائیے مگر شاعر کے جذبے کی گہرائی ہاتھ نہیں آنے پاتی۔“
(معارف رضا۔ سالنامہ 1986 ص 167)
جس سلیقہٴ نعت کا اختر الحامدی نے تذکرہ کیا ہے اسے اسلوب کی انفرادیت اور بیان کی یکتائی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اس کی مدد سے شاعر اپنے حُسنِ تخیل اور حقائق کے امتزاج سے زبان و بیان کا حُسن بکھیر کر اس انداز میں بات کہ جاتا ہے کہ پڑھنے والے حیرت میں گُم ہوجاتے ہیں۔ ایک حقیقت کو شاعری کا ملبوس عطا کردینا یا ایک مسلّمہ بات کو اسلوب کی ندرت کی بدولت ایسے بیان کرنا کہ کسی اور کو سوجھی ہی نہ ہو۔ طرزِ ادا کی یہی رنگینی اور طُرْفگی ہی رضا بریلوی کے کلام کو دوام بخش رہی ہے۔
امام احمد رضا کی اسی قادر الکلامی اور زبان و بیان کی ندرت لحاظ سے معروف محقق شمس بریلوی کی اس رائے کو پیش نظر رکھیے:
”جناب رضا قدس سرہ خاصانِ بارگاہِ مصطفوی صلی الله علیہ وسلم میں بہت ممتاز تھے۔ آپ کے یہاں منزل عشق کے تمام مدارج موجود ہیں۔ آپ نے اس راہ کو بڑی احتیاط سے طے فرمایا ہے۔ آپ نے فراق کا بیان بھی ملاحظہ فرمایا اور فراق کی ستم رانیوں کا ذکر بھی سنا۔ دیارِ محبوب کا اشتیاق بھی ہے اور درِ محبوب پر عرض بھی فرمارہے ہیں۔ لیکن تقدیس و تکریم کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ اور یہی وہ خصوصیت ہے جو جنابِ رضا کو تمام نعت گو شعرا میں اسی طرح ممتاز کرتی ہے جس طرح علمِ شریعت و طریقت میں آپ کا مقام دیگر علماے کرام سے بہت ارفع و اعلیٰ تھا۔“
(علامہ شمس بریلوی۔ حدائق بخشش کا ادبی جائزہ ص 225)
گویا تمام محققین اور صاحبان اسرار تحقیق اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت احمد رضا خاں کے مضامین میں غیر معمولی تنوع پایا جاتا ہے۔ انہوں نے نعت کے میدان کو چُنا اور اس میں ہر قسم کے مضامین بیان کرکے ثابت کردیا کہ نعت ہر قسم کے تخیلات کو شعری جامہ پہنانے کی قوت رکھتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ صنفِ نعت کے تقدس اور پاکیزگی کو کسی لمحہ نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے اور ممدوحِ نعت صلی الله علیہ وسلم کے مقاماتِ عالیہ کے انوار سے دل و جان کو ہر آن بساکر رکھا جائے۔ امام احمد رضا خاں کی شعری بلندیوں کا کیا کہنا آپ نے تو پامال سے پامال مضامین کو بھی محبت رسول صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے تر و تازہ اور حاصلِ ادب بنادیاہے۔
خدا بھی کریم ہے اس نے اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کو ہمہ تن کرم بنایا ہے۔ خدا تو خالقِ کائنات ہے۔ محمد رسول الله صلی لله علیہ وسلم محبوبِ شش جہات۔ رب دو عالم نے اپنے محبوب کو عظمتوں کی وہ بلندیاں عطا کیں کہ انسانی عقل ان کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ حضور صلی الله علیہ وسلم تمام تر نورانی اور بشری سر فرازیاں حاصل کرکے بھی کمال عجز سے خود کو خدا کے سامنے شکر گزار بندہ تصور کرتے ہیں۔ نعت میں افراط و تقریط کی گنجائش نہیں بڑے بڑے صاحبانِ فکر فرطِ عشق میں جادہٴ حق سے بھٹک گئے اور حمد و نعت میں قدرے شوخ بیانی کا مظاہرہ کر گئے مگر یہاں تھے امتِ اسلام کے سب سے بڑے فقیہ اور شریعت پر حد درجہ دسترس رکھنے والے احمد رضا خاں جو اپنے اشعار اور نثر میں زمانے بھر کو حمد و نعت کا امتیاز سکھارہے ہیں۔ آئیے ہم اس ایمان آفریں، ماحول کا ایک جلوہ دیکھنے کے لیے ان کے تین چار اشعار پیش کرتے ہیں
سرور کہوں کہ مالک مولا کہوں تجھے
باغِ خلیل کا گُل زیبا کہوں تجھے
الله رے تیرے جسمِ منور کی تابشیں
اے جانِ جاں میں جانِ تجلّا کہوں تجھے
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہے بری
حیراں ہوں میرے شاہا میں کیا کیا کہوں تجھے
قرآنِ حکیم سے آگے بڑھے تو شریعتِ مصطفوی صلی ا لله علیہ وسلم نے دامانِ نور کشادہ کردیا۔ قرآنِ حکیم اور قرآنِ ناطق علیہ الصلوٰة والسّلام جُدا جُدا تو نہیں ہیں۔ ایک قرآن تیس پاروں کی صورت میں انوارِ کرم لٹا رہا ہے جبکہ قرآن ناطق حضور صلی الله علیہ وسلم اسی قرآنِ مجید کی عملی شرح روشن ہیں۔ فاضل بریلوی نے قرآنِ حکیم اور صاحبِ قرآن صلی الله علیہ وسلم کی تعلیماتِ قدسیہ سے بھر پور روشنی اور راہنمائی لی اور تمام زندگی اس پر نازاں رہے کہ انہیں نعت نگاری کی بدولت ہی قرآن اور تعلیماتِ حضور صلی الله علیہ وسلم کو عوام الناس تک پہنچانے کی سعادت عطا ہوتی ہے۔
آج تمام نعت گو حضرت فاضل بریلوی کو امام سخن و بیاں قرار دیتے ہیں۔ آپ کی نعتیہ شاعری کا سورج جب ایک بار چمکا تو پھر اس کی روشنی کبھی بھی ماند نہ پڑسکی بلکہ ہر آنے والے دور کا شاعر جب مدحتِ رسول صلی الله علیہ وسلم کی خاطر ذہن و فکر کو آمادہ کرتا ہے تو امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے کلام بلاغت نظام سے راہنمائی ضرور حاصل کرتاہے۔ جب ایشیا کی مساجد سے لے کر یورپ کے اسلامی مراکز تک ہر جگہ ”مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام“ کی صدائیں ابھرتی ہیں تو جہاں اصحابِ نظر کی پلکیں عشق و عقیدت کے آنسووٴں سے نم ہوجاتی ہیں وہاں تصورات کے نہاں خانوں میں نعت گو امام احمد رضا خاں علیہ الرحمة کا جو روشن سراپا ابھرتا ہے وہ اس قدر سر بلند اور سرفراز ہے کہ ان کے معاصرین اور عصرِ حاضر کے نعت گو شعرا کا وجود اپنی تمام تر بلند قامتی کے باوجود اس کے سامنے سر عقیدت خم کرتا نظر آتا ہے۔ آپ نے زندگی بھر عشق رسول صلی الله علیہ وسلم ہی کو حاصلِ ایمان سمجھے رکھا۔ اور خدا گواہ ہے کہ اس سے بڑی حقیقت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اسی موضوع سے متعلق آپ کے اسی جاوداں جاوداں شعر پر اس تحریر کا اختتام کر رہے ہیں
انہیں جانا، انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
لِلّٰہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا