سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے والد ماجد کا نامِ گرامی حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمة ہے۔ ان کا آبائی وطن بخارا تھا۔سید احمد بخاری علیہ الرحمة اپنے والد حضرت سید علی بخاری کے ہمراہ ٦٠٧ہجری میں بعد عہدِ شمس الدین التمش بدایوں تشریف لائے۔ اپنے والد کے مرید و خلیفہ بھی تھے۔ بدایوں میں محلہ پتنگی ٹیلہ (قاضی ٹولہ) میں سکونت اختیار کیا۔ آپ بدایوں میں جامع مسجد شمسی کے پہلے امام مقرر ہوئے۔ سلطان التمش نے بدایوں کے منصب قضا پر فائز کیا۔شب و روز یادِ الٰہی میں مشغولیت ان کا شیوہ تھا۔
آپ کی شاد ی خانہ آبادی بی بی زلیخا بنت سید عرب بخاری سے انجام پائی۔ جن کے بطن سے اپنے وقت کے امام الاولیاء محبوبِ الٰہی سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء تولد ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام محمدرکھا تھا۔ ابھی آپ کمسن طالب علم ہی تھے، ایک روز آپ نے دروازے پر مولانا نظام الدین کی صدا سنی۔ آپ نے باہر آکر دیکھا تو باہر ایک شخص کھڑا تھا اس نے آپ کو سلام عرض کیا۔ السلام علیکم! مولانا نظام الدین ، اُسی دن سے آپ کی مشہوری نظام الدین کے نام سے ہوئی۔آپ پانچ سال کے ہوئے تو والد ماجدکا وصال ہوگیا۔
سیدہ بی بی زلیخا جو خدا شناس و پارسا خاتون تھیں ۔وہ اپنی بیوگی اور لختِ جگر کی یتیمی سے بے حد پریشان ودل گرفتہ نہ ہوئیں بلکہ انہوں نے نامساعدحالات سے مردانہ وار مقابلہ کیا اور فرزند دل بند کی تعلیم و تربیت کے لیے کمر بستہ رہیں اور ان کی پرورش اور دینی و اخلاقی تربیت مادرانہ شفقت اور پدرانہ حوصلہ مندی کے ساتھ کرنے لگیں۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ زلیخا رحمة اللہ علیہما نے انتہائی افلاس اور تنگ دستی کے باوجود سوت کاٹ کاٹ کر اپنے ہونہار فرزند کی تعلیم و تربیت پر مکمل توجہ مرکوز رکھی۔ حضرت اس قدر ذہین تھے کہ سولہ سال کی عمرِ شریف میں بدایوں شریف کے اکابر علماء و مشائخ سے دستار فضیلت حاصل کر لی ۔
سولہ سال ہی کی عمر تک سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء بدایوں میں رہے آپ نے چھ پارے کلام اللہ کے اور تین کتابیں (ایک کو پڑھا اور دو سنیں) اور چھ باب عوارف کے شیخ الشیوخ عالم حضرت گنج شکر بابا فرید الدین ) سے پڑھے۔تمہید ابو شکور سالمی بھی ساری کی ساری شیخ الشیوخ سے پڑھی۔ چنانچہ تمہید ابو شکور سالمی کے درس دینے کا اجازت نامہ پایا۔ آپ کی دینی، فقہی اور دنیاوی علوم میں قبولیت اور لیاقت کا یہ عالم تھا کہ اس دورکے بڑے بڑے علماء اور اہلِ شریعت و طریقت آپ کے معترف تھے۔ ثقہ راویوں سے منقول ہے کہ جن دنوں سلطان المشائخ اجودھن میں شیخ الشیوخ فرید الدین گنج شکر کے پاس رہتے تھے۔
آپ کے کپڑے بڑے میلے کچیلے رہتے تھے ، وجہ یہ تھی کہ صابن نہ تھا کہ انہیں دھویا جائے ایک دن سید محمد بن مبارک کرمانی کی دادی محترمہ نے سلطان المشائخ سے کہا،بھائی تمہارے کپڑے بہت میلے کچیلے ہیں، پھٹ بھی گئے ہیں اگر مجھے دے دو تو میں انہیں دھو دوں اور ان میں پیوند بھی لگا دوں۔سلطان المشائخ نے بڑی نرمی سے معذرت چاہی، دادی محترمہ نے معذرت قبول نہ کی اور اپنی چادر پیش کی کہ اسے پہن لو جب تک میں کپڑے دھو لوں۔سلطان المشائخ نے ایسے ہی کیا۔ دادی محترمہ نے کپڑے دھو کر اور پیوند لگا کر شیخ المشائخ کو کپڑے واپس دیئے۔
شیخ المشائخ نے بڑی معذرت کرتے ہوئے، احسان مندی کا اظہار کرتے ہوئے وہ کپڑے پہنے۔سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ بچپن میں مولانا علائو الدین سے بدایوں میں ”اصول ” پڑھ رہا تھا ۔ ایک دن مسجد میں خلوت و تنہائی تھی وہ سبق پڑھ رہا تھا اس اثناء میں میں نے دیکھا کہ سنہری سانپ پھنکار تے ہوئے جا رہے ہیں۔ میں تجربتاً دیکھنے لگا ان سب میں سے آخری سانپ چھوٹا سا تھا، وہ جا رہا تھا میں نے کہا کہ ذرا دیکھوں تو سہی کہ یہ کیا ہے میں نے اس چھوٹے سانپ پر اپنی پگڑی ڈال دی۔میں نے دیکھا کہ پگڑی کے نیچے سنہری تنکوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، میں نے پگڑی اٹھائی اور ان سنہری تنکوں کو وہیں چھوڑ دیا۔
بدایوں شریف سے والدہ محترمہ اور ہمشیرہ صاحبہ کے ساتھ دہلی تشریف لائے اوریہاں سلطان التمش کے اتالیق مولانا شمس الملک سے علومِ ظاہری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بہت جلد آپ کا شمار دہلی کے ممتاز علماء و فضلاء میں ہونے لگا۔شروع دن سے ہی آپ کے قلب مبارک میں عشق الٰہی کی شمع روشن تھی تمام تر دینی و دنیوی علوم میں اوج و کمال کے باوجود علم حقیقت و معرفت کی تشنگی ان کے دل کو بیقرار رکھتی تھی۔انہیں روحانی و باطنی رہنمائی کے لیے ایک مرشد کامل کی شدید آرزو تھی۔
ایک بارجب آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے آستانۂ عالیہ کی زیارت کے لیے وہاں حاضر ہوئے تو ایک مجذوب بزرگ سے ملاقات ہوئی آپ نے ان سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں دہلی شہرکے قاضی کے عہدہ پر فائزکر دے۔ان بزرگ نے فرمایا: نظام الدین تم قاضی بنناچاہتے ہو،میں تو تمہیں دینِ حق کے بادشاہ کے عہدہ پر فائز دیکھ رہا ہوں، تم وہ بلند مرتبہ حاصل کروگے کہ ساری دنیا تم سے فیض پائے گی۔حضرت کے دوست مرّبی اور اپنے وقت کے بہت بڑے ولیٔ کامل حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل رحمة اللہ علیہ نے بھی حضرت محبوبِ الٰہی سے فرمایا تھا تم قاضی نہیں ایسی چیز بنوگے جسے میں جانتا ہوں۔
