یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک مسلمان سب سے زیادہ بلکہ اپنے نفس سے بھی زیادہ سرور کائنات فخر موجودات جنابِ ارواحنا فداہ ﷺ سے محبت کرتا ہے اور یہی ایمان کی کمالیت ہے جیسا کہ نبیِ پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: "لا یؤمن احدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولد والناس أجمعين “(بخاری ج1 کتاب الایمان ) يعنی تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک اس کے دل میں اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ میری محبت نہ ہو جائے۔
حضرت عبداللہ بن ہشام نے فرمایا کہ ہم حضور پاک ﷺ کے ہمراہ چل رہے تھے اور حضور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے حضرت عمر نے حضورﷺ سے عرض کی یا رسول اللہ! ہم اپنے نفس کے علاوہ تمام چیزوں سے زیادہ آپ سے محبت کرتے ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لا والذى نفسي بيده حتى اكون احب إليك من نفسك" نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے! یہاں تک کہ میں تمہیں تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب ترین نہ یو جاؤں۔ {بخاری}
لہذا جو مسلمان اپنے آقا سے اس درجہ کی محبت رکھتا ہو وہ انکی عزت و ناموس پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیگا مگر حضورﷺ کی شان میں ادنی سی بھی گستاخی برداشت نہیں کرے گا
گستاخئ رسول پر صحابہ کرام کا ردعمل
طلوع اسلام ہی سے دشمنان دین شان اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں نازیبا کلمات کہتے چلے آرہے ہیں (اس زمانے میں شعر و شاعری کا دور دورہ تھا لہذا کسی کی ہجو کے لیے قصیدہ کہا جاتا تھا آج کافروں نے توہین کا انداز بدل لیا ہے اب فلموں اور کارٹونوں کے ذریعے مذاق اڑایا جاتا ہے)
نبی پاک ﷺ نے شانِ نبوت میں گستاخی کرنے والوں کو بعض مواقع پر قتل کروایا کبھی صحابہ کرام کو حکم دے کرکے تو کبھی پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے، کبھی کسی صحابی نے حبّ رسول میں خود گستاخِ نبی کے جگر کو چیردیا، کبھی عزم کر لیا کہ اسے قتل کرونگا یا خود ہو جاؤں گا، کبھی نذر مان لی کہ فلاں گستاخ کو ضرور قتل کروں گا۔
اللہ عزوجل نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا: وان نكثوا أيمانهم من بعد عهدهم وطعنوا في دينكم فقاتلوا ائمة الكفر انهم لا ايمان لهم لعلهم ينتهون (توبہ 12) اور اگر عہد کر کے اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر منہ آئیں ( اعتراض و طعن کریں) تو کفر کے سرغنوں سے لڑو! بے شک ان کی قسمیں کچھ نہیں اس امید پر کہ شاید وہ باز آئیں(کنزالایمان)
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں ابن منذر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدگوئی کرے وہ قتل کیا جائے گا (تفسیر قرطبی سورہ توبہ، تفسیر ابن کثیر)
ابوعکف یہودی اور اس کا انجام:
بنی عمرو بن عوف کا ایک شخص جسے ابو عکف کہتے تھے 120سال بوڑھا آدمی تھا۔ جب سرکاردوعالمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ مسلمان نہ ہوا اور لوگوں کو آپ کی عداوت پر اکساتا تھا جب اللہ عزوجل نے حضور کو بدر میں بہترین کامیابی عطا فرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کر دیا اور سرکشی پر اتر آیا۔
رسول گرامی وقارصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی ہجو کرتے ہوئے اس نے ایک قصیدہ کہا جسے سن کر عاشق رسول جناب سالم بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کی غیرت ایمانی کانپ گئ چنانچہ آپ نے نذر مانی کی میں ابو عکف کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود اپنی جان دے دوں گا۔
پس اب صرف حضور ﷺ کی اجازت کی ضرورت تھی سو وہ بھی مل گئی حضرت سالم رضی اللہ عنہ موقع کی تلاش میں تھے کہ ایک رات ابو عکف قبیلئہ عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا، آپ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی اور اس مردود کا کام تمام کر دیا (الصارم المسلول صفحہ 149)
ایک گستاخ رسول عورت:
ایک عورت رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''من يكفيني عدوى'' میری دشمن کی خبر کون لے گا یہ سن کر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا آقا میں حاضر ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت عطا فرمائی اور آپ نے اس عورت کو قتل کر دیا۔ (الصارم المسلول صفحہ 143)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک کو زخمی کرنے والے كا انجام:
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جانور بھی جانتے ہیں کہ اس کا ارتکاب کرنے والا زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ركهتا ۔ چنانچہ حضرت نافع بن عاصم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: "الذي دمى وجه رسول الله ﷺ عبد الله بن قمئة رجل من هذيل فسلط الله علیه تیسا فنطحه حتی قتله". کہ بنو ھذیل کا ایک شخص عبداللہ بن قمئہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک کو زخمی کیا تو اللہ تعالی نے اس پر ایک بکرا مسلط فرما دیا جس نے سینگ مار مار کر اس کو مار دیا۔
(دلائل النبوۃ لابی نعیم)
گستاخ پادری کو کتے نے مار دیا:
قال ابن حجر رحمة الله عليه ان بعض امراء المعل تنصر فحضر عنده جماعة من كبار النصارى والمغل فجعل واحد منهم ينقص النبي ﷺ وهناك كلب صيد مربوط فلما أكثر من ذلك وثب عليه الكلب فخشمه فخلصوه منه وقال بعض من حضر هذا من كلامك في محمد ﷺ کلا بل هذا الكلب عزيزالنفس واني أشير بيدي فظن اني اريد ان اضربه ثم عاد إلى ما كان فيه فأطال فوثب الكلب مرة أخرى فقبض على ذردمته فقلعها فمات حينه فاسلم بسبب ذلك نحو أربعين ألفا من المغل.
