امام المتوکلین، سید المحققین، بانی سلسلہ عالیہ شاذلیہ حضرت شیخ ابوالحسن سید علی الشاذلی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار امت مسلمہ کے اکابر اولیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے وقت کے قطب تھے۔ آپ کا سلسلہ فیض مشرق و مغرب میں یکساں عام ہے۔ بڑے بڑے اولیاء و صالحین آپ کے سلسلہ میں داخل ہوکر واصل باللہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو عزت و عظمت امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمائی وہ رفعت کم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ درود تاج شریف اور معروف دعا حزب البحر آپ ہی سے منقول ہیں۔"
امام شاذلی کانام و نسب؛
امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی علی، کنیت ابوالحسن اور لقب امام الاولیاء، قطب زمان معروف ہیں اور آپ سلسلہ عالیہ شاذلیہ کے بانی ہیں۔آپ کے والد گرامی کا اسم گرامی سید عبداللہ رحمۃاللہ علیہ تھا، جن کا شمار اپنے وقت کے جید علماء و مشائخ میں ہوتا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق حسنی سادات خانوادے سے تھا اور آپ کا شجرہ نسب گیارہ واسطوں سے سیدنا امام حسن المجتبیٰ علیہ السلام سے جاملتا ہے۔ آپ کا شجرہ نسب کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے؛ شیخ سید ابوالحسن علی شاذلی بن سید عبداللہ بن سید عبدالجبار بن سید یوسف بن سید یوشع بن سید بردبن سید بطال بن سید احمد بن سید محمد بن سید عیسیٰ بن سید محمد بن سیدنا امام حسن المجتبیٰ علیہما السلام۔
امام شاذلی کی ولادت باسعادت؛
امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 593 ہجری میں مراکش کے مغرب میں واقع قصبہ غمارہ میں ہوئی۔ آپ کے بچپن میں آپ کے والدین نے غمارہ سے تیونس کے قصبہ شاذلہ میں رہائش اختیار کرلی اور اسی نسبت سے آپ شاذلی کہلاتے ہیں۔
امام شاذلی کی تعلیم و تربیت؛
امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ عطافرمایا تھا، آپ نے بچپن میں ہی قرآن کریم حفظ کرلیا اور ابتدائی تعلیم و تربیت قصبہ غمارہ میں ہی حاصل کی۔شاذلہ میں رہائش پذیر ہونے کے بعد علوم شریعہ اور فقیہ کے حصول کے لیے آپ نے قصبہ فاس کی طرف سفر کیا۔ فاس میں آپ نے شیخ نجم الدین اصفہانیؒ سے عربی ادب اور صوفی کبیر عبداللہ بن ابوالحسنؒ سے علم الاخلاق اور تزکیہ کے جوہر سمیٹے اور اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے مدینۃ العلوم عراق تشریف لے آئے۔اس زمانے میں عراق علوم اسلامیہ کا مرکز مانا جاتا تھا، امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف علماء و شیوخ کی صحبت میں رہتے ہوئے علوم ظاہر میں کمال درجہ مہارت حاصل کی کہ شیخ ابن عطاء اللہ سکندری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کو نوجوانی میں ہی تمام علوم و فنون پر ایسا ملکہ حاصل تھا کہ آپ کسی بھی ماہر فن سے مناظرہ جیت سکتے تھے۔
امام شاذلیؒ کی بیعت و خلافت؛
امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ نے علوم ظاہر میں ید طولیٰ حاصل کرنے کے بعد راہ سلوک کا رخت سفر باندھا اور بالآخر ایک عرصہ عبادت و ریاضت اور مختلف اسفار کے بعد سیدنا عبدالاسلام بن مشیش رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی۔ شیخ عبدالاسلام بن مشیش رحمۃ اللہ علیہ نے آپ پر خصوصی نظر کرم فرمائی اور آپ نے اپنے مرشد کریم کی زیر نگرانی عبادت و ریاضت اور مجاہدات کرکے سلوک کی منازل طے کیں۔امام شاذلیؒ کے شیخ کریم آپ سے خصوصی شفقت و محبت فرماتے تھے اور آپ کے جذبہ اور شوق کو خوب سراہتے تھے۔ کچھ عرصہ شیخ کی خدمت میں رہنے کے بعد آپ کے شیخ کریم نے آپ کے خلافت و اجازت سے مشرف فرمادیا۔
امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے بغداد شریف کا سفر کیا کہ وہاں کے مشائخ سے علوم باطنی میں استفادہ حاصل کرسکوں۔ اسی سلسلہ میں میں نے بہت سے اولیاء و مشائخ کی صحبت اختیار کی مگر شیخ ابوالفتح واسطی رحمۃ اللہ علیہ جیسا مردکامل میں نے سرزمین عراق میں نہیں پایا۔ ایک مرتبہ میں شیخ ابوالفتح واسطیؒ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ قطب زمان کی بات چل نکلی، میں نے دل میں ہی سوچا کہ عراق میں اتنے اولیاء کرام ہیں قطب وقت بھی ان ہی ہستیوں میں سے کوئی ہوگا۔ شیخ ابوالفتح واسطیؒ میرے ارادے سے مطلع ہوگئے اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ اے ابوالحسن! آپ عراق میں قطب وقت کو تلاش کررہے ہیں؟ حالانکہ وہ تو آپ کے علاقے میں تشریف فرما ہیں اور ان کا اسم گرامی شیخ عبدالاسلام بن مشیش رحمۃ اللہ علیہ ہے۔
امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے آبائی علاقے کی طرف روانہ ہوا اور شیخ قطب عبدالاسلام بن مشیش رحمۃ اللہ علیہ کو غمارہ کے پہاڑوں میں پایا۔شیخ کریم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے میں نے غسل کیا اور اپنے علم و عمل کو دل سے نکال دیا کیونکہ بھرے ہوئے برتن میں کچھ نہیں سماتا اور فقیر کا حلیہ اپنا کر حاضر خدمت ہوا۔ جیسے ہی میں شیخ کریم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ مرحبا یا ابوالحسن! اور ساتھ ہی میرا شجرہ نسب خاتم النبیین حضور نبی کریمﷺ تک بیان فرمادیا۔ امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں شیخ کریم کے کشف سے ورطہ حیرت میں گم ہوا ہی تھا کہ آپ ے فرمایا اے سید علی! آپ علم و عمل اور شاہانہ لباس سے آزاد ہوکر فقیرانہ حلیے میں حاضر ہوئے ہو، ہمیں آپ کی یہ عاجزی بہت پسند آئی ہے، ہم بفضل رب تعالیٰ آپ کو دنیا و آخرت میں غنی کردیں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں کچھ دن شیخ کریم کی خدمت میں رہا کہ شیخ کریم کے فیض صحبت سے میرا قلب و روح روشن اور شادمان ہوگئے۔
امام شاذلیؒ کو حضور نبی کریمﷺ کی زیارت؛
امام شاذلیؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے خواب میں حضور نبی کریمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور آپﷺ نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! اپنے کپڑوں کو میل سے پاک رکھو تاکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہردم کامیاب رہو۔میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ! میں اپنے کپڑے کیسے صاف رکھوں؟ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ خلعتیں عطا فرمائی ہیں، اول خلعت محبت، دوم خلعت معرفت، سوم خلعت توحید، چہارم خلعت ایمان اور پنجم خلعت اسلام۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے میرے بیٹے! ان خلعتوں پر کاربند رہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا خاص فضل و کرم فرمائے گا۔ روایات میں ہے کہ امام شاذلیؒ نے ان پانچ خلعتوں کو ہمیشہ پاک و صاف رکھا اور ان کو کبھی گردآلود نہیں ہونے دیا۔
امام شاذلیؒ اور درود تاج؛
روایات میں ہے کہ جب امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کو حضور نبی کریمﷺ کی زیارت ہوئی تو آپ نے شیخ ابوبکر رحمۃ اللہ علیہ کا مرتب کردہ درود تاج حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا، جسے حضور نبی کریمﷺ نے بہت پسند فرمایا اور یہ درود تاج اب آپ کے نام کے ساتھ بھی منسوب کیا جاتا ہے۔
امام شاذلیؒ اور اسم اعظم؛
حضرت شیخ ابوالحسن المعروف امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے شیخ کریم شیخ عبدالاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا کہ شیخ کریم کی گود مبارک میں ایک بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میں شیخ کریم سے اسم اعظم کا سوال کروں۔ ابھی میں نے یہ سوچا ہی تھا کہ وہ بچہ کھڑا ہوا اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ اے ابوالحسن! جس اسم اعظم کا سوال آپ اپنے شیخ کریم سے کرنا چاہ رہے ہیں، وہ اسم اعظم تو آپ خود ہیں یعنی آپ جو سوال بھی کریں گے اللہ تعالیٰ آپ کے کسی سوال کو رد نہیں فرمائے گا۔آپ بچے کی بات سن کر بہت حیران ہوئے، آپ کے شیخ کریم مسکرائے اور فرمایا کہ اس بچے نے ہماری طرف سے جواب دیا ہے اور جو بھی کہا ہے وہ بالکل حق اور سچ کہا ہے۔
امام شاذلیؒ اور دعائے حزب البحر؛
روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ قصد حج کے لیے بحری سفر کررہے تھے کہ آپ کی ذات پرسمندر میں سفر کی حفاظت کی دعا منکشف ہوئی اور یہ دعا دعائے حزب البحر کے نام سے معروف ہوئی۔ یہ دعا صوفیاء کرام میں بہت مقبول ہے اور تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس کو اپنایا ہے اور بہت سے اولیائے کرام نے اس دعا کی فضیلت سے مقام ولایت کی منازل طے کی ہیں۔ دعائے حزب البحر کے بارے میں معروف ہے کہ جو کوئی اس دعا کو طلوع آفتاب کے وقت پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرمائے گا، اس کی تکلیف کو دور کرے گا اور لوگوں میں اس کی قدرو منزلت کو بلند اور اس کی تنگدستی کو کشادگی سے بدل دے گا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ دعائے حزب البحر کے بہت بڑے عامل تھے۔ آپ نے فارسی میں اس کی شرح بھی لکھی۔
سلسلہ شاذلیہ؛
روایات میں ہے کہ امام شاذلیؒ کے شیخ طریقت شیخ عبدالاسلام مشیش رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ ابومدین مغربی رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض حاصل کیا تھا اور شیخ ابو مدین مغربیؒ کی ملاقات سفر حجاز میں حضور غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی اور حضور غوث اعظمؓ نے شیخ ابومدین مغربیؒ کو خرقہ خلافت بھی عطا فرمایا اور اپنے خاص فیضان سے بھی نوازا۔ اس لحاظ سے سلسلہ شاذلیہ، سلسلہ قادریہ کی ہی ایک ذیلی شاخ ہے اور اس سے جڑا ہوا ہے اور امام شاذلی سے منسوب سلسلہ شاذلیہ کا فیضان شرق و غرب میں یکساں عام ہے۔
وصال مبارک؛
امام شاذلیؒ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ہرسال حج کرتے تھے۔ روایات میں ہے کہ 656 ہجری میں آپ نے حج کا ارادہ فرمایا اور مصر سے حج کے لیے روانہ ہوئے اور صحرائے عیداب کے مقام پر پہنچ کر اپنے اصحاب کو جمع فرمایا اور انہیں تقویٰ، ایثار، بھائی چارہ، دین داری اور دعائے حزب البحر کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنی اولادوں کودعائے حزب البحر لازمی حفظ کروانا کہ یہی اسم الاعظم ہے۔ پھر اپنے خلیفہ خاص شیخ ابوالعباس مرسی رحمۃ اللہ علیہ کو بلاکر خصوصی فیوض و برکات سے نوازا اور اپنے بعد شیخ ابوالعباس مرسی ؒ کو اپنا خلیفہ و نائب مقرر فرمایا۔
اس کے بعد آپ نے پانی منگوایا تو پتہ چلا کہ قریبی کنوے کا پانی کھارا ہے، آپ نے فرمایا کہ پانی لایا جائے، پانی آیا تو آپ نے کلی مبارک فرمائی اور اپنا دھوون برتن میں ڈال کر فرمایا کہ اس کو واپس کنویں میں ڈال دیں۔ روایات میں ہے کہ امام شاذلیؒ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کنویں کے کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کردیا۔ امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ حج کے ارادے سے نکلے تھے اس لیے حالت احرام میں تھے، آپ نے دو رکعت نماز نفل کی نیت فرمائی اور آخری سجدے میں واصل باللہ ہوئے۔ معروف روایت کے مطابق امام شاذلیؒ نے ذیقعد 656 ہجری میں تقریباً 63برس کی عمر میں وصال فرمایا۔ آپ کا مزار شریف وادی حمیثرا، مصر میں مرجع خلائق ہے۔
امام شاذلیؒ اکابرین امت کی نظر میں؛
امام شاذلیؒ کا مقام وریٰ الوریٰ ہے اور اکابرین امت نے آپ کی تعریف و توصیف میں بہت کچھ تحریر فرمایا ہے، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں؛
شیخ مکین الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بہت سے حضرات لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ شیخ ابو الحسن المعروف امام شاذلیؒ لوگوں کو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں۔
شیخ تقی الدین بن دقیق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام شاذلی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑا عارف نہیں دیکھا۔
شیخ عبداللہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے خواب میں حضور نبی کریمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوالحسن! تو میرا بیٹا ہے۔
مآخذ؛
امام ابوالحسن شاذلیؒ حیات و خدمات
رحلہ حج شیخ ابوالحسن الشاذلی
نفحات منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ
نفحات الانس