پھر ایک دن ابو بکر نامی ایک قوال ملتان سے دہلی پہنچا اس کی زبانی حضرت خواجہ فرید الدین چشتی گنج شکر رحمة اللہ علیہ کے حالات و کمالات سنے آپ کے دل میں بابا صاحب سے محبت کا ایسا شدید غائبانہ جذبہ بیدار ہواکہ آپ ان کی زیارت کے لیے بیقرارہوگئے اور اجودھن پہنچ کرحضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔حضرت صاحب علیہ الرحمہ کو بہ تائید ربانی حضرت نظام الدین کی روحانی خصوصیات کا علم تھا۔یقیناً حضرت بابا فرید رحمة اللہ علیہ اس امر سے آگاہ تھے کہ نظام الدین کو اللہ پاک نے کس عظیم خدمت کے لیے تیارکیاہے۔حضرت نظام الدین بابا صاحب کے مریدبنے اور چند ماہ اپنے مرشد برحق کی خدمت میں رہ کر ان کی خصوصی توجہ اور محبت حاصل کی۔
خرقۂ خلافت کی نعمت سے سرفراز ہوکر دہلی واپس تشریف لائے اور مرشد کے فرمان کے مطابق مجاہدہ اور عبادات میں مشغول ہوکرمادی دنیاکی تمام خواہشات اور آرزئوں سے الگ ہوگئے۔آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے عبادات اور سخت ریاضت کے ساتھ ساتھ آپ درس و ہدایت اور اصلاح معاشرہ کے فرائض بھی انجام دیتے ۔دلی شہر میں آپ کی عظمت و بزرگی کا زبردست شہرہ ہوا اور ہر وقت ارادتمندوں کا ہجوم آپ کے ارد گرد رہنے لگا اس سے آپ کی عبادات میں خلل پڑنے لگا، آبادی سے گھبرا کر آپ ایک دن موضع حوض رانی کے قریب ایک باغ میں جاکر یادِ الٰہی میں مشغول ہوئے۔وہاں آپ نے دعا مانگی اے اللہ! میں اپنے اختیار سے کہیں رہنا نہیں چاہتاجہاں تیری رضا ہو مجھے وہاں رکھ۔
غیب سے آواز آئی غیاث پور تیری جگہ ہے (واللہ علم) یہ وہی جگہ ہے جہاں آج بستی حضرت نظام الدین اولیاء کا شاندارعلاقہ ہے۔اس وقت غیاث پور ایک چھوٹا ساگائوں تھا اللہ کے حکم سے آپ نے اس متبرک مقام پر قیام فرمایا۔یہ سلطان غیاث الدین بلبن کا دورِ حکومت تھا۔سلطان آپ کا بے حد معتقد تھااس نے آپ سے شہر میں قیام فرمانے کی درخواست کی لیکن آپ نے منع فرما دیاآپ کی برکتوں سے وہ ویران مقام بہت جلد زیارت گاہ خلق بنا۔دور دور سے ہزاروں لوگ آپ کی دعائوں سے اپنی زندگی سنوارنے کے لیے حاضر ہونے لگے یہاں تک کہ آپ کی محبوبیت اور آپ کی ہر دلعزیزی کی شہرت ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیلتی گئی۔
حضرت محبوبِ الٰہی کی بارگاہ میں غریبوں اور عام انسانوں کو ہروقت حاضرہونے کی عام اجازت تھی لیکن بڑے بڑے بادشاہوں کی یہ جرأت نہیں تھی کہ آپ کے حضور حاضر ہو سکیں۔ آپ بادشاہوں کے قرب کو پسند نہیں فرماتے تھے، سلطان بلبن جو ایک دیندار حکمراں اور آپ کا معتقد تھا اسے بھی بالمشافہ ملاقات و زیارت کا شرف کبھی حاصل نہیں ہوا۔ بادشاہ معز الدین کیقباد نے تو صرف اس وجہ سے حضرت کی خانقاہ کے قریب اپنا محل تعمیر کروایا تھا کہ اسی طرح حضرت کا قرب حاصل ہوتا رہے۔ سلطان کی بنوائی ہوئی جامع مسجد میں آپ نماز کے لیے تشریف لیجاتے تھے لیکن سلطان سے ملاقات کے لیے آپ اس کے محل میں کبھی نہیں گئے۔
سلطان جلال الدین خلجی بھی آپ کا بے حد عقیدت مند تھا لیکن اسے بھی کبھی ملاقات کا موقع آپ نے عطا نہیں فرمایا۔ اپنے زمانہ کے طاقتور شہنشاہ ٔ ہند علاء الدین خلجی نے آپ کی زیارت کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ جب علاء الدین کا تیسرا بیٹا مبارک شاہ اپنے ولی عہد بھائی خضر خان کو قتل کرکے بادشاہ بن گیا تو حضرت کو بے حد صدمہ پہنچا کیونکہ شہزادہ حضرت کا جان و دل سے معتقد اور مرید تھا ۔مبارک شاہ کو حضرت سے اس لیے بھی عداوت تھی۔چونکہ آپ کی خانقاہ میں محافل سماع کا اہتمام ہوتارہتا تھا اس لیے آپ کی بزرگی اور مقوبلیت سے حسد کرنے لگا۔ علماء دربار سماع کے جواز و عدم جواز کی بحث کیاکرتے تھے اور حضرت سے اختلاف کے بہانے بادشاہ کے کان بھرتے رہتے تھے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دنیا پرست اور دربار دار علماء کی حضرت محبوبِ الٰہی جیسی علمی و روحانی شخصیت کے سامنے عوام میں کوئی قدروقیمت نہ رہ گئی تھی۔مبارک شاہ حضرت سے عداوت پر اتر آیا اس نے حکم جاری کیاکہ فلاں تاریخ کو نظام الدین شاہی دربار میں حاضر ہوکر ان پر عائد علماء کے الزمات کا جواب دیں۔محبوبِ الٰہی کی روحانی طاقت کا کرشمہ ایسا ہواکہ اسی تاریخ کو مبارک شاہ کو اس کے معتمد غلام خسرو خان نے قتل کر دیا اور جب غیاث الدین تغلق ہندوستان کا بادشاہ بنا تو اس نے سماع کے جواز اور عدم جواز پر ایک مذہبی مجلس منعقد کی تاکہ اس میں حضرت کے مخالف درباری علماء کے ذریعے حضرت کو نیچا دکھایا جا سکے۔
حضرت محبوبِ الٰہی اس مجلس میں تشریف لے گئے اور مباحثے میں علماء کے الزامات کا ایسا مدلل جواب دیاکہ وہ جید علماء جو اپنے علم و فضل پر نازاں تھے لاجواب ہو کر رہ گئے۔بادشاہ غیاث الدین تغلق کو بے حد شرمندگی ہوئی چونکہ اسی دن اسے ایک مہم میں بنگال روانہ ہونا تھا اس لیے اس نے جاتے جاتے حکم جاری کیا۔حضرت اس کے دہلی واپس آنے سے پہلے شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں آپ کے عقیدتمندوں کو اس شاہی حکم نے رنجیدہ و فکر مند کر دیالیکن آپ نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی اور بدستور اپنے معمولات میں مشغول رہے لیکن اس وقت آپ کے مریدوں اور حلقہ بگوشوں کی پریشانی حد سے بڑھ گئی جب بادشاہ دہلی کے قریب پہنچ کر ایک عارضی محل میں مقیم ہواکیونکہ اگلے دن اس کے فاتحانہ استقبال کے لیے شہر میں زبردست تیاریاں کی جا رہی تھیں۔
عقیدت مندوں کے فکر و تشویش ظاہر کرنے پر آپ نے فرمایا” ہنوز دلی دور است” اسی رات کو وہ عارضی محل گر پڑا اور بادشاہ ملبے میں دب کر مر گیا۔ آپ کا تاریخی جملہ ہنوز دلی دور است ضرب المثل بن گیا۔حضرت کا دستر خوان اتنا وسیع تھاکہ خانقاہ کے لنگر میں روزانہ ہزاروں لوگوں کا کھانا تیار ہوتا تھا۔آپ کے دستر خوان سے لاتعداد مہمان و مسافر طرح طرح کی نعمتوں سے سیر ہوتے تھے لیکن خود محبوبِ الٰہی ہمیشہ روزے سے رہتے تھے اور تھوڑی سی جو کی روٹی اور اُبلی ہوئی سبزی کے علاوہ کبھی کسی عمدہ غذا کو ہاتھ نہیں لگایا، فرماتے تھے دنیا میں ہزاروں غریبوں کو کھانا میسر نہیں ایسے میں انہیں کیسے بھول سکتا ہوں۔