امام ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ منگولیوں کے لوگ عیسائی ہوگئے اس وجہ سے لوگ جمع ہوئے تو اس تقریب میں ایک گستاخ پادری نے رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کی تو وہاں پر ایک شکاری کتا موجود تھا اور وہ بندھا ہوا تھا مگر اس کتے نے جھپٹ کر اس پر حملہ کر دیا جب اس کو چھڑایا گیا تو وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا کہ یہ اس وجہ سے ہوا جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی ہے تو کہنے لگا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میں نے دوران گفتگو اس کی طرف اشارہ کیا تو اس نے خیال کیا کہ میں اس کو مارنے لگا ہوں تو اس لیے اس نے مجھ پر حملہ کر دیا تھوڑی دیر بعد اس نے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کر دی اور باتیں بہت زیادہ کرنی شروع کردیں تو کتا پھر شیر کی طرح جھپٹا اور اس کی گردن دبوچ لی اس کو چھوڑا تب جب وہ جہنم پہنچ گیا کتے کی اس غیرت کی وجہ سے وہاں پر موجود چالیس ہزار لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ( الدرر الکامنہ)
ایک مشرک گستاخ اور اس کا انجام:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مشرکین میں سے ایک شخص نے حضور پاک ﷺ کو گالی دی تو آقا نے فرمایا میرے اس دشمن کی خبر گیری کون کرے گا اس پر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ملنے پرحضرت زبیر نے اسے قتل کر دیا اور سرکارﷺ نے اس کا سامان حضرت زبیر کو عطا فرما دیا (الصارم المسلول)
ان کے علاوہ حضرت عمیر بن عدی کا نذر ماننا کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میدان بدر سے تشریف لائے تو میں رسول اللہ ﷺ کی گستاخ عصما بنت مروان کو قتل کردوں گا پھر ان کا ایسا کر گزرنا، حضرت سیدنا عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ تعالی عنہ کا ابو رافع یہودی کو واصل نار کرنا، حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کا کعب بن اشرف کا قصہ تمام کرنا وغیرہ ایسے بے شمار واقعات ہیں جنہیں تفصیلی بیان سے خوف طوالت نے قلم روک دیا ہے۔
گستاخِ رسول ائمہ کی نظر میں:
ائمہ احناف کا مذہب
علامہ خیر الدین رملی حنفی فتاوی بزازیہ میں لکھتے ہیں : شاتم رسولﷺ کو حدا قتل کرنا ضروری ہے اس کی توبہ بالکل قبول نہیں کی جائے گی۔ آگے لکھتے ہیں کہ یہی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ امام اعظم اہل کوفہ اور امام مالک علیہم الرحمہ کا مذہب ہے۔ (تنبیہ الولاۃ والحکام علی شاتم خیر الانام)
امام ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں: جو بھی شخص حضور اکرمﷺ سے بغض رکھے وہ مرتد ہوجاتا ہے گالی دینے والا تو بطریق اولی مرتد ہو گا ہمارے نزدیک ایسے شخص کو بطور حد قتل کرنا ضروری ہے اور اس کی توبہ کو قبول کرتے ہوئے قتل معاف نہیں کیا جائے گا۔ ( فتح القدیرج 4)
خطابی کا قول ہے کہ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے بد گو کے قتل کے واجب ہونے میں اختلاف کیا ہو اور اگر یہ بدگوئی اللہ تعالی کی شان میں ہو تو ایسے شخص کی توبہ قبول ہوگی۔ (فتح القدیر ج 5) بزازی نے اس کی علت بیان کرتے ہوئے لکھا ہےکہ نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حق العبد توبہ سے معاف نہیں ہوتا۔
امام اہل سنت ماحی بدعت پیر طریقت باعث خیروبرکت الحافظ الشاہ مفتی امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن الاشباہ والنظائر کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ نشے کی حالت میں کسی مسلمان کے منہ سے کلمہ کفر نکل گیا تو اسے کافر نہ کہیں گے اور نہ سزائے دیں گے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی وہ کفر ہے کہ نشے کی بے ہوشی سے بھی صادر ہو تو اسے معافی نہ دیں گے (فتاوی رضویہ ج4)
امام مالک کا مذہب
