حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف پڑھنے کی فضیلت و اہمیت کے بارے میں کثرت کے ساتھ احادیث موجود ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں
-
طالع المسرات شرح دلائل الخیرات میں ہے۔
اسمع صلاۃ اھل محبتی و اعرفھم۔
محبت والے جہاں سے بھی درود سلام پٹرھیں میں خود سنتا ہوں اور ان کو پہچانتا ہوں۔
- حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا صَلَّيتُمْ عَليَّّ فَأَحْسِنُوا الصَّلٰوةَ فَإنَّکُمْ لَا تَدْرُوْنَ لَعَلَّ ذٰلِکَ يُعْرَضُ عَلَيَّ.
(هندی، کنز العمال، 1 : 497، رقم : 2193)
’’جب تم مجھ پر درود بھیجو تو نہایت خوبصورت انداز سے بھیجو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔
-
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
اِذَا قَالَ ذٰلِکَ فُتِحَتْ لَهُ اَبْوَابُ الرَّحْمَة.
(بيهقی، السنن الکبريٰ، 1 : 44، رقم : 196)
’’جب وہ مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ‘‘
- آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا کَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةُ الْجُمُعَةِ فَأَکْثِرُوا الصَّّلٰوةَ عَلَيَّ.
(مسند الشافعی، 1 : 70)
’’جب جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن آئے تو مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو۔‘‘
-
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا بڑی سعادت اور برکات کا باعث ہے۔ درود پڑھنے والے جہاں کہیں سے بھی پڑھیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاهِ اقدس میں پہنچ جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فإِنَّ صَلٰوتَکُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ مَا کُنْتُمْ.
(سنن أبی داؤد، 2 : 218، کتاب المناقب باب زيارة القبور، رقم : 2042)
’’پس تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘
-
غور کریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا درود خود مجھ تک پہنچتا ہے، یہ نہیں فرمایا کہ پہنچایا جاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ سارا ہفتہ درود فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے مگر جمعہ کے دن اور رات جہاں کہیں بھی تم پڑھتے ہو تمہارا درود میں خود وصول کرتا ہوں اور خود سنتا ہوں۔
حضرت ابوطلحہ ص روایت کرتے ہیں :
دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا فَوَجَدْتُهُ مَسْرُوْرًا فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! مَا أَدْرِی مَتٰی رَأَيْتُکَ أَحْسَنَ بِشْرًا وَأَطْيَبَ نَفْسًا مِنَ الْيَوْمِ؟ قَالَ : وَمَا يَمْنَعُنِی وَجِبْرِيْلُ خَرَجَ مِنْ عِنْدِی السَّاعَةَ فَبَشَّّرَنِي أَنْ لِکُلِّ عَبْدٍ صَلَّی عَلَیَّ صَـلَاةً يُکْتُبُ لَهُ بِهَا عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَيُمْحٰی عَنْهُ عَشْرُ سَيِئَاتٍ، وَيُرْفَعُ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، وَتُعْرَضُ عَلَیَّ کَمَا قَالَهَا، وَيُرَدُّ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا دَعَا.
(مصنف عبدالرزاق، 2 : 214، رقم : 3113)
’’ایک روز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش تھے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آج سے بڑھ کر زیادہ خوش اور مسرور آپ کو کبھی نہیں پایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج جبریل امین (ں) آئے تھے ابھی نکل کر میرے پاس سے گئے ہیں اور مجھے انہوں نے خبر دی ہے کہ امت میں سے جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے۔ اﷲ تعاليٰ اس کی دس نیکیاں لکھ لیتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کر دیتا ہے، اور جس طرح اس بندے نے درود بھیجا تھا اﷲ تعاليٰ انہی الفاظ سے اُس پر درود بھیجتا ہے۔ ‘‘
-
ایک دوسری حدیث جسے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَا مِن أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اﷲُ عَلَيَّ رُوْحِي حتَّی أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّـلَامَ.
(سنن ابی داؤد، 2 : 218، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، رقم : 2041)
’’جب کوئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اﷲ تبارک و تعاليٰ مجھے میری روح لوٹا دیتا ہے پھر میں اس سلام بھیجنے والے شخص کے سلام کا جواب خود دیتا ہوں۔‘‘
- حضرت انس بن مالک ص روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَـلَاةً وَاحِدَةً صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيْئَاتٍ وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ.