آپ کے دربار سے غریبوں محتاجوں اور ضرورتمندوں کی دل کھول کر امداد کی جاتی تھی لنگر خانہ کا خرچ شاہانہ تھا لوگ حیران تھے کہ یہ سب کیسے چلتا ہے آپ کی عظمت و محبوبیت حاسدین کے لیے بہت تکلیف دہ تھی وہ لوگ حیران رہتے کہ محبوبِ الٰہی کو آخر اتنی دولت ملتی کہاں سے ہے۔مریدوں اور عقیدتمندوں کے نذرانوں سے تو اتنا بڑا نظا م چلنے سے رہا۔ حضرت نے خانقاہ میں پانی کے مناسب انتظام کے لیے باولی تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ تعمیر کا کام تیزی سے شروع ہوگیا، پانی نکل چکا تھا اب تعمیر کا کام چل رہا تھا ہزاروں مزدور کاریگر کام کر رہے تھے دن کو ہی نہیں رات کے وقت بھی بڑے بڑے چراغوں کی روشنی میں کام چلتارہتا تھا ایک دن بادشاہ نے شہر میں تیل کے تاجروں کو حکم دیاکہ خانقاہ میں تیل کی فراہمی نہ کی جائے ورنہ سخت سزا دی جائے گی۔
بازار سے تیل ملنا بند ہوا تو رات کو روشنی کا انتظام نہ ہونے کے باعث کام روکنے کی نوبت آگئی آپ کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپ نے باولی کا پانی چراغوں میں بھر کر روشنی کر دی۔پانی آپ کی کرامت سے تیل بن گیا۔ حضرت شیخ نصیر الدین روشن چراغ سے روایت ہے کہ اپنے وقت کے بڑے عالم دین اور بزرگ حضرت قاضی کاشانی ایک دن اس قدر بیمار ہوگئے کہ ان کے بچنے کی کوئی امید باقی نہی رہی حضرت محبوبِ الٰہی کو جب ان کی بیماری کا علم ہوا توعیادت کے لیے تشریف لے گئے اس وقت قاضی صاحب بیہوش تھے۔
لیکن حضرت کے قریب آتے ہی ہوش میں آگئے اور اس طرح صحت مند نظر آنے لگے کہ جیسے کبھی بیمارہی نہ ہوئے ہوں، حالانکہ تھوڑی دیر پہلے تک ان کی ایسی حالت تھی کہ لوگ ان کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ حضرت محبوبِ الٰہی کے ایک مرید نے آپ کی دعوت کی اس موقع پر محفلِ سماع کے لیے مرید نے کچھ قوالوں کو بلوایا جب محفلِ سماع شروع ہوگئی تو بہت سے لوگ وہاں جمع ہوگئے، کھانے کا وقت ہوا تو میزبان کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ کھانا تو صرف چند مہمانوں کے لیے ہی تیار کرایا تھا جب کہ وہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے ان میں زیادہ تر اصحاب حضرت محبوبِ الٰہی کے ارادتمند اور خود میزبان کے شناسا تھے۔
حضرت نے میزبان کی پریشانی محسوس کر لی اور فرمایا سب کے ہاتھ دھلوائو اور دستر خوان پر کھانے کے لیے بیٹھائو۔ پھر اپنے دستِ مبارک سے آپ نے روٹیوں کے چار چار ٹکرے کرکے دستر خوان پر رکھے اور فرمایا ”بسم اللّٰہ !”اس کے بعد پورے مجمع نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا پھر بھی بہت سا بچ گیا۔قصبہ سرساوا میں ایک رئیس اور عالم و فاضل شخص کے مکان میں ایک دن اچانک آگ گئی جس میں ان کی جاگیر کے کاغذات اور شاہی فرمان بھی جل گئے۔ اس حادثہ سے پریشان ہوکر وہ صاحب بھاگے بھاگے دہلی آئے تاکہ جاگیر کی دوسری سند اور شاہی فرمان حاصل کر سکے۔ بڑی کوششوں سے انہیں مطلوبہ فرمان اور کاغذات مل گئے۔
وہ خوشی خوشی دربار سے واپس آئے لیکن راستے میں دہلی کی بھیڑ بھاڑ میں ان کے کاغذات کہیں گر گئے ،بہت تلاش کیا لیکن کوئی پتہ نہیں چلا۔بیحد رنجیدہ ہوئے کہ کسی نے انہیں حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔رنج و غم میں ڈوبے ہوئے وہ صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدد کی درخواست کی۔حضرت نے ان کی روداد سن کر خوشدلی سے فرمایا: مولانا کچھ نذر کرو تو تمہارا کام کروں، مولانا نے عرض کیا جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ قبول فرمائیں، حضرت نے فرمایا اس کی ضرورت نہیں البتہ بازار جاکر تھوڑا حلوہ خرید لائو ۔ مولانا دوڑے ہوئے خانقاہ کے قریب ایک حلوائی کی دکان پر پہنچے اور کچھ درہم اسے دے کر کہا۔
اس رقم کا جتنا حلوہ آتا ہو دے دو۔ حلوائی نے حلوہ تولا اور پاس پڑے ردی کاغذوں سے
ایک کاغذ اٹھایا اور چاہاکہ اسے پھاڑ کر حلوہ باندھ دے کہ انہوں نے دیکھاکہ وہ انہیں کاکاغذ تھاجسے وہ کھو چکے تھے۔فوراً وہ کاغذ اور حلوہ لے کر حضرت رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جوشِ عقیدت سے قدم بوس ہوگئے۔آپ کی زبان مبارک سے جو بات نکل جاتی وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پوری ہو جاتی تھی۔سیر الاولیاء میں مذکور ہے کہ آپ کے یہاں حاضری دینے والے اکثر مٹھائیاں وغیرہ خرید کر تحفتاً آپ کی نذر کیا کرتے تھے ۔ایک بار اس ارادے سے کچھ لوگ آپ کے پاس آ رہے تھے، ان میں ایک مولانا صاحب بھی تھے، انہوں نے سوچا کہ سب کے تحفے ایک ساتھ پیش ہوں گے، شیخ صاحب کا خادم سب کو اٹھا کر لے جائے گا، ایسے میں کسی کو کیا پتہ چلے گاکہ کس نے کیا دیا۔
انہوں نے ایک پڑیا میں بہت سی خاک بھر کر ہاتھ میں لے لی۔جب یہ لوگ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سب نے اپنے اپنے تحفے ایک جگہ رکھ دیے۔خادم یہ سب اٹھاکر لے جانے لگا تو آپ نے مولانا صاحب کی پڑیا کی طرف اشارہ کرکے فرمایا۔اسے چھوڑ کر سب لے جائو، اس میں میری آنکھوں کا سرمہ ہے۔مولانا صاحب نے توبہ کی اور مریدوں کے حلقے میں شامل ہوگئے۔ حضرت محبوبِ الٰہی کے روحانی دربار میں ہندو مسلم کے درمیان کوئی تفریق نہیں تھی، آپ کا فیضانِ رحمت سب کے لیے تھا۔
