محمد تبسم بشیر اویسی
کارناموں اور روحانی عظمتوں کے اعتبار سے پوری تاریخ اسلام کی چند ممتاز اور نادر روزگار ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں ۔خود حضرت مجدد کے مرشد ، حضرت خواجہ باقی با للہ رحمۃ اللہ علیہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
.’’شیخ احمد ایک آفتاب ہیں کہ ہم جیسے ہزاروں ستارے اس کی روشنی میں گم ہو جائیں ۔آج آسمان کے نیچے ان کی نظیر نہیں ہے اور ان جیسے اس امت میں چند ہی آدمی گزرے ہیں ۔‘‘حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے اصلاحی و تجدیدی کارنامے کا براہِ راست تعلق اگر چہ فتنہ الحاد سے تھا جو مغل حکمران کے دور میں پیدا ہوا تاہم اس کارنامے کے اثرات مسلمانوں کی دینی ، تہذیبی اور سیاسی تاریخ پر اس قوت و وسعت کے ساتھ پھیلے ہیں کہ یہ کارنامہ پورے عالم اسلام کو متاثر کرنے والی عظیم تحریکوں میں شامل ہو جاتا ہے ۔
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ 14شوال 971ھ کو سر ہند (بھارت) میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد شیخ عبد الاحد اپنے دور کے جید عالم دین اور سلسلہ چشتیہ کے صاحب نسبت روحانی بزرگ تھے ۔سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے اٹھائیسویں پشت میں مل جاتا ہے ۔بزرگان خاندان مدینہ منور سے منتقل ہو کر کابل (افغانستان )تشریف لائے تھے اس کے بعد کسی زمانے میں اس خاندان کے کسی بزرگ کو ہندوستان آنا پڑا اور وہ مستقلاً سر ہند میں مقیم ہو گئے ۔ حضرت شیخ مجددالف ثانی شیخ رحمۃ اللہ علیہ سرہند ہی میں تولد ہوئے ۔آپ کی ولادت سے پہلے آپ کے والد شیخ عبد الاحد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب خواب دیکھا ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے ۔جنگل کے درندے بندر ،سور اور ریچھ لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں کہ یکا یک میرے سینے سے ایک روشنی پھوٹی جس میں ایک با عظمت شخص نمودار ہوا جو ایک تخت پر تکیہ لگائے بیٹھا تھا ۔ اب اس کے سامنے ان تمام درندوں کو بھیڑ بکری کی طرح ذبح کیا جانے لگا اور کوئی شخص آواز سے یہ آیت تلاوت کر رہا تھا۔ ترجمہ ۔’’ حق آگیا اور باطل جانے لگا ،بے شک باطل کو آخر کار جانا ہی پڑتا ہے ۔‘‘
انہوں نے حضرت شاہ کمال کیتھلی رحمۃ اللہ علیہ سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی تو انہوں نے فرمایا :’’تمہارے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو الحادو بدعت کے تاریک فتنوں کو نیست و نابود کریگا ۔
حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم شروع میں اپنے والد کے ہاں ہوئی ۔قرآن حکیم کے بعد اکثر درسی کتب اپنے والدگرامی سے پڑھیں ۔اس تعلیم کے دوران میں تصوف کی بعض اہم کتابیں مثلا!’’تعرف‘‘ ’’عوارف المعارف ‘‘اور فصوص الحکم ‘‘ وغیرہ بھی سبقاً پڑھیں ۔معقولات کی کچھ کتابیں آپ نے شیخ ملا کمال الدین بن موسیٰ حنفی کشمیری سے پڑھیں اس سلسلے میں ملا عبد الحکیم فاضل سیالکوٹی ، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے استادبھائی تھے ۔(ملا عبد الحکیم سیالکوٹی نے ہی شیخ احمد فاروقی کو مجدد الف ثانی کا خطا ب دیا تھا ۔) ملا کمال کشمیری 971ھ میں کشمیر سے سیالکوٹ آگئے تھے جہاں آپ کے نام پر ایک جامع مسجد عبد الحکیم تحصیل بازار سیالکوٹ آج بھی موجود ہے۔ علم حدیث کی سند شیخ یعقوب کشمیری اور قاضی بہلول بد خشی سے حاصل کی ۔سترہ برس کی عمر میں تحصیل علوم سے فارغ ہو گئے ۔انہی ایام میں آپ نے تصور نبوت پر ایک رسالہ ’’الرسالہ فی اثبات النبوۃ‘‘ تالیف کیا ۔ارشاد و طریقت میں بھی سب سے پہلے اپنے والد بزرگوار سے سلسلہ چشتیہ میں بیعت کی اور بعد میں طریقہ قادریہ بھی والد ہی سے اخذ کیا ،البتہ اس سلسلے کا خرقہ خلافت شاہ سکندر کیتھلی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیا ۔ 1007ھ میں آپ کے والد محترم شیخ عبد الاحد فاروقی کا انتقال ہو گیا ۔طریقہ نقشبندیہ کی لگن حضرت مجدد کے دل میں پرانی تھی۔ خواجہ باقی با اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر سنا تو بے تاب ہو کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔حضرت خواجہ باقی با للہ رحمۃ اللہ علیہ پہلے ہی سے اس گوہر یکدانہ کے منتظر بیٹھے تھے ۔ پہلی ملاقات ہی میں انتہائی محبت سے پیش آئے دو دن کے بعد داخل سلسلہ فرمالیا۔ اس کے بعد حضرت مجد د الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اڑھائی ماہ دہلی میں قیام پذیر رہے اور پھر اجازت پاکر واپس سر ہند تشریف لے آئے اس پہلی حاضری کے بعد مزید دو بار آپ سر ہند سے دہلی ، حضور مرشد میں حاضر ہوئے ۔ آخر مرتبہ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے آگے بڑھ کر اپنے با کمال مرید کا استقبال کیا۔ بشارات عظیم مرحمت فرمائیں اور اپنی مجلس میں حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو سر حلقہ بنا کر بٹھایا ۔رخصت کرتے وقت فرمایا ’’اب ضعف غالب آتا جا رہا ہے ‘‘زندگی کا وقفہ اب بہت کم معلوم ہوتا ہے ۔ میرے دونوں لڑکے (خواجہ عبید اللہ اور خواجہ عبد اللہ ) آپ کے سپرد ہیں ۔یعنی صاحبزادگان کی تربیت روحانی آپ کے ذمہ ڈالدی ۔جن آیام میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغی و اصلاحی زندگی شروع ہو رہی تھی ۔اس وقت ہندوستان میں مغلیہ خاندان کا نامور حکمران اکبر فرمانروائی کر رہا تھا ۔ ایک طرف ہندوراجکماریاں بادشاہ کے حرم میں داخل تھیں اور دوسری طرف متعدد ذہین ہندو کارکن اور دانشور بادشاہ کے درباری ماحول میں انتہائی تقرب حاصل کر چکے تھے۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دربار اکبری میں مسلمان علماء فضلا جس قدر بھی جمع ہوئے وہ سب علمائے سوء ثابت ہوئے ۔لیکن یہ بات ابھی غور طلب ہے کہ آیا اس قماش کے نام نہاد علماء کے علاوہ ملک کے مردان حق آگاہ بالکل نہ تھے یادربار اکبر ی انہیں قبول کرنے کو تیار نہ تھا ۔
بہر حال دربار اکبری میں ’’دین الہٰی اکبر شاہی ‘‘ سے ایک نیا دین اختراع کر لیا گیا جس میں دیگر تمام ادیان ’’صداقتین ‘‘جمع کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ ایک بے چارہ اسلام ہی ایسا دین تھا جس میں موجد دین الہٰی کو کوئی صداقت نظر نہ آئی بلکہ اس کے احکام و ارکان سب خلاف عقل و دانش ہونے لگے ۔ معاذ اللہ ۔ چنانچہ گائے کا گوشت حرام اور ذبیحہ گاؤ سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ۔اس کے بر عکس سور کا گوشت حلال کیا گیا ۔شراب حلال طیب ہو گئی غیر مسلموں کا ٹیکس (جزیہ ) موقوف کر دیا گیا ۔نماز ،روزہ اور حج کی اجتماعی شان ختم کر دی گئی ۔اسلامی ہجری کیلنڈر کی بجائے نیا سن الہٰی رائج کیا گیا ۔ دیوان حکومت میں نماز با جماعت ختم کر دی گئی ۔حیات اخروی اور تصور آخرت کی جگہ عقیدہ تناسخ نے لے لی تھی ۔خاصان بارگاہ اکبری تو کلمہ میں محمد رسول اللہ کے بجائے لا الہ الااللہ اکبر خلیفۃ اللہ پڑھنے لگے تھے ۔کئی جگہ سے مسجدیں ختم کر کے ان کی جگہ ہندوؤں نے مندر تعمیر کر لئے تھے ۔عہد اکبری کے اس فتنہ الحاد کی تفصیلات خود حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ سے بھی کافی حد تک معلوم ہوتی ہیں ۔مکتوبات حصہ دوم کے مکتوب 92میں ارشاد فرماتے ہیں ۔
ترجمہ :’’ہندو کافر مسلمانوں کی بے شمار مسجدیں گرا کر ان کی جگہ پر اپنے عبادتخانے (مندر) تعمیر کر رہے ہیں ۔‘‘جلد اول کے مکتوب 47میں قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے :
پچھلے ایام (عہد اکبری) میں کافر لوگ ،اس دار السلام میں کفر کے احکام سینہ زوری کے ساتھ جاری کرتے رہے اور مسلمان احکام اسلام کی اعلانیہ ادائیگی سے عاجز تھے ۔اگر وہ ایسا کرتے تو ہلاک کر دئیے جاتے ۔ہائے افسوس! اور ہائے ہماری بربادی ! پروردگار عالم کے محبوب ﷺ کے ماننے والے ذلیل و خوار اور ان کے منکر معززو با وقار ،مسلمان اپنے زخمی دلوں سے اسلام کی تعزیت کرنے میں مصروف تھے اور دشمن ،مذاق و تمسخر سے ان کے زخمی دلوں پر نمک پاشی کرتے ، ہدایت کا آفتاب پردوں میں مستور ۔
علماء سو ،دنیا کے کمانے کے لئے ملحد حکومتی کارکنان کی ہاں میں ہاں ملاتے اور اپنا علم ان کی خدمت کے لئے حاضر کر دیتے ۔گمراہ اور منحرف صوفیا ،شریعت کی پابندی کو نارسیدہ ظاہر پرستی کا کھیل قرار دیتے اور طریقت کے مقابلے پر لا کر کھڑا کر رہے تھے ۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تمام تر قوتیں اور صلاحیتیں انہی ہر سہ طبقات کی اصلاح کے لئے وقف کر دیں اور مستقل مزاجی سے سالہا سال تک کام کرتے رہے ۔اس کام کے لئے آپ نے اپنا اثر و رسو خ ،اپنا علم اور تصنیف و تالیف ، طلبہ و فقراء کی جماعتیں ،غرض ہر ممکن ذریعہ استعمال فرمایا ۔مگر ایک نہایت مؤثر اور عظیم ذریعہ آپ کی مکتوب نگاری تھی ۔آپ متعلقہ لوگوں کو مختلف مواقع پر خط لکھتے رہے جن کی نقلیں ملک میں پھیل جاتی تھیں اور خواص کی یا د دہانی کے ساتھ ،عوام کی تربیت اور ان کے شعور کی بیداری کا کام بھی ان مکتوب سے انجام پا رہا تھا ۔اور یہ کہنا کچھ مبالغہ نہ ہو گا کہ اس مرد فقیر نے اپنی خانقاہ میں بیٹھ کر قلم کی قوت سے انقلاب پیدا کر دیا ۔
یہی صریر خامہ آخرکار بر صغیر پاک و ہند میں فتنہ الحاد کے لئے صور اسرافیل ثابت ہوئی ۔جہانگیر جس نے ابتداء میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو قید میں ڈالا ،آخر میں حلقہ بگوش عقیدت ہوا اور اپنے بیٹے شہزادہ خرم (شاہ جہاں) کو آپ کے حلقہ بیعت میں شامل کیا ۔اسلامی احکام از سر نو جاری کر دئیے گئے اور بدعت کی جملہ ترمیمات موقوف ہوئیں ۔دین الہٰی اکبر شاہی اپنی تمام تر خرافات و بدعات سمیت رخصت ہو ا۔دربار حکومت کی روش ، اسلام کے حق میں ادب و احترام سے معمور ہو گئی ۔حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے وصال سے تین چار سال بعد عالمگیر پیدا ہوا یعنی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مغل دربار میں ہادم شریعت اکبر کو جلوہ گرپا یا تھا اور ان کے جاتے جاتے اس تخت پر خادم شریعت عالمگیر متمکن ہونے والا تھا ۔یہ انقلاب صرف ایک مرد فقیر کی مساعی کا نتیجہ تھا۔
اگر یہ انقلاب بر پا نہ ہو سکتا تو دین الہٰی اکبر شاہی کے پردے میں آج سے چار صدی پہلے ہی ہندو مت بر عظیم کی ملت اسلامیہ کر ہڑپ کر چکا ہو تا ۔آج پھر مختلف حیلو ں بہانوں سے حدود اللہ کو پامال کیا جا رہا ہے ۔حکمران طبقہ اپنے من پسند دین کے خواہاں ہیں ۔دین کے تابع ہونے کی بجائے دین کو اپنے تابع کرنا چاہتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج پھر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار سے سرشار کوئی مرد فقیر خانقاہ سے نکل کر پرچم اسلام کو سر بلند کر دے ۔ ملتِ اسلامیہ کی مایوسیاں ختم کر کے اُنہیں کامیابی کی نوید سنائے ۔ سیاست کو روحانیت کے تابع کر کے ایسا ہی انقلاب برپا کر دے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد تازہ ہو جائے ۔آمین ۔