• کرم کی بھیک ملے تو حیات بنتی ہے        حضورﷺ آپ نوازیں تو بات بنتی ہے
  • رخِ حضورﷺ کا صدقہ یہ دن چمکتا ہے       آپ ﷺ کی زلفوں کے سائے سے رات بنتی ہے
  • ملے جو اذن ثنا ء کا تو لفظ ملتے ہیں       اگر ہو آپﷺ کی مرضی تو نعت بنتی ہے
  • در حبیبﷺ کی زیارت بڑی سعادت ہے       ہو آپﷺ کا بلاوہ تو برات بنتی ہے
  • جسے وسیلہ بنایا تمام نبیوں نے       اسے وسیلہ بناؤ تو بات بنتی ہے
Madina Munawara
الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمْ
وہ جہنم میں گیا جو ان سے مستغنی ہوا
ہے خلیل اللہ کوحاجت رسول اللہ ﷺ کی
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبی ﷺ
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۔ سورۃ احزاب (۶۔۳۳)
یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے

حضرت شاہ عنایت قادری شطاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حیات و تعلیمات

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کا تذکرہ آتے ہی ذہن ان لاتعداد اولیائے کرام اورعلمائے عظام کی طرف ازخود منتقل ہوجاتا ہے جنہوں نے شب و روز جدوجہد کرکے اس وسیع و عریض سرزمین میں وحدانیت کی روشنی پھیلائی۔ انہیں بزرگ،جید، پیر روشن ضمیر اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کےعاشق بے نظیر ہستیوں میں حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔
حضر ت شاہ عنایت قادری شطاریؒ حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور پیر وارث شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیر و مرشد ہیں۔ ڈاکٹر لاجونتی رام کرشنا اپنی انگریزی کتاب پنجابی صوفی پوئٹس میں رقم طراز ہیں کہ حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا شمار عظیم ترین صوفیا میں ہوتا ہے، جو تخیل میں مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت شاہ شمس الدین تبریزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہم پلہ ہیں۔ یہ خیال اور تخصیص اپنی جگہ اہم ہے تاہم اگر یہ بلند مقام حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو حاصل ہے تو ان کے پیر مرشد کی عظمت کا کیا شمار ہو گا؟

حضر ت شاہ عنایت قادری شطاریؒ کی قبل از ولادت خوش خبری

شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے قبل آپ کے والد ماجد پیر محمد صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ایک مست و مجزوب درویش ہر روز صبح کی نماز کے وقت ملتا اور آپ کے ہاتھ چوم کر کہتا ، پیر محمدصاحبؒ! آپ کے خاندان کو چومانے اور چمکانے والا آ رہا ہے ۔کچھ عرصہ بعد اس مجذوب کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور آپ کے گھر ایک چاند سے بیٹے نے جنم لیا اور یہی بچہ بڑا ہو کر حضرت شاہ عنایت قادری شطاری رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کیا جانے لگا اور آسمان ولایت پر خوب نام پیدا کیا ۔روایات میں ہے کہ شاہ عنایت قادریؒ کی ولادت کے بعد وہ مجذوب جو آپ کے والد ماجد کو مبارک باد دیتا تھا ، ہمیشہ کے لئے غائب ہو گیا اور بہت کوشش کے با وجود بھی اس کو کائی سراغ نہ مل سکا ۔

شاہ عنایت قادری ؒ کی ولادت اور نام و نسب

حضر ت شاہ عنایت قادری شطاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک بلند پایہ مفسر، فقہیہ اور پنجاب کے اکابر علماء و صلحا میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق مزنگ لاہور سےتھا اور آپ کاتعلق آرائیں قوم سےتھا، جو پشت در پشت یہاں آباد تھے اور کاشتکاری اور باغبانی کے شعبہ سے وابستہ تھے اور کھیتی باڑی ہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔
حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قصور میں 1056ھ بمطابق 1643ء میں پیدا ہوئے اور آپ کا اسم گرامی محمد عنایت اللہ ، کنیت ابوالمعارف اور والد ماجد کا نام شیخ پیر محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھا۔ آپ کے والد ماجد لاہور چھوڑ کر قصور آباد ہو گئے تھے، کیوں کہ ان کے سسرال (یعنی شاہ عنایت قادریؒ کے ننہال) قصور میں تھے ، اس لئے وہ بھی قصور میں رہنے لگے۔ روایات میں ہے کہ شیخ پیرمحمدؒ کے سسر ایک مسجد میں خطیب اور امام تھے ، ان کے وصال کے بعد حضرت پیر محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کی جگہ خطابت کے فرائض سر انجام دینے کی غرض سے قصور آئے اور پھر یہی آباد ہوگئے۔