آپ ساری عمر تجر و بسر کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ آج دنیا داری سے لے کر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور لوگوں کو صراطِ مستقیم دکھانے اور ان کے دکھ درد دور کرنے میں مشغول رہے، البتہ آپنے اپنی ہمشیرہ کی اولاد کو اولاد کی طرح پالا اور تعلیم و تربیت سے آراستہ فرمایا۔آپ نے اپنی زندگی میں ہی حضرت خواجہ نصیر الدین روشن چراغ کو اپنا خلیفہ نامزد فرما دیا تھا۔انہیں خرقۂ خلافت اور تبرکات تفویض فرماتے ہوئے فرمایا تھاکہ تمہیں ان ہی لوگوں میں رہنا اور لوگوں کے ظلم و ستم کو برداشت کرنا ہے۔آپ نے ١٨ ربیع الثانی ٧٢٥ ہجری بمطابق ١٣٢٤ عیسویں کو اس دارِ فانی سے پردہ فرمایا۔
تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی
حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی عقیدۂ علم الغیب پر گفتگو
قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ کوئی آدمی غیب کی بات نہیں جانتااور کوئی نہیں بتا سکتا کہ کہ اس کی موت کب آئے گی اور کہاں آئے گی۔ اور کئی نہیں بتا سکتاکہ بارش کب ہو گی۔ اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کل اس کو کیا پیش آنے والا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ کہ اے محمدؐ لوگوں سے کہہ دیں کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ اور اگر غیب کا علم جانتا ہوتا تو سب آفتوں سے بچا رہتا۔
مگر اس کے ساتھ ہی قرآن مجید میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ ملک سبا کی ملکہ بلقیس کا تخت کون یہاں میرے پاس لا سکتا ہے؟ دربار کے ایک جن نے جواب دیا: میں چند گھنٹے میں وہ تخت یہاں لا سکتا ہوں۔ اس پر حضرت سلیمانؑ کے وزیر حضرت آصف بن برخیا نے کہا: میں پلک چھپکاتے وہ تخت لا سکتا ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا یہ ارشاد کہ انسان غیب کا علم نہیں جانتا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر چیز انسان سے غائب اور غیب ہے بلکہ یہ ہے کہ جو چیز انسان کے علم اور طاقت سے غائب ہے وہ اس کے لیے غیب ہے اور اس کا علم اس کو نہیں ہے لیکن جب خدا کے دیئے ہوئے کسی علم کے ذریعے کوئی اانسان کسی غیبی چیز کو جان لیتا ہے تو پھر وہ چیز اس علم والے انسان سے غائب نہیں رہتی اور اس وقت اس آدمی کو عالم الغیب کہا جا سکتا ہے یعنی اس چیز کا علم رکھنے والا جو اس چیز کے علم نہ رکھنے والوں سے غائب اور غیب ہے۔ چنانچہ اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو یہ حکم دیا تھا کہ تم لوگوں سے کہہ دو کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا پھر بھی قرآن مجید میں ایسی بہت سی باتوں کا ذکر ہے جن کو آنحضرتﷺ نے بیان کیا ور جن کا علم آنحضرتﷺ کو وحی کے ذریعے ہوا۔ مثلا قرآن میں معراج کا ذکر ہے کہ حضرتﷺ زمین سے عرش اعظم تک گئے اور خدا سے ملے اور جنت، دوزخ کو دیکھا اور پھر اپنے گھر میں واپس آگئے اور اتنی جلدی واپس آگئے کہ آنحضرت کا بچھونا گرم تھا اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی۔ پس یہ چیز ان سب لوگوں سے غائب تھی جو اس غیب کا علم نہ رکھتے تھے مگر آنحضرتﷺ اس غیب کے عالم تھے۔اس طرح آنحضرتﷺ نے آئندہ کی نسبت فرما دیا تھا کہ روم اور شام اور ایران مسلمان فتح کر لیں گے حالانکہ یہ اس وقت فرمایا تھا جبکہ کوئی ظاہری طاقت اتنے بڑے بڑے ملکوں کو فتح کرنے کی مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ تھی۔ یا جس وقت آنحضرتﷺ کے چچا حضرت عباؓ بد کی لڑائی میں قید ہوئے اور آنحضرتﷺ نے قیدیوں کو فدیہ لیکر چھوڑنا شروع کیاتو حضرت عباسؓ نے کہا: اے محمدﷺ! تم کو معلوم ہے کہ تمہارا چچا بہت مفلس ہے اور اس کے پاس فدیہ دینے کو کچھ نہیں ہے تو اس وقت آنحضرتﷺ نے مدینے میں بیٹھے بیٹھے فرمایا: چچا، مکے میں تمہارے گھر کے اندر فلاں جگہ تھیلی میںاتنا سونا رکھا ہے۔یہ سن کر حضرت عباسؓ فورا مسلمان ہو گئے اور انہوں نے کہا: اس سونے کی خبر میرے سوا اور کسی کو نہیں تھی۔ تم یقینا سچے پیغمبر ہو جو تم کو اس سونے کی خبر ہوگئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ ایک ایسا علم جانتے تھے جو دوسروں سے غائب اور غیب تھا اور آنحضرتﷺ ہی اس غیب کے عالم تھے۔
اسی طرح مکے کے دشمن چند مسلمانوں کو دھوکے سے مکے میں لے گئے اور وہاں بڑی بے دردی سے دشمنوں نے ان مسلمانوں کو مار ڈالا۔ جس وقت وہ مسلمان مرنے لگے تو انہوں نے بلند آواز سے کہا: یارسول اللہﷺ تم پر سلام۔ اسی وقت آنحضرت ﷺ نے مدینے میں بیٹھے بیٹھے فرمایا: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ اور اس کے بعد سب مسلمانوں سے فرمایا: تمہارے فلاں بھائی مکے میں اس وقت شہید ہوئے، ان کے لیے دعا کرو اور ان کے جنازے کی نماز پڑھو۔
الغرض اسی قسم کے بے شمار واقعات قرآن مجید میں اور حدیثوں میں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسے علم عطا فرمائے ہیں جن کے ذریعے وہ غیب کی باتیں جان لیتے ہیں۔چنانچہ جہاں حضرت بلقیس کے تخت لانے کا ذکر ہے وہاں حضرت آصف کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس شخص نے پلک چھپکاتے بلقیس کا تخت لانے کے لیے کہا جس کو خدا کی طرف سے ایک علم دیا گیا تھا اور قرآن مجید میں یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو زک دینے کے لیے حضرت آدم ؑ کو اسماء کا علم سکھایا تھا۔
نظامی بنسری، ۲۳۳ ۔۲۳۵
نوٹ: نظامی بنسری کتاب حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مرید احمد ایاز(راجکمار ہر دیودکن کے ہندو شہزادے جو بعد میں مسلمان ہوئے) کی کتاب چہل روزہ سے ماخوذ ہے۔ اس کی ترتیب و تحشیہ خواجہ حسن نظامی دہلویؒ نے کی ہے۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا حالات، خدمات اور تعلیمات