(نسائی، السنن، کتاب السهو، باب الفضل فی الصلاة علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 : 50)
’’جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعاليٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتاہے، اس کے دس گناہ معاف کئے جاتے ہیں، اور اس کے لئے دس درجات بلند کئے جاتے ہیں۔‘‘
- حضرت ابنِ مسعود ص سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَوْلَی النَّاسِ بِي يَوْمَ القِيَامَةِ أَکْثَرَهُمْ عَلَیَّ صَـلَاةً.
(ترمذی، الجامع الکبير، ابواب الوتر، باب ما جاء فی فضل الصلاة علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 : 495، رقم : 484)
’’قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو (اس دنیا میں) ان سب سے زیادہ درود بھیجتا ہو گا۔‘‘
-
حضرت ابوہریرہ ص کی روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَیَّ.
( ترمذی، الجامع، ابواب الدعوات، باب قول رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : رغم انف رجل، 5 : 550، رقم : 3545)
’’وہ شخص ذلیل ہوا جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اُس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا۔‘‘
- حضرت سیدنا علی المرتضيٰ ص فرماتے ہیں :
کُلُّ دُعائِ مَحْجُوْبَ حَتّٰی يُصَلَّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِ مُحَمَّدٍ (صلی الله عليه وآله وسلم)
(طبرانی، المعجم الاوسط 1 : 220، رقم : 725)
’’ہر دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت پر درود نہ بھیجا جائے۔‘‘
مذکورہ بالا دلائل سے بخوبی واضح ہوا کہ کس طرح درود شریف اُمتیوں کے لئے بخشش و مغفرت، قبولیتِ دعا، بلندی درجات اور قرب الٰہی و قرب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باعث بنتا ہے۔ اس سلسلے میں چند ایمان اَفروز واقعات درج ذیل ہیں۔
چند ایمان افروز واقعات
1۔ مواھب اللدنیہ میں امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ قیامت کے دن کسی مومن کی نیکیاں کم ہو جائیں گی اور گناہوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا تو وہ مومن پریشان کھڑا ہو گا۔ اچانک آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام میزان پر تشریف لائیں گے اور چپکے سے اپنے پاس سے بند پرچہ مبارک نکال کر اس کے پلڑے میں رکھ دیں گے۔ جسے رکھتے ہی اس کی نیکیوں کا پلڑا وزنی ہوجائے گا۔ اس شخص کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ یہ کون تھے جو اس کا بیڑا پار کر گئے۔ وہ پوچھے گا آپ کون ہیں؟ اتنے سخی، اتنے حسین و جمیل آپ نے مجھ پر کرم فرما کر مجھے جہنم کا ایندھن بننے سے بچا لیا اور وہ کیا پرچہ تھا جو آپ نے میرے اعمال میں رکھا؟ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہو گا : میں تمہارا نبی ہوں اور یہ پرچہ درود ہے جو تم مجھ پر بھیجا کرتے تھے۔
2۔ درود شریف پر لکھی جانے والی عظیم کتاب ’دلائل الخیرات‘ کے مؤلف امام جزولی رحمۃ اﷲ علیہ ہیں جن کا مزارِ اقدس مراکش میں ہے۔ وہ اس کتاب کی تالیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ ایک سفر میں تھے دورانِ سفر نماز کا وقت ہوگیا آپ وضو کرنے کے لئے ایک کنویں پر گئے، جس پر پانی نکالنے کے لئے کوئی ڈول تھا اور نہ ہی کوئی رسی۔ پانی نیچے تھا اسی سوچ میں تھے کہ اب پانی کیسے نکالا جائے۔ اچانک ساتھ ہی ایک گھر کی کھڑکی سے ایک بچی دیکھ رہی تھی جو سمجھ گئی کہ بزرگ کس لئے پریشان کھڑے ہیں انہیں پانی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہ نیچے اتری اور کنویں کے کنارے پہنچ کر اس کنویں میں اپنا لعاب پھینک دیا اسی لمحے کنویں کا پانی اچھل کر کنارے تک آگیا اور ابلنے لگا۔ امام جزولی رحمۃ اﷲ علیہ نے وضو کر لیا تو بچی سے اس کرامت کا سبب پوچھا۔ اُس نے بتایا کہ یہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک پر کثرت سے درود بھیجنے کا فیض ہے۔ امام جزولی رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی وقت عزم کر لیا کہ میں اپنی زندگی میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک کی ایک عظیم کتاب مرتب کروں گا اور ’دلائل الخیرات‘ جیسی عظیم تصنیف وجود میں آ گئی۔
(جزولی، دلائل الخيرات : 12)