حضر ت شاہ عنایت قادری شطاریؒ کی تعلیم و تربیت

شاہ عنایت قادری شطاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک علمی اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ماحول اور صوفی منش گھرانے کے اعجاز کے باعث آپ بچپن ہی سےفقر و تصوف اور روحانی علوم کی طرف مائل ہو گئے۔ آپ کے والد ماجد شیخ پیر محمدؒ ایک با عمل عالم دین ، متقی و پرہیز گار اور نیک سیرت انسان تھے ۔ انہوں نے اپنے صاحبزادے کی تعلیم و تربیت کا آغاز اپنے گھر سے ہی بڑے احتمام سے کیا اورآپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔
حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ چونکہ بچپن سے ہی بڑے ذہین و فطین تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلیم الفطرت ہونے کی عظیم دولت سے مالا مال کیا تھا۔ آپ نے تقریباً 5 برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیااور تقریباً 9 برس کی عمر تک متعدد علماء و فضلاء سے عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی اور عالم شباب تک دینی علوم یعنی تفسیر، حدیث اور علوم فقہ میں مہارت تامہ حاصل کی اور ظاہری علوم و فنون کی دستار فضیلت سے بہرہ مند ہوئے۔

شاہ عنایت قادری ؒ کی بیعت و ارادت

ظاہری علوم کی تکمیل کے بعدشاہ عنایت قادریؒ اصلاح باطن کی خاطر کسی درویش کی تلاش میں گھر سے نکلے اور راہ سلوک پر چلتے ہوئے لاہور میں حضرت شاہ محمد رضا شطاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے در اقدس پر حاضر ہوئے کہ شاہ محمد رضا شطاریؒ کا آستانہ اس وقت علوم ظاہری و باطنی کے ساتھ سلوک و تصوف کا حقیقی مرکز تھا۔ حضرت شاہ عنایت قادریؒ حضرت شاہ محمد رضا شطاریؒ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور ایک طویل عرصہ تک لاہور میں اپنے مرشد کی خدمت میں رہے اور مرشد کے زیر نگرانی بے پناہ ریاضت و مجاہدہ کیا اور علوم باطنیہ کی تکمیل پر آپ کے پیر و مرشد حضرت شاہ محمد رضا شطاریؒ نے آپ کو خرقہ خلافت عطا کیا اور یوں شاہ عنایت قادریؒ کا سلسلہ طریقت شطاریہ قادریہ بنا۔

برصغیر میں سلسلسہ قادریہ شطاریہ کی ترویج

سلسلہ شطاریہ سلسلہ قادیہ کی ایک ذیلی شاخ ہے، تذکرہ نگاروں کے مطابق حضرت عبداللہ قادری شطاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 890ھ بمطابق 1485ء کو اپنے مرشدحضرت شیخ محمد عارف طیفوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حکم پر ایران سے ہندوستان تشریف لائے اور کچھ عرصہ جون پور میں میں قیام کرنے کے بعد مالوہ میں متمکن ہو گئے اور برصغیر میں سلسلہ قادریہ شطاریہ کی بنیاد رکھی۔ اہل علم و معرفت نے آپ سے استطاعت کے مطابق کسب فیض حاصل کیا اور یوں سلسلہ قادریہ شطاریہ ہندوستان بھر میں پھیل گیا اور دہلی، آگرہ، اجمیر شریف، سرہند شریف، کابل، بیجاپور، اجین، سہارن پور بہار میں سلسلہ شطاریہ کے بزرگوں نے اشاعت اسلام کی خدمت کی۔
سلسلہ قادریہ شطاریہ کے بزرگوں میں حضرت شیخ وجیہہ الدین گجراتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قابل ذکر ہیں۔ آپ کے خلیفہ سید ابوتراب المعروف حضرت رضا شاہ قادری شطاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شمالی پنجاب ، لاہور میں روحانیت کے شہباز بلند پرواز معروف ہوئے۔حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسی چمنستان شطاریہ کے نوشگفتہ پھول تھے، جنہیں حضرت رضا شاہ شطاری ؒ جیسی نابغہ روزگار ہستی نے عبادت و ریاضت،علم و عرفان کا بحرالعلوم بنادیا۔