انسانوں کی ہدایت و رہ نمائی کے لیے اپنے منتخب اولوالعزم بندوں کو مامور کرنا سنتِ الٰہیہ رہی ہے۔معاشرے سے لادینیت،بد مذہبیت،ناخداپرستی،بے رحمی،مکاری و عیاری،غرور و کبر،ظلم و جبر،نخوت و بغاوت غرض ہر قسم کی فکری و عملی،سماجی واخلاقی،تمدنی ومعاشی اورسیاسی برائیوں کے سدِ باب کے لیے اﷲ رحمٰن و رحیم نے اپنے مخصوص بندوں کو مبعوث فرمایا،جنہوں نے اپنے کردار و عمل اور خلوص و وفا کے ذریعے انسانی اقدار کے احیا کا فریضہ انجام دیا،جن کے نالۂ نیم شبی اور سوزِ دروں نے بڑے بڑے عالمی روحانی انقلاب برپا کیے،جنہوں نے شعورِ بندگی بخشا،وقارِ آدمیت سے روشناس کرایا، سجدوں کو آوارگی سے،پیشانیوں کو رُسوائی سے بچایا،دلوں کو آلودگی سے پاک کیااور ایسا چمکایاکہ روشن ضمیر کردیا۔افکارکو مہکایا اور کردار کو چمکایا……اس سلسلۂ رشد و ہدایت کی سب سے منور و مقدس کڑی انبیاے کرام کی مبارک جماعت ہے۔حضور خاتم النبیین مصطفی جانِ رحمت صلی اﷲ تبارک و تعالیٰ علیہ وسلم کی بعثتِ مقدسہ کے ساتھ انبیا کی آمد کا سلسلہ بند ہوگیا ۔
نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا
(حضرت رضاؔ بریلوی)
اب یہ اہم فریضہ نائبینِ انبیا (صحابہ،تابعین،تبع تابعین،اولیا،صوفیا،علما و صلحا)من جانب اﷲ انجام دیتے ہیں۔ان ہی نائبینِ انبیا میں ایک چمکتا، دمکتااور مہکتا نام سلطان المشایخ،محبوبِ الٰہی، ملک الفقراوالمساکین ،نظام الحق والدین، احمد بن محمد بن دانیال بدایونی المعروف خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ کا ہے۔
مختصر حالاتِ زندگی: حضرت نظام الدین اولیاکی ولادت شہر بدایوں میں ماہ صفر ۶۳۱ ھ میں ہوئی۔آپ کا نام محمد بن احمد بن علی بخاری ہے۔ا آپ کی کم سِنی ہی میں والد ماجد وصال فرماگئے۔تعلیم و تربیت کے لیے والدہ ماجدہ نے مدرسہ میں داخل کیاجہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔مزید تحصیلِ علم کے لیے دہلی میں شمس الملک خواجہ شمس الدین خوارزمی کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔علوم ظاہری میں مہارتِ تامہ حاصل کی اور علمی استعدادکی بنا پر ’’نظام الدین منطقی‘‘تو کبھی ’’نظام الدین اصولی‘‘اور کبھی ’’مقررِ محفل شکن‘‘ کے القاب سے پکارے جاتے۔ابتدائی زمانۂ طالبِ علمی ہی میں حریق المحبت برہان العاشقین فریدالحق و الدین سیدنا خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ کے روحانی فضائل وکمالات نے کشورِ دل کو فتح کرلیا تھا چناں چہ دہلی میں حصولِ تعلیم سے فراغت کے بعد تقریباً۲۰سال کی عمر میں اجودھن(پاک پٹن شریف)میں فریدِ وقت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔اور اسی محفل میں شیخ فریدالدین نے یہ شعر پڑھا
اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ
(تیری فرقت اور جدائی کی آگ نے کئی دلوں کو کباب کردیا اور تیرے شوق کی آگ نے کئی جانیں خراب کردیں)۲
اپنی حاضری کا ذکر خود حضور محبوب الٰہی نے کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’۶۵۵ھ رجب کی پندرہ تاریخ چہار شنبے کے دن مسلمانوں کے دعاگو اور سلطان الطریقت (حضرت فریدالدین گنج شکر)کے ایک مرید بندہ نظام الدین احمد بدایونی(یعنی حضرت سلطان المشایخ خواجہ نظام الدین اولیا)کو دولت پاے بوسی حضرت سیدالعابدین(بابافرید)حاصل ہوئی۔حضرت بابافرید نے کلاہ چار ترکی جو اس وقت ان کے سرِ مبارک پر تھی اتار کر اپنے ہاتھ میں لی اور دعاگو(حضرت نظام الدین )کے سر پر رکھ دی اور خرقہ خاص اور چوبی نعلین(یعنی کھڑاویں)عطا فرمائیں۔الحمدﷲ علیٰ ذالک!
نیز ارشاد فرمایا کہ مَیں ہندستان کی ولایت کسی دوسرے کو دینی چاہتا تھا مگر تم راستے میں تھے اور دل میں ندا ہوئی کہ صبر سے کام لیا جائے نظام الدین احمد بدایونی پہنچتا ہے، یہ ولایت اس کی ہے۔اس کو دینا۔یہ دعاگو یہ کلمات سن کر کھڑا ہوگیا اور اشتیاق زیارت کی بابت کچھ کہنا چاہتا تھا ، مگر حضور شیخ الاسلام کی اتنی دہشت طاری ہوئی کہ کچھ کہہ نہ سکا۔حضرت شیخ الاسلام نے حالت معلوم کر لی اور فوراً یہ الفاظ ان کی زبانِ مبارک پر آئے کہ بے شک تمہارے دل میں اشتیاق تھا اور یہ بھی فرمایاکہ ’’ہر داخل ہونے والے کے لیے دہشت ہوتی ہے۔‘‘۳
حضرت محبوب الٰہی نے شیخ فرید الدین مسعود علیہ الرحمہ کی بارگاہ سے علمی و روحانی فیض حاصل کیا اور خلافت سے سرفراز ہوکر ۶۵۹ ھ میں دہلی لوٹے،۴دہلی کے قریب بستی غیاث پور میں نظامِ خانقاہی قایم کیااور مسند رشد و ہدایت کو زینت بخشی۔آپ صاحبِ کشف و کرامات تھے۔متعدد کرامات کا آپ سے ظہور ہوا جو زبان زد ِہر خاص و عام ہے۔غیاث پور میں قیام کے ابتدائی دور میں کافی تنگ دستی اور فاقوں سے گزر اوقات ہوتی ۔اسی دور میں سلطانِ وقت نے گاؤں کی پیش کش کی تو صوفیانہ شانِ استغنا کا مظاہرہ کیا اور فرمایا کہ: ’’مجھے اور میرے خدمت گاروں کو تمہارے گاؤں کی چنداں ضرورت نہیں،میرا اور ان کا خدا کارساز اور سیر سامان ہے۔‘‘۵……پھر دستِ غیب سے آپ کی امداد ہوئی،آپ کی مقبولیت کا ستارہ چمکا،عوام و خواص،شاہ و گدا،عالم و جاہل سب آپ کی طرف رجوع کرنے لگے،اب خانقاہِ نظامی سے دست گیری ،غریب نوازی اور انسان سازی کاکارنامہ انجام دیاجانے لگا۔روزانہ آپ کے لنگر کھانے سے ہزاروں لوگ فیض یاب ہونے لگے مگر آپ کا حال یہ تھا کہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے،مسلسل روزے رکھتے اور سحری میں خادم کھانا پیش کرتے تو اس خیال سے نہیں کھاتے کہ نا جانے اس وقت کتنے لوگ بھوکے پیاسے سورہے ہوں گے۔۶ خلق کی درد مندی کی ایسی انوکھی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے یقینا یہ ایک صاحبِ دل اور مردِ حق آگاہ ہی کی صفت ہوسکتی ہے۔