3۔ امام ابن حجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صالح شخص نے کسی کو خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تیرا کیا حال ہوا اس نے بتایا کہ اﷲ سبحانہ و تعاليٰ نے میری بخشش فرما کر جنت میں بھیج دیا۔ صالح شخص نے اس سلوک کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ جب فرشتوں نے میرے اعمال تولے، میرے گناہوں کو شمار کیا اور میرے پڑھے ہوئے درود پاک بھی شمار کئے تو سو درود گناہوں سے بڑھ گئے جبکہ باقی سب نیک اعمال سے میرے گناہ زیادہ تھے۔ جونہی درود پاک کا شمار بڑھ گیا تو اﷲپاک نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کا حساب کتاب ختم کر دو چونکہ اس کے درود بڑھ گئے ہیں اس لئے اس کو سیدھا جنت میں لے جاؤ۔
(فيروزآبادی، الصلات والبشرفی الصلاة علی خير البشر : 161)
(ابن حجرمکی، الدرالمنضود فی الصلاة والسلام علی صاحب المقام المحمود : 183)
4۔ امام قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب ’المواہب اللدنیہ‘ (1 : 40) میں فرماتے ہیں کہ جب آدمں کی تخلیق کے بعد حضرت حوا علیھا السلام کی پیدائش ہوگئی تو حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کا قرب چاہا۔ اﷲتعاليٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ پہلے ان کا نکاح ہوگا اور مہر کے طور پر دونوں کو حکم ہوا کہ مل کر بیس بیس مرتبہ میرے محبوب ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھیں۔ (ایک روایت میں تین تین مرتبہ بیان ہوا ہے۔) چنانچہ انہوں نے بیس مرتبہ یا تین مرتبہ درود پڑھا اور حضرت حواّ ان پر حلال ہو گئیں۔
(صاوی، حاشية علی تفسير الجلالين، 1 : 52)
5۔ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ ایک بہت بڑے تاجر اور عالم تھے، وہ عربی ادب کے بہت بڑے فاضل اور شاعر بھی تھے۔ انہیں اچانک فالج ہوگیا۔ بستر پر پڑے پڑے انہیں خیال آیا کہ بارگاہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی ایسا درد بھرا قصیدہ لکھوں جو درود و سلام سے معمور ہو۔ چنانچہ محبت و عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر 166 اشعار پر مشتمل قصیدہ بردہ شریف جیسی شہرت دوام حاصل کرنے والی تصنیف تخلیق کر ڈالی۔ رات کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لائے اور امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا : بوصیری یہ قصیدہ سناؤ، عرض کیا : یا رسول اﷲصلی اﷲ علیک وسلم! میں بول نہیں سکتا فالج زدہ ہوں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے بدن پر پھیرا جس سے انہیں شفا حاصل ہو گئی۔ پس امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ نے قصیدہ سنایا۔ قصیدہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمال مسرت و خوشی سے دائیں بائیں جھوم رہے تھے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حالتِ خواب میں امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر (بردہ) عطا فرمائی۔ اسی وجہ سے اس کا نام قصیدہ بردہ پڑگیا۔ امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ صبح اٹھے تو فالج ختم ہو چکا تھا۔ گھر سے باہر نکلے، گلی میں انہیں ایک مجذوب شیخ ابو الرجاء رحمۃ اﷲ علیہ ملے اور امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ کو فرمایا کہ رات والا وہ قصیدہ مجھے بھی سناؤ۔ امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ یہ سن کر حیرت زدہ ہو گئے اور پوچھا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ انہوں نے کہا : جب اسے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن کر خوشی سے جھوم رہے تھے میں بھی دور کھڑا سن رہا تھا۔
(خرپوتی، عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة، 3 : 5)
درود شریف کے فیوض و برکات
درود و سلام کے بے شمار فیوض و برکات ہیں جو درود شریف پڑھنے والوں کو بارگاہِ الٰہی سے نصیب ہوتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں
- آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے تعلق نصیب ہوتا ہے۔
- نسبتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوتی ہے۔
- کثرتِ درود و سلام سے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا دروازہ کھلتا ہے۔
- کثرت سے پڑھا جانے والا درود و سلام خود توبہ بن جاتا ہے۔
- کثرت سے درود و سلام پڑھنے سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
- کثرت سے درود پڑھنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا حقدار بن جاتا ہے۔
- درود و شریف پڑھنے والے کو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توجہ حاصل ہوتی ہے۔
- درود شریف پڑھنے والا جب تک درود شریف پڑھتا رہتا ہے، اﷲ سبحانہ وتعاليٰ کی توجہ بھی اس کی طرف رہتی ہے۔