قاضی عیاض نے اپنی کتاب الشفا بتعریف حقوق المصطفی میں تحریر فرمایا ہے کہ ابن کنانہ نے مبسوط میں لکھا ہے کہ اگر کوئی یہودی یا نصرانی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کا مرتکب ہو تو میں حاکم وقت کو مشورہ دیتا ہوں اور ہدایت کرتا ہوں کہ ایسے گستاخ کو قتل کرکے اس کی لاش کو پھونک دیا جائے۔ (الشفا بتعریف حقوق المصطفی جلد۲ قاضی عیاض مالکی)
محمد بن سخنون مالکی لکھتے ہیں کہ : "أجمع المسلمون ان شاتمه كافر وحكمه القتل و من شك في عذابه وكفره كفر" ( رد المحتار ابن عابدين شامي) یعنی تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والا کافر ہے اور اس کا حکم قتل ہے اور جس نے اس کے کفر اور عذاب میں شک کیا اس نے بھی کفر کیا۔
خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک سے دریافت کیا کہ جو شخص حضور پاک ﷺ کو گالی دے بدگوئی کرے اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں حالانکہ عراق کے فقہاء نے اسے کوڑا مارنے کا حکم دیا ہے یہ سنتے ہی امام مالک پرغضب ہو گئے اور فرمایا اے امیر المؤمنين! نبی کو گالی دینے کے بعد اس امت کی بقا کیوںكر ممکن ہے "من شتم الانبياء قتل ومن شتم اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم جلد" جس نے انبیاء کو گالی دی قتل کیا جائے اور جس نے صحابہ کرام کو گالی دی اسے كوڑا مارا جائے ( الشفا بتعریف حقوق المصطفی لقاضی عیاض)
امام شافعی کا مذہب
امام شافعی رحمة اللہ علیہ سے صراحتاً منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ کو گالی دینے سےعہد ٹوٹ جاتا ہے اور ایسے شخص کو قتل کر دینا چاہیے- ابن المنذر، الخطابی اور دیگر علماء نے ان سے اسی طرح نقل کیا ہے۔
امام شافعی نے اپنی کتاب "الام" میں تحریر فرمایا ہے کہ جب حاکم وقت جزیہ کا عہد نامہ لکھے تو اس میں یہ شرط لگا دے کہ : "وعلى ان أحدا منكم ان ذكر محمدا صلى الله عليه وسلم او كتاب الله عز جل او دينه بما لا ينبغي ان يذكره به فقد برئت منه ذمة الله ثم ذمة امير المؤمنين وجميع المسلمين ونقض ما اعطى عليه الأمان وحل لأمير المؤمنين ماله ودمه كما تحل اموال اهل الحرب ودمائهم".
یعنی اگر تم میں سے کوئی شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب اللہ یا دین اسلام کا تذکرہ نازیبا الفاظ میں کرے گا تو اس سے اللہ تعالی، امیر المومنین اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری اٹھ جائے گی۔ جو امان اس کو دی گئی تھی ختم ہو جائے گی ، اس کا خون اور مال امیر المومنین کے لئے اس طرح مباح ہوجائے گا جس طرح حربی کافروں کے خون مباح ہیں۔
امام احمد بن حنبل کا مذہب
امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا آپ کی توہین کرے خواہ مسلم ہو یا کافر واجب القتل ہے۔ ابن تیمیہ نے امام احمد بن حنبل کا عقیدہ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابو طالب سے مروی ہے کہ امام احمد رحمة اللہ علیہ سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہو فرمایا: قتل کیا جائے کیونکہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے کر اپنا عہد توڑ لیا۔
قرآن و حدیث اور کتب ائمہ میں غوطہ زنی کے بغیر بھی کسی کا ایمان اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی محبت اس بات کی قطعی اجازت نہ دے گی کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک لمحہ کے لئے بھی زندہ رہے ۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی شخص تشفی قلب کی غرض سے دلائل کا طالب ہو تو قرآن و حدیث اور کتب ائمہ میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔
گستاخِ نبی کی بد بختی اور بدنصیبی اسی بات سے سمجھی جاسکتی ہے کہ جسے اللہ عزوجل نے دونوں جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اس رحمت والے کریم آقا نے گستاخوں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا اور باقاعدہ صحابہ کرام کی جماعت کو انہیں قتل کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔ اللہ عزوجل تمام امت مسلمہ کو اس بدبختی سے نجات عطا فرمائے!
آمین بجاہ سید المرسلین۔