اس دور میں آپ نے جو’’ انسان سازی‘‘ کاسب سے اہم کارنامہ کا انجام دیا، مریدین کی باطنی اصلاح فرماکر انہیں کشورِ ولایت کی حکم رانی عطا کی۔آپ کے مریدین و خلفا کی ایک طویل فہرست ہے جو زہد و تقویٰ،علمیت و روحانیت اور ولایت غرض ہراعتبار سے اپنے عہد میں یکتاے روزگار شمار کیے جاتے ہیں۔ان مریدین و خلفا نے بھی بزرگانِ چشت کے مشن کو آگے بڑھایا،گلشن اسلام کی آب یاری کی،انسانی اقدار کے احیاکا فریضہ انجام دیا۔ان میں حضرت خواجہ نصیرالدین محمود اودھی چراغ دہلوی،حضرت امیر خسرؔو،حضرت برہان الدین غریب،حضرت امیر حسن علا سجزی،حضرت مولانا شمس الدین یحییٰ،حضرت مولانا فخرالدین زرادی،شیخ کمال الدین یعقوب گجراتی علیہم الرحمۃورضوان وغیرہم کی دینی و علمی و ادبی اور صوفیانہ خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
خدمات و اثرات: بلا شبہہ شریعت کے زینے کے بغیر منزلِ ولایت تک رسائی تقریباً ناممکن ہے۔اس لیے کہ شریعت زینہ ہے اور طریقت جلوۂ بالاے بام ہے۔دین پر استقامت، سنتِ مصطفی علیہ التحیۃ و الثناء پر عمل آوری کے بغیر ولایت کا خواب سجانا ریت کا محل بنانے کے مترادف ہے۔جو خود ہدایت یافتہ نہیں وہ بھلا لوگوں کی رہ نمائی کیسے کرسکتا ہے؟اسی لیے جاہل صوفی کو ’’شیطان کا مسخرہ‘‘ کہا گیا ہے،۷ جو خود بھی گم راہ ہوتا ہے اور اپنے پیچھے ایک قوم کو بھی گم راہ کرتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنے کردار و عمل کو موافقِ دینِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کیا جائے تاکہ آگے رسائی ممکن ہوسکے……اس ضمن میں جب ہم حضرت نظام الدین اولیا کی کتابِ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ہر ہر ورق سے اطاعت و شرعی پابندی کے ساتھ ساتھ تصلب فی الدین کے ناقابلِ فراموش واقعہ اور نصیحت آمیز ارشادات ملتے ہیں جو سالکینِ راہ کے لیے بہترین زادِ راہ ہے۔بادشاہوں کے درباروں سے پرہیز، ان کی بے جاخوشامد سے بچنا،خلوت و گوشہ نشینی کے باجود خلقِ خدا کی امداد و دست گیری،حاجت روائی،ذہنی و فکری رہ نمائی و تربیت،روحانی اقدار اور انسانی اوصاف کی تعمیر و تصحیح، آسودگی و تنگ دستی ہر دو حالتوں میں صبر و شکر اور ہمہ وقت یاد و ذکر الٰہی وغیرہ ہر دور میں اولیا و صوفیا کے اہم اوصاف رہے ہیں،مذکورہ تربیتی عناصر نے ہر دور میں اولیا و صوفیا کو مخلوق کے دلوں کا فرماں روا بنائے رکھا،بغیر کسی دنیاوی عہدوں اور مادی طاقتوں کے اولیاے کرام نے ہر دور میں دلوں کی تسخیر کی اور یادِ مولیٰ عزوجل کی شرابِ طہور کا متوالا بنایا،لوگ زنگ آلود دل لے کر حاضر ہوتے یہ اپنی ضربِ ھوٗ سے دل کے زنگ کو دھوتے،صیقل کرتے،Heart Washingکرتے ،تزکیۂ نفس فرماتے،قلوب کی تطہیر کرتے،اتنا چمکاتے کہ دل میں اچھائی کی محبت برائی سے نفرت پیدا ہوجاتی ۔اپنی کیمیا اثر نگاہوں کی نشترزنی سے بدبختی اور گم راہی کے ناسور کو نکال پھینکتے۔ملفوظات کے ذریعے بھی صالح روحانی معاشرے کی تشکیل کا فریضہ بڑے احسن انداز میں بزرگانِ دین نے انجام دیا ہے…… حضرت محبوبِ الٰہی مذکورہ تمام اوصاف و روایاتِ صوفیا کے محافظ و امین اور مبلغ و معلم تھے۔آپ نے مختلف سلاطین کے عہد کو دیکھا،سلاطین نے آپ کو مال و زر،زمین و جائیداد اور اعلیٰ مناصب کی پیش کش بھی کی مگر آپ نے خدمتِ خلق،عبادت و ریاضت اور تربیت کومنتخب کیا،غیاث پور کی خانقاہِ چشتیہ نظامیہ کا دربار کسی بادشاہ کے دربار سے کم نہ تھا بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بادشاہوں کے دربار سے بھی اعلیٰ و ارفع شان تھی آپ کی خانقاہ کی۔ہر وقت حاجت مندوں کا ہجوم ہوتا، ان کی حاجت روائی ،دردمندوں کے درد کا مداوا کیا جاتا، مصیبت زدوں کی دست گیری کی جاتی،بھوکے پیاسوں کی سیرابی کا ایسا انتظام تھا کہ اس دور میں روزانہ ہزاروں افراد کے لیے آپ کی خانقاہ میں لنگر کا انتظام کیا جاتا تھا۔معاشرتی اقدار اور اسلامی کردار کی تعمیر میں آپ نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اس سے متاثر ہوکر دانش وروں نے آپ کو ہندستان کا سب سے بڑا مسلمان بزرگ بتایاہے۔ ۸
تبلیغ و اشاعتِ دینِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے بزرگانِ چشت نے جو خدمات انجام دیں وہ اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں۔سلطان الہند خواجہ غریب نوازکے بعدان کے خلفاخصوصاً حضرت خواجہ قطب الدین اوشی کاکی،خواجہ حمیدالدین ناگوری پھرحضرت سید محمد صاحب دعوۃالصغریٰ، حضرت فریدالحق والدین سیدنا مسعود گنج شکرپھر حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی ( رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین )کا دور آیا۔محبوب الٰہی نے اپنے اسلاف کی پیروی اور اپنی منصبی ذمہ داری کو بہ حسن وخوبی نبھایا۔خود بھی تبلیغ اسلام فرمائی،مسلمانوں کی اصلاح و تزکیہ کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں میں دعوتِ دین کا کام کیا اور اپنے خلفا و مریدین کو تبلیغِ اسلام کی خاطر مختلف بلاد و امصارِ ہند میں بڑی تعداد میں متعین کیا اس طرح اسلام کی جڑیں دورِ نظامی میں جس طرح ہند میں مضبوط ہوئیں وہ ہماری دعوتی تاریخ کا روشن باب ہے۔جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت مولانا خواجہ برہان الدین غریب ہانسوی کو خلافت و اجازت عطا فرمائی اور انہیں سات سو(۷۰۰)مریدوں کے ہم راہ جنوبی ہندستان کے علاقۂ دکن میں دعوت و ارشاد کے لیے روانہ کیا۔اسی طرح بعض مؤرخین کے مطابق سلطان المشایخ نے (حضرت برہان الدین غریب )سے پہلے حضرت غریب کے سگے بھائی حضرت شاہ منتجب الدین زرزری زر بخش علیہ الرحمہ کو سات سو (۷۰۰)مریدین کے ساتھ علاقۂ دکن کی روحانی تسخیر کے لیے روانہ کیا تھا اور حضرت زرزری زر بخش کے وصال کے بعد ان کے بھائی حضرت غریب کو اسی علاقہ کو تعلیماتِ اسلامی کے نور سے منور کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ ۹نیز پروفیسر خلیق احمد نظامی نے بھی ’’گلزار ابرار‘‘کے حوالے سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ’’ان ایام میں زمینِ ہند کو عجیب زمانہ حاصل تھا۔