• کرم کی بھیک ملے تو حیات بنتی ہے        حضورﷺ آپ نوازیں تو بات بنتی ہے
  • رخِ حضورﷺ کا صدقہ یہ دن چمکتا ہے       آپ ﷺ کی زلفوں کے سائے سے رات بنتی ہے
  • ملے جو اذن ثنا ء کا تو لفظ ملتے ہیں       اگر ہو آپﷺ کی مرضی تو نعت بنتی ہے
  • در حبیبﷺ کی زیارت بڑی سعادت ہے       ہو آپﷺ کا بلاوہ تو برات بنتی ہے
  • جسے وسیلہ بنایا تمام نبیوں نے       اسے وسیلہ بناؤ تو بات بنتی ہے
Madina Munawara
الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمْ
وہ جہنم میں گیا جو ان سے مستغنی ہوا
ہے خلیل اللہ کوحاجت رسول اللہ ﷺ کی
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبی ﷺ
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۔ سورۃ احزاب (۶۔۳۳)
یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے
درود تاج پر اعتراضات اور اس کے جوابات

حضرت سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اللہ علیہ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ نہایت رحمت والے بے حد رحم فرمانیوالے کے نام سے درود پڑھتا ہوں
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَ مَوْلٰنَا مُحَمَّدٍ صَاحِبِ التَّاجِ وَ الْمِعْرَاجِ وَ الْبُرَاقِ وَالْعَلَمِoدَافِعِ الْبَلَآئِ وَالْوَبَآئِ وَ الْقَحْطِ وَ الْمَرَضِ وَ الