نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم
زندوں کی عبادت ( بدنی و مالی) کا ثواب دوسرے مسلمان کو بخشنا جائز ہے جا کا ثبوت قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء سے ثابت ہے۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قرآن و حدیث پر ایمان و عمل ہے اور پھر معتزلہ کی طرح ایصال ثواب کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی اور ان دلائل پر غور کرنا چاہیئے ، میں بڑی محنت شاقہ سے کتاب میں حوالہ جات نقل کر دیئے ہیں انہیں پڑھنا ان پر غور کرنا اور پھر انصاف کرنا آپ کا کام ہے ۔ بقول انوار عزمی۔۔۔۔۔
کوئی منصف ہو تو انصاف کا چہرہ دمکے
کوئی عادل ہو تو زنجیر ہلائی جائے
اگر آپ تعصب ، بغض ، حسد اور میں نہ مانوں کی عینک اتار کر آنے والے صفحات پڑھیں گے تو انشاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا۔ ( راقم الحروف)
والذین جآءوا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا الاخواننا الذین سبقونا بالایمان ط “
وہ جو ان کے بعد آئے وہ یوں دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے با ایمان گزر چکے ہیں ۔“
دنیا سے پردہ کرنے والوں کے حق میں زندوں کی دعا کا یہ کتنا واضح ثبوت ہے اور بھی کئی آیات ہیں مگر اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ۔ حدیث پاک میں آتا ہے :
الدعاء مخ العبادۃ ۔
“ دعا عبادت کا مغز ہے۔“
ایک اور جگہ ہے۔
الدعاء ھو العبادۃ
“ دعا عبادت ہے۔“
ثابت ہوا زندوں کی عببادت دنیا سے جانے والوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ حضرت امام جلالالدین سیوطی رحتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
وقد نقل غیر واحدالاجماع علی ان الدعاء ینفع المیت و دلیلہ من القرآن قولہ تعالٰٰی والذین جاءوا ۔ ( الی الاخر)
“ اور اس امر پر بہت سے علماء نے اجماع نقل کیا ہے کہ بے شک دعا میت کو نفع دیتی ہے
اور اس کی دلیل قرآن شریف میں اللہ تعالٰٰی کا یہ قول ہے ۔ ( مذکورہ آیت کریمہ والذین جاءوا) ( شرح الصدور ، ص 127)
شرح عقائد نسفی میں ہے :
وفی دعاء الاحیاء للاموات او صدقتھم عنھم نفع لھم خلافا للمعتزلۃ۔
“ زندوں کی دعا اور صدقے سے مردوں کو نفع پہنچتا ہے۔ معتزلہ اس کے خلاف ہیں ۔“
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ۔ ( مسلم شریف)
“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مرنے والے کی ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ ایک عورت نے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی مگر اس کا انتقال ہو گیا کیا میں اس کی طرف سے حج کرکے اس کی نذر پوری کر سکتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قال حجی عنہا۔ ( بخاری)
“ تم اس کی طرف سے حج کرو ۔“
فتاوٰی عزیزی میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
آرے زیارت و تبرک بقبور صالحین و امداد ایشاں بایصال ثواب و تلاوت قرآن ودعائے خیر و تقسیم طعام و شرینی امر مستحسن و خوب است۔
“ ہاں صالحین کی قبروں کی زیارت کرنا اور ان کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا اور ایصال چواب تلاوت قرآن دعائے خیف تقسیم طعام و شیرینی سے ان کی مدد کرنا بہت ہی خوب اور بہتر ہے
اور اس پر علمائے امت کا اجماع ہے۔‘ اور دیکھئے:
ما من رجل مسلم یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلالا تشرکون بااللہ شیئا الا شقعھم اللہ فیہ۔ ( ابو داؤد)
“ اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ پر 40 آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں جنہوں نے کبھی کسی کو اللہ تعالٰی کا شریک نہ ٹھرایا ہو تو ان کی شفاعت میت کے حق میں اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے۔ یعنی بخش دیتا ہے۔“
بخاری، مسلم اور مشکوٰۃ میں ہے:
“ دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگواہ کر آدھی ایک قبر پر اور آدھی دوسری قبر پر رکھ دی اور فرمایا جب تک یہ چاخیں ہری رہیں گی قبر والوں کے عذاب میں تحفیف رہے گی۔“
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد آپ نے تکبیر و تسبیح پڑھنی شروع کردی ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے تکبیر و تسبیح پڑھنے کے بابت پوچھا تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
قال لقد تضایق علٰی ھذا العبد الصالح قبرہ حتٰی فرجہ اللہ عنہ ( مشکوۃ)
“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اس نیک آدمی پر قبر تنگ ہو گئی تھی یہاں تک کہ اب اللہ تعالٰی نے اس کی قبر کو فراغ کر دیا ہے۔“
معلوم ہوا کہ زندوں کی عبادت سے اہل قبور کو فائدہ پہنچتاہے اور دفن کے بعد قبر کے پاس تسبیح وغیرہ ( کلام پاک) پڑھنا جائز ہے ۔ میت پر تین دن خاص کر سوگ کیا جاتا ہے ۔ بزرگوں نے فرمایا تین دن سوگ کیا ہے ۔ اب اٹھنے سے پہلے گھر کے چند افراد مل کر کچھ پڑھو کچھ صدقی کرو اوع اس کا ثواب میت کی روح کو پٔہنچا کراٹھو ۔ اس کا نام سوئم یا تیجہ ہو گیا ۔ ثبوت ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بے شک مردے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تو صحابہ کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے۔ ( شرح الصدور ابو نعیم فی الحلیہ) چناچہ شیخ المحدثین حجرت شاہ عند الحق محدچ دہلوی نے فرمایا وتصدیق کردہ شود از میت بعد رفتن اواز عالم تا ھفت روز۔ ( اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ) “ اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہیئے۔“
دن مقرر ہونے کی وجہ سے احباب اکٹھے ہو کر میت کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں ۔ ایک حکمے یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کے لئے تین دن سوگ ہے۔ مگر عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ چالیس روز تک سوگ کرے ۔ ہر عورت کے رشتہ دار اور اولاد وغیرہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں آخری دن کچھ پڑھ کر فاتحہ دلا کر اٹھتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
واذ وعدنا موسٰی اربعین لیلۃ۔ ( سورہ بقرہ۔ آیت 50)
“ اور جب ہم نے وعدہ دیا موسٰی کو چالیس رات کا“
اقراء القرآن فی اربعین۔ ( ترمذی شریف)
“ قرآن مجید چالیس دنوں میں پڑھا کرو۔“
بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس دن تک اپنے گھر اور مقامات سےکاص تعلق رہتا ہے ۔ جو بعد میں نہیں رہتا۔ چناچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ خدا تعالٰی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے کہ ان کے عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے ان کی روزی اترتی تھی روتے رہتے ہیں۔ ( ثواب العبادات از خطیب پاکستان، بحوالہ شرح الصدور ، ص 24) اسی لئے بزرگان دین نے چالیسویں روز بھی ایصال ثواب کیا کہ اب چونکہ وہ خاص تعلق منقطع ہو جائے گا لہذا ہماری طرف سے روح کو کوئی ثواب پہنچ جائے تاکہ وہ خوش ہو جائیں اور ان سب کی اصل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سید الشھداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے لئے تیسرے، دسویں، چالسویں دن اور چھٹے مہینے اور سال کے بعد صدقہ دیا۔ ( کذا فی الانوار ساطقہ مغریا الی مجموعۃ الرویات حاشیہ خزانتہ الرویات)
وقیل الٰی اربعین فان المیت یشوق الٰی بیتہ۔
“ اور فرمایا صدقہ دینا چالیس دن پس میت شوق رکھتی ہے ان دنوں اپنے گھر کا۔ ( شرح برزخ فیض الاسلام 5، ص 34، کتاب الوجیز، ص 64)
عرس۔ ۔۔۔ ( برسی)
حضرت یحیٰی علیہ السلام کے لئے ارشاد باری تعالٰی :
وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا ہ ( سورہ مریم: آیت 15)
“ اور سلامتی ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا۔“
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں:
والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا ہ ( سورہ مریم: آیت 33)
“ اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن اٹھوں گا، زندہ ہوکر۔“
ایصال ثواب کے عمل میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں کرنی چھاہیئے۔ اگر ایصال ثواب کا مقصد نمود و نمائش ہے تو اس کا ثواب حاصل نہ ہوگا ۔ اور ایسا دکھاوے کا عمل حرام اور گناہ ہے ۔ عام طور پر بہت سے لوگ قرض لیکر میت کے لئے ایصا ل ثواب کرتے ہیں۔ اور عام لوگوں کو دعوتیں دیتے ہیں ۔ شریعت میں ایسی دعوتوں کی اجازت نہیں ۔ میت کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا ہے وہ حسب استطاعت ہو اور اسے مستحق اور غریبوں لوگوں کو کھلایا جائے۔ ( صاحبان حیثیت حضرات کو اس کھانے سے اجتناب کرنا چاھیئے۔) اسی طرح بعض گھروں میں ایصال ثواب کے موقع پر دس بیبیوں کی کہانی، شہزادے کا سر، داستان عجیب اور جناب سیدہ کی کہانی وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں اسی طرح ایک پمفلٹ : وصیت نامہ“ جس میں “ شیخ احمد“ کا خواب درج ہے۔ اسے بھی علمائے کرام نے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ ان چیزوں سے بچیں۔ مزید تفصیل کے لئے ممتاز اسلامی اسکالر جناب ڈاکٹر نور احمد شاہتاز صاحب کی کتاب کڑوی روٹی کا مطالعہ فرمائیں۔
بزرگان دین کی فاتحہ وغیرہ کا کھانا اور چیزہے یہ تبرک ہے اور اسے امیر لوگ بھی کھا سکتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رھمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ واگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شود اغنیا را ہم خور دن جائز است۔ (ربدۃ النصائح،ص 132) “ اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جائے تو مالداروں کو بھی کھانا جائز ہے۔“