کیوں کہ آپ (محبوب الٰہی) کی بارگاہِ خلافت سے وقتاً فوقتاً جو نئے نئے خلیفہ روانہ ہوتے تھے،ان کی فیض پاشی سے ہند کا ہر مکاں اور ہر قطعہ زمیں ہدایت آباد تھا۔ایک روایت ہے کہ آپ نے بڑے بڑے شہروں میں بڑے بڑے مرتبے اور بڑی کرامتوں والے سات سو خلیفہ ایسے روانہ کیے تھے کہ ہر شخص کے سینے میں گویا عرفان کا آفتاب طلوع کرتا تھا۔ ۱۰ اسی طرح شیخ کمال الدین یعقوب کو خرقۂ خلافت عطا کرکے گجرات کی سمت روانہ کیا……بہر حال خطۂ دکن میں آج جو اسلام کی فصلِ بہار لہلہا رہی ہے اس میں حضرت نظام الدین اولیا اور ان کے خلفا و مریدین کا خونِ جگر ضرور شامل ہے۔
یہاں ایک سوال سطح ذہن پر نمودار ہوسکتا ہے کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں اپنے خلفا و مریدین کو خطۂ دکن کی طرف روانہ کیوں کیا گیا؟اس علاقہ کا انتخاب کس طرف اشارہ دیتا ہے؟……جب ہم ان سوالات کے جواب تاریخ کے آئینے میں تلاش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے حضرت محبوب الٰہی کے وصال کے چند ہی دنوں بعد اپنی سیاسی حکمتِ عملی اور پالیسی سے سلطان محمد تغلق سلطنتِ ہند کے صدر مقام کوشمال( دہلی) سے دکن کی طرف منتقل کرنے والاتھا اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت محبوب الٰہی نے اﷲ کریم کی دی ہوئی نگاہِ بصیرت، فراستِ مومنانہ اور کشف و کرامت سے مشاہدہ کرکے پہلے ہی سے دکن میں اسلامی تعلیم اور تزکیۂ نفس کے مراکز کا انتظام کرلیاتھا……اسی طرح حضرت محبوب الٰہی نے لوگوں کو مرکز سے مربوط رکھنے کے لیے دہلی میں حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کو مسند رشد و ہدایت کی زینت بنایااور اپنا جانشین بھی۔
محبتِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم: محبتِ رسولِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایمان کی جان ہے،مومن کی شان اور پہچان ہے۔اس محبت کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوسکتا،یہ مقصودِ غلامی بھی ہے اورتمغۂ ایمانی بھی۔اس محبت کا تقاضا ہے کہ محبوب کی اطاعت وفرماں برداری کے ساتھ اُس کے فضائل و کمالات،اختیارات و خصوصیات کو صدقِ دل سے تسلیم بھی کیا جائے اور ان کا چرچہ بھی کیا جائے۔ حضرت محبوبِ الٰہی کے ملفوظات میں جگہ جگہ اس ایمانی جوہرکی تابانی قلب و نظر کو خیرہ کرتی ہے۔احادیث و حکایات سے عشقِ رسول و اولیا کی خوش بو پھوٹتی ہے اور مشامِ جاں معطر و معنبر ہوجاتی ہے۔’’افضل الفوائد‘‘ میں ایک مجلس کے ملفوظات ماہِ رجب کی فضیلت پر مشتمل ہیں جس میں ضمناً معجزات ومعراجِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر شروع ہواتو شوق و وارفتگی میں آقاے دوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فضل و شرف،کمال و انعام کا والہانہ ذکر کیا آخر میں فرماتے ہیں:’’اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزے لکھنے لگوں تو ایک سو بیس سال تک ایک صفت نہیں لکھی جاسکتی،اس لیے اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔‘‘۱۱
زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے
پر، تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا
شریعت کی پاس داری اورنماز کی محبت:نماز افضل العبادات ہے،معراج المؤمنین ہے،افتخارِ عبدیت ہے،روح کی غذا ہے،راحتِ دل و راحتِ جاں ہے،نماز میں کأنک تراہٗ کا احساسِ شدید ہوتا ہے جوتصوف کا مقصود ہے،نمازخدا سے ہم کلامی ہے اور اُس ذات گرامی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے جس سے محبت عینِ ایمان ہے۔اولیا و صوفیا نے ہر حالت میں نماز کی پابندی کی۔حضرت محبوبِ الٰہی بھی ان بندگانِ خاص میں تھے جنہیں نماز سے بے پناہ محبت اور رغبت تھی اور شریعت کی پاس داری کا خیال اس قدر رہتا کہ جب بھی لوگ ملنے آتے اور رمضان مبارک کا مہینہ ہوتا تو صدقۂ فطر اور تراویح کا ضرور پوچھتے،نمازوں کی پابندی ور احکامِ شرع پر عمل آوری کی تلقین کرتے،آپ کی مجالسِ ذکراور ملفوظات کے مجموعوں میں اس کی متعددمثالیں ملتی ہیں۔ ۱۲آپ کے معمولات میں اوابین،ایامِ بیض کے روزے،نمازِ چاشت،صلوٰاۃ السعادت(چار رکعت)،تلاوتِ قرآن تھی۔ زندگی بھر شریعت پر تصلب کی برکت سے آخری وقت بھی نماز کی پابندی کا ثمرہ ملا کہ وصال شریف سے چالیس روز پہلے جب آپ نے کھانا ترک کردیا تھا اور سکر (جو اہلُ اﷲ کا وصف ہے)کا عالم تھا اس میں بھی نماز کی پابندی کرتے تھے۔لوگوں سے پوچھتے کہ کیا مَیں نے نماز ادا کرلی؟جواب ملتا کہ ،جی ہاں !آپ نماز ادا فرماچکے تو ارشاد فرماتے مَیں دوبارہ پڑھتا ہوں،غرض آخری ایام میں ہر نماز کو تکرار سے پڑھتے۔۱۳
اس واقعہ سے وہ لوگ سبق سیکھیں جن کے دامنِ عمل نمازوں کی قضا کے بھار سے بوجھل ہیں مگر بڑے بڑے دعوائے ولایت کرتے پھرتے ہیں۔اسی طرح وہ حضرات جو محض کسی کی ظاہری شان وشوکت اور جعلی کرامات کا چرچا سُن ایسے بے نمازی،مخالفِ شرع اور جوگی نما ’’ خام صوفیا ‘‘کو اﷲ کا ولی سمجھ بیٹھتے ہیں،یاد رہے ایسے بے عمل اور بے تکے افراد ہی کے افعال و کردارکو بنیاد بناکر آج ایک طبقہ اصل صوفیا ،ان کے مشن اور تعلیمات کو نشانہ بنارہا ہے۔حضرت محبوبِ الٰہی کی کتاب حیات کا یہباب ہر مخالف و موافق کے لیے درسِ عبرت بھی ہے اور دعوتِ عمل بھی۔