قصور میں سلسلہ رشد و ہدایت کا آغاز

حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے پیر و مرشد سے خرقہ خلافت پانے کے بعد انہی کے حکم کے مطابق اپنے شہر قصور میں واپس چلے گئے اور تبلیغ اسلام میں مصروف ہو گئے اور کچھ ہی عرصہ میں آپ کے علم و عرفان، کشف و کرامات، تصرفات و فضیلت اور علمیت و عقلیت کے چرچے چہاردانگ پھیل گئے۔ آپ کے درس قرآن و حدیث اور فقہ میں شریک ہونے کے لیے لوگ دور دور سےآتے اور اپنا دامن علم و فیض سے بھرتے اور آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوجاتے۔
پیر عنایت شاہ قادریؒ کا شہرہ اور حلقہ ارادت کو بڑھتے ہوئے دیکھ کرآپ کے مخالفین اور حاسدین کا ایک گروہ پیدا ہو گیا اور خاص کر جب حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کی بیعت کی تو ایک طوفان برپا ہو گیا کہ ایک سیدہ زادہ ایک آرائیں کا مرید ہوگیا ہے۔

حضر ت شاہ عنایت قادری شطاری ؒکے قصور چھوڑنے کی وجہ

قصور شہر پر نواب حسین خان افغان کی حکمرانی تھی جو کہ ظالم، جابر اور متکبر ہونے کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔ شاہ عنایت قادریؒ کی شہرت کی مخالفت میں حسد کی آگ اتنی بھڑکی کہ قصور کا حاکم حسین خان افغان بھی جلد ہی آپ کا مخالف ہو گیا کیونکہ حاکم کو کسی نے بھڑکایا کہ شاہ عنایت قادری ؒ کے عقیدت مندوں اور مریدوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے اور اگر ان کے کہنے پر تمہارے ظلم و جبر کے خلاف بغاوت ہو گئی تو تمہارا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ خوف زدہ حاکم قصور شاہ عنایت قادری ؒ کو اپنے اقتدار کا دشمن سمجھنے لگا اور آپ کے خلاف مختلف سازشیں کرنے لگا، جس وجہ سے آپ کا قصور میں رہنا محال ہو گیا۔ روایات میں ہے کہ اسی زمانے میں پنجابی زبان کے مشہور صوفی شاعر حضرت پیر سید وارث شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو ئے۔
کم قصورحسین خان افغان نے ایک دن حضرت شاہ عنایت قادری شطاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بلایا اور کہنے لگا کہ آپ کی وجہ شہرت دن بدن بڑھ رہی ہے جو کہ آپ اور آپ کے مخالفین میں تکرار کی وجہ بن سکتی ہے جس سے شہر کے امن و آمان کو نقصان پہنچ سکتا ہے لہذا آپ کے لئے قصور میں رہنا مناسب نہیں ، آپ کہیں اورتشریف لے جائیں ۔ جس پرحضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے ، ہم قصور سے چلے جاتے ہیں اور اسی دن اپنے اہل و عیال سمیت قصور سے لاہور کی طرف چل پڑے۔

حاکم قصور حسین خان افغان کا انجام

حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے لاہور پہنچنے کے بعد نواب حسین خان نے ایک رنگو نامی برہمن شخص کو مسلمان کیا ۔ اس کے متعلقین بیساکھی کے روز امرتسر میں سکھوں کے سردار گلاب سنگھ کے پاس داد خواہ ہوئے اور سکھوں نے آپس میں اتفاق کر کے قصور پر حملہ کر دیا اور سخت لڑائی کے بعد سکھ بھاگ گئے ۔ اسی دوران گلاب سنگھ نے دو غیر مسلم ماہی گیروں کو دو ہزار روپیہ کا لالچ دے کر حسین خان کے قتل پر آمادہ کر لیا ۔جب حسین خان سکھوں پر فتح پانے کے بعد قصور جا رہا تھا کہ راستہ بھٹک کراپنی فوج سے علیحدہ ہو گیا اور ان ماہی گیروں کی کمین گاہ پر پہنچ گیا جہاں اس کو قتل کردیا گیا۔