وصال: ۱۸ربیع الآخر ۷۲۵ھ کو بعد نمازِ ظہر حضرت محبوب الٰہی نے حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی کو طلب کیا اور خرقہ،عصا،مصلا،تسبیح اور کاسہ،چوبیں وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے،انہیں عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و جفا اٹھانے کی تلقین کی۔انہیں اپنا نائب اور جانشین مقررکیا۔پھر نماز عصر ادا کی۔اور۱۸ربیع الآخر کے آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کردہلی میں غروب ہوگیا،یہیں دفن کیے گئے ۱۴ اور آج بھی آپ کا مزارِ پر انوار لاکھوں دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہاہے۔
ملفوظات و ارشادات: حضرت محبوب ِ الٰہی علیہ الرحمۃ کی کسی مستقل تصنیف کا علم نہ ہوسکا البتہ آپ نے اپنے پیر و مرشدحضرت فرید الدین مسعود گنج شکرکے ملفوظات کو ’’راحت القلوب‘‘کے نام سے مرتب کیا تھاجس کے متعدد اردو ترجمے شایع ہوکر مقبول ہوچکے ہیں اسی طرح آپ کے دو خلفا طوطیِ ہند حضرت امیر خسرؔو اور سعدیِ ہند حضرت امیر حسنؔ علا سجزی علیہماالرحمۃ نے بالترتیب ’’افضل الفوائد‘‘ اور ’’فوائدالفواد‘‘ کے نام سے آپ کے ملفوظات مرتب کیے ہیں جو ’’ہشت بہشت‘‘(ملفوظات بزرگانِ چشت)میں شامل ہے۔ذیل میں ان دومؤخرالذکر کتب سے بالترتیب حضرت محبوبِ الٰہی کے چند ملفوظات پیش کرکے مضمون ختم کیا جاتاہے:
٭پوچھا گیاکہ محبت کی اصلیت کیا ہے تو فرمایا:’’دوستی کی صفائی ہے۔اس واسطے کہ محبانِ حق دنیا او رآخرت حاصل کرنے کواپنا شرف نہیں سمجھتے تھے۔بلکہ وہ حق کو پالینے میں اپنا شرف جانتے تھے۔المرء مع من احبہٖ‘‘ پھر پوچھا گیاکہ محبت میں مصیبت کیوں ہوتی ہے؟،فرمایا:’’ہر ایک کمینہ اس کا دعویٰ نہ کرے۔اور جب اس پر مصیبت پڑے تو پیٹھ دکھاجائے۔‘‘۱۵
٭دانا اور عقل مند وہی شخص ہے جو پیش آنے والے سفر یعنی موت کے لیے تیاری کرے اور اپنے ساتھ کچھ توشہ لے۔۱۶
٭خوف (خوفِ الٰہی)بے ادب بندوں کے لیے تازیانہ ہے۔جس سے ان کی درستی کی جاتی ہے۔۱۷
٭جسے اﷲ تعالیٰ محفوظ رکھے ، خواہ لاکھوں ابلیس در پے کارہوں ،اسے ذرہ بھر ضرر نہیں پہنچتا۔۱۸
٭جب انسان کو کوئی شخص تکلیف دے یا کوئی چیز چھین لے ،اسے بد دعا نہیں کرنی چاہیے بلکہ دانت پیس کر رہ جانا چاہیے تاکہ اس کا مقصد حاصل ہوجائے اور اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے اقبال کو بڑی اچھی طرح جانتا ہے۔۱۹
٭شریعت میں خواہ دل حاضر ہو یا نہ ہو،نمازدرست ہوتی ہے۔مگر طریقت میں اصحابِ سلوک کہتے ہیں کہ جب دل حاضر نہ ہواور حق تعالیٰ کے سوا کسی اور کا خیا ل دل میں آئے،نماز جائز نہیں ہوتی،اسے پھر پڑھنا چاہیے کیوں کہ خیالات کا آنانمازکا فاسد ہے۔۲۰
٭عارف کی علامت یہ ہے کہ وہ خاموش رہتا ہے۔اگر بات کرتا بھی ہے تو حسبِ ضرورت۔۲۱
٭مَیں نے ایک بزرگ سے سنا ہے کہ جو شخص اپنے نفس کا عاشق بنتا اس پر خود پسندی ،حسد اور خواری عاشق ہو جاتے ہیں۔۲۲
٭اولیا کا ذکرکرنے سے راحت نازل ہوتی ہے۔۲۳
٭جو شخص تین باتوں کو عزیز جانے گادوزخ اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہوگا۔اوّل: اچھا کھانا۔دوم: اچھا کپڑا پہننا۔سوم: دولت مندوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا۔۲۴
٭اطاعت لازمی اور متعدی ہے۔لازمی وہ ہے جس کا نفع صرف کرنے والے کی ذات کو پہنچے۔اور یہ نماز،روزہ،حج،وِرد اورتسبیح ہے۔متعدی وہ ہے جس سے اَوروں کو فایدہ پہنچے،التفات،شفقت،غیر کے حق میں مہربانی کرنا وغیرہ اسے متعدی کہتے ہیں،اس کا ثواب بے شمار ہے۔لازمی طاعت میں اخلاق کا ہونا ضروری ہے۔تاکہ قبول ہو لیکن متعدی طاعت کا خواہ کس طرح کی جائے ثواب مل جاتا ہے۔۲۵
٭صدقے میں پانچ شرطیں ہوں توبے شک صدقہ قبول ہوتا ہے۔ان میں سے دو عطا سے پہلے،دو عطا کے وقت اور ایک(عطا کے) بعد میں ہوتی ہے۔عطا سے پہلے کی دو شرطیں (یہ)ہیں:
اول:جو کچھ دے وہ حلال کی کمائی ہو۔دوم:دوسرے کسی نیک مرد کو دے جو اسے بُرے کام میں خرچ نہ کرے۔
عطا کے وقت کی دو شرطیں یہ ہیں:
اول: تواضع اور ہنسی خوشی سے دے۔دوم:پوشیدہ دے۔
بعد کی شرط یہ ہے کہ جو کچھ دے اس کا نام نہ لے بلکہ بھول جائے۔۲۶
حوالہ جات:
(۱)اخبارالاخیار،از:شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ص۱۲۹،مطبوعہ لاہور۔……نوٹ:شہزادہ محمد دارا شکوہ قادری نے ’’سفینۃالاولیا‘‘میں آپ کا نام محمد بن احمد بن دانیال بدایونی لکھاہے۔(ص۱۳۳مطبوعہ دہلی)……نیز خواجہ عابد نظامی(مدیر ماہ نامہ ضیائے حرم لاہور)لکھتے ہیں:’’آپ کے والدبزرگوار حضرت سید احمد بن دانیال غزنی (افغانستان)سے ہندوستان آئے اور شہر بدایوں (بھارت)میں متوطن ہوئے۔‘‘(حالاتِ زندگی حضرت نظام الدین اولیا،مشمولہ راحت القلوب،ص۳۷،مطبوعہ لاہور)
(۲)ملخصاً،اخبارالاخیار،ص۱۲۹،۱۳۰۔ملخصاً، راحت القلوب،ص۳۷،۳۸۔
(۳)راحت القلوب (ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر)مرتبہ: حضرت سلطان نظام الدین اولیا،ص۵۶،مطبوعہ لاہور
(۴)راحت القلوب،ص۴۲۔
(۵)تاریخ مشایخ چشت،از:خلیق احمد نظامی،ص۱۹۲،مبطوعہ لاہور،بحوالہ سیرالاولیا،ص۱۳۰۔
(۶)ملخصاً، تاریخ مشایخ چشت،ص۱۹۲۔
(۷)مطالعہ کیجیے :مقال عرفاء،از امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلوی
(۸)تاریخ مشایخ چشت،ص۱۹۵۔
(۹)ملخصاً،روضۃالاولیا،از علامہ غلام علی آزاد بلگرامی،ص۵۶مطبوعہ مالیگاؤں
(۱۰)تاریخ مشایخ چشت،ص۱۹۵
(۱۱)افضل الفوائد،(مرتبہ: امیر خسرؔو)مشمولہ ہشت بہشت،ص۴۵۶مطبوعہ دہلی
(۱۲)مطالعہ کیجیے:فوائدالفواد،مرتبہ: حضرت امیر حسن علا سجزی
(۱۳)اخبارالاخیار،ص۱۳۷
(۱۴)ملخصاً،حالاتِ زندگی حضرت نظام الدین اولیا،مشمولہ راحت القلوب،ص۵۴
(۱۵)افضل الفوائد،ص۴۴۲
(۱۶)ایضاً،ص۴۴۴ (۱۷)ایضاً،ص۴۴۴ (۱۸)ایضاً،ص۴۶۸
(۱۹)ایضاً،ص۴۷۵ (۲۰)ایضاً۴۱۹ (۲۱)ایضاً،ص۴۸۳
(۲۲)ایضاً،ص۴۸۳ (۲۳)ایضاً،ص۵۰۱ (۲۴)ایضاً،ص۵۰۷
(۲۵)فوائدالفواد،مشمولہ ہشت بہشت،ص۶۱۷ (۲۶)ایضاً،ص۶۴