شاہ عنایت قادریؒ کی لاہور آمد

حضرت شاہ عنایت قادری شطاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قصور سے لاہور آ کر ہدایت خلق میں مصروف ہو گئےاور درس و تدریس کا ایساسلسلہ جاری کیاجوجلدہی وسیع ہو گیا۔ آپ کے درس میں قرآن ، تفسیر ، حدیث اور فقہ کا علم پڑھائے جانے کے علاوہ مثنوی مولانا روم ، فصوص الحکم اور تصوف کی کتب کا بھی باقاعدہ درس ہوتا تھا جس سے بے شمار ارادت مندوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت ہوتی۔ آپ اپنے پاس آنے والوں کو اتباع شریعت کا درس دیتے کیوں کہ اس پابندی شریعت میں بہت سی مصلحتیں اور روحانی منازل کی تکمیل ہے۔ آپ کی قیام گاہ پر کبھی کبھار محفل سماع کا بھی انعقاد ہوتا ، جس میں دیوان حافظ ، دیوان شمس تبریز ، مولانا جامی اور دیگر عارفوں کا کلام پڑھا جاتا۔

جنوں کی شاہ عنایت قادریؒ سے عقیدت

حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جہاں انسانوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے تھے وہاں جن بھی آپ کی خدمت میں حاضری دیتے تھے اور غلامی کا دم بھرتے تھے۔ روایات میں ہے کہ دو جن (مخدوم اور محمود نامی) آپ کے پاس رہتے تھے، جو قرآن مجید بڑی خوش الحانی سے پڑھتے تھے۔

حضر ت شاہ عنایت قادری شطاریؒ کی تصانیف

حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ آپ نےچند کتب بھی تحریر فرمائیں جن میں؛
غایت الحواشی
ملتقط الحقائق شرح کنز الدقائق
تنقیح المرام فی مبحث الوجود
لطائف غیبیہ
اذکار قادریہ
مجموعہ عرفانی شرح مجموعہ سلطانی
رسالہ درمسئلہ حرب و دارالحرب
ذیل اغلاط فی مسائل الغصب فی الافراط
دستور العمل
اذکار غیبیہ
کلمات التامہ فی رد مطاعن الشفات
رسالہ بہز الطاعات
حواشی جواہر خمسہ
رسالہ منقال ان الدعا فی الرزق کفر
رسالہ فی حل شر الدخان
زیادہ شہرت کی حامل ہیں۔ صوفیانہ مسلک پر آپ کی اپنی کتاب دستور العمل قابل ذکر ہے۔ اسکے علاوہ گوالیار کے شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب جواہر خمسہ،کنزالاحقائق،غائیتہ الحواشی کی شرع بھی آپ نے تحریر کی۔

حضرت شاہ عنایت قادریؒ کے خلفاء و مریدین

حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلفاء اور مریدین میں حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت پیر وارث شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت مشہور ہوئے۔ حضرت بابا بلھے شاہؒ اپنی عارفانہ کافیوں کی وجہ سے اور حضرت وارث شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی ہیر رانجھا جیسی لازوال تصنیف کی بدولت آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔
حضرت بابا بلھے شاہؒ جب شاہ عنایت قادری ؒکی مریدی میں آئے تو ان کے رشتے داروں نے انہیں لعن طعن کی کہ وہ سید زادےہیں اور انہوں نے ایک آرائیں کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ لیکن حضرت بابا بلھے شاؒہ نے اپنے مرشد کا بھرپور دفاع کیا اور اپنے سید ہونے کی مذمت کی۔
بلھے نو سمجھا ون آئیاں بہناں تے بھرجائیاں
من لیا بلھیا ساڈا کہنا چھڈ دے پلہ آرائیاں
آل نبی دی اولاد علی دی توں کیوں لیکاں لائیاں
جیہڑا سانوں سید آکھے دوزخ ملن سزائیاں
جیہڑا ساہنوں آرائیں آکھے بہشت پینگاں پائیاں
اپنے مرشد کی سر بلندی قائم رکھنے کے لئے حضرت بابا بلھے شاہ ؒ سید ہونے کی بجائے آرائیں ہونے کو ترجیح دیتے ہیں، مرشد کے لئے یہ فریفتگی غیر معمولی ہےاور تاریخ میں اس کی بہت کم نظیر ملتی ہے۔
شاہ عنایت قادریؒ، قادری سلسلے کے پیر تھے اور مذہبی تعلیم اور تصوف (قادری سلسلہ )کا درس دیتے تھے۔ آپؒ کا تعلق بغداد کے روحانی پیشوا پیران پیرحضور غوثِ اعظم حضرت شاہ عبدالقادرجیلانی سے جاملتا ہے۔ اس کی تصدیق آپؒ کے مرید خاص حضرت بابابلھے شاہؒ اس طرح کرتے ہیں ۔
پیراں پیر بغدادا ساڈا،مرشد تخت لاہور
اوہ اسیں سبھ اکو کوئی آپ گڈی آپ ڈور
حضرت شاہ عنایت قادریؒ ،حضرت بابابلھے شاہؒ کی شاعری کا متن ہیں اور مرشد سے محبت و عقیدت حضرت بابا بلھے شاہؒ کی شاعری سے چھلکتی ہے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ حضرت بابابلھے شاہ ؒاور حضرت شاہ عنایت قادریؒ ایک ہی رسی کے دوسرے ہیں جو ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
بلھے شاہ نوں سدوں شاہ عنایت دے بوہے
جس پہنائے سانوں ساوے سوہے
سانوں گھائل کرکے فیر خبر نالئی آ
تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا

بابا بلھے شاہؒ کی حضرت شاہ عنایت ؒ کی خدمت میں حاضری

حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اصل نام سیدعبد اللہ شاہ ہے اورآپ نے بابا بلھے شاہؒ کے نام سے شہرت پائی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے آباؤ اجداد ملک شام سے ہجرت کر کے اوچ شریف تشریف لائے تھےجہاں 1680ء میں اوچ گیلانیاں میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ کا تعلق سادات گھرانے سے تھا اور آپ کا شجرہ نسب 14 واسطوں سے حضور غوث اعظم الشیخ سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔
بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد ماجد حضرت سید سخی شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ ایک بلند پائیہ عالم با عمل انسان اور درویش صفت بزرگ تھے۔جب بابا بلھے شاہؒ کی عمر مبارک چھ برس ہوئی تو آپ اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ اوچ شریف سے ہجرت کر کے ضلع ساہیوال آگئے جہاں آپ کے والد ماجد نے کچھ عرصہ امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیئے اور تھوڑا عرصہ بعد وہاں سے ہجرت کر کےضلع قصور کے قریب پانڈو کے گاؤں میں سکونت پذیر ہو گئے۔
ابتدائی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کےبعدایک مرتبہ بابابلھے شاہؒ کے والد ماجد نے آپ سے پوچھا کہ علم حاصل کرنے کے بعد خود کو کیسا محسوس کرتے ہو؟ آپ نے جواب دیا :ذہن پر سکون ہے ۔ والد ماجد نے پوچھا:اور دل کی کیا حالت ہے؟ آپ ؒ نے جواب دیا: اضطراب ، بے چینی اور بے سکونی کی کیفیت طاری ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ کے والد ماجد نے پھر پوچھا کہ آپ کے استاد محترم نے اس کا علاج نہیں کیا ؟ جس پر آپ نے جواب دیا کہ استاد محترم نے فرمایا تھا کہ آپ کے دل کا علاج کسی روحانی طبیب کے پاس ہے جس کا پتہ میں نہیں بتا سکتا۔ پھر والد صاحب نے ایک وظیفہ بتایا کہ اسے پابندی کے ساتھ کرو ، انشاء اللہ کوئی راستہ ضرور نکلے گا۔
حضرت بابا بلھے شاہؒ نے اپنے والد ماجد کا بتایا ہو وظیفہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی روحانی تشنگی کو دور کرنے کے لئے رہبر کامل اور مرشد صادق کی تلاش جاری رکھی۔چند دن بعد آپ کے آباؤاجداد میں سے ایک بزرگ نے آپ کو شاہ عنایت قادریؒ کےحوالے سے اشارہ دیا۔بابا بلھے شاہؒ نے یہ معاملہ اپنے والد بزرگوارکو بتایا تو انہوں نے حضرت شاہ عنایت قادریؒ کی خدمت اقدس میں انتہائی ادب واحترام کے ساتھ حاضر ہوکر بیعت وارادت کی تلقین کی اور یوں حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت شاہ عنایت قادری شطاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کےحلقہ ارادت میں آگئے۔
بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ جب اپنے پیرو مرشد کی بارگاہ میں پہنچے تو اس وقت حضرت شاہ محمد عنایت قادری رحمۃ اللہ علیہ بھاٹی گیٹ کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض کے ساتھ درس و تدریس بھی کرتے تھے۔ جب بابا بلھے شاہؒ حضرت شاہ عنایت قادریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اپنے کشف سے جان لیا کہ بابا بلھے شاہؒ ایک پہنچا ہوا جوان ہے، چنانچہ انہیں اپنے حلقہ ارادت میں شامل کرلیا اور کچھ عرصہ زیر نگرانی تربیت فرمانےکے بعد عبادت و ریاضت کے ذریعے نفسانی خواہشات اور نمود و نمائش کے حجابات کو دور کر نے کی تلقین کرنے کے ساتھ چند نصیحتیں ارشاد فرمائیں۔
اے عبد اللہ ! اپنے نفس کو عادی بناؤ کبھی بھوک کا کبھی پیاس کا، کبھی تیزدھوپ کا تو کبھی سخت سردی کا ۔
یاد رکھو ! ایثار ، صبر ، قناعت اور توکل ، تصوف کی عمارت کے چار ستون ہیں ۔ اگر ایک ستون بھی کمزور ہو جائے تو عمارت میں مضبوطی نہیں رہتی اور وہ گر سکتی ہے۔
بے شک! ہم سب عالم اسباب میں سانس لے رہے ہیں مگر مسبب الاسباب اسی کی ذات پاک ہے ، غیر کی گلیوں میں زندہ رہنے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنے محبوب کے کوچے میں مر جائے، اللہ تم پر منزل شوق آسان فرمائے ۔
روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت شاہ عنایت قادری شطاریؒ کے بھتیجےاور داماد قصور تشریف لائے جہاں بابابلھے شاہؒ انہیں وقت نہ دے پائے جس پر شاہ عنایت قادریؒ نے ان سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ بابا بلھے شاہؒ نے تلافی چاہی مگر اس کی کوئی صورت نہ نکلی تو انہوں نے سلسلہ شطاریہ کے بزرگ شیخ محمد غوث گوالیاریؒ جن سے شاہ عنایت قادریؒ بڑی عقیدت رکھتے تھے کے مزار شریف (بھارت) پر حاضری دی اور مراقبہ میں اپنے دل کی حالت بیان کی۔ بابا بلھے شاہؒ کو اشارہ ہوا کہ شاہ عنایت قادریؒ جن قوال حضرات کی قوالی سنتے ہیں، آپ بھی ان میں شامل ہوکر اپنا حال دل بیان کریں۔ بابابلھے شاہؒ نے مغنیہ کا روپ دھارکر شاہ عنایت قادریؒ کے سامنے اپنا دکھ اور درد بیان کیا
سانوں گھائل کرکے مڑکے خبر نہ لئی آ
تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا
شاہ عنایت قادریؒ نے حضرت بابا بلھے شاہؒ کو پہچان لیا اور فرمایا کہ آپ بلھا ہو؟ جس پر بابا بلھے شاہؒ نے جواب دیا، بلھا نہیں سرکار ، بھولا ہوا۔ حضرت شاہ عنایت قادریؒ نے حضرت بابا بلھے شاہؒ کو گلے لگایا اور ایک سچے عاشق کو اس کے عشق کی منزل مل گئی۔

حضرت شاہ عنایت قادریؒ کا وصال مبارک

حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تقریباً85 برس کی عمر میں 1141ھ بمطابق 1728ء میں ماہ جمادی الثانی میں وفات پائی اور آپ کا مزار لاہورکے علاقےمزنگ میں مرجع خلائق ہے ۔ روایات میں ہے کہ آپ کا مزار اقدس جس زمین پر ہے وہ آپ کی ہی ملکیت تھی اور محکمہ مال کے ریکارڈ میں آپ کے جانشینوں کے نام اس زمین کا اندراج موجود ہے۔

مآخذ؛
تذکرہ اولیائے لاہور
خزینۃ الاصفیا
اردو دائرہ معارف اسلامیہ
آزاد دائرۃالمعارف

Ref: https://islamiat.pk/

 

Bayans Murshid-e-Kamil

Annual Mehfil e Milad
Birthday Mehfil
Milad un Nabi Lahore
Milad un Nabi Lahore

Urs Mubarik complete List

Golden Sayings

Read Golden Sayings of Murshid E Kamil

Books & Booklets

Download Murshid E Kamil Books & Booklets

Waseel-e-Nijaat Part-47

Beliefs of Aqaid Ahle Sunnat Wa Jammat

Murshid Pak - Bayans

Murshid Pak - Bayans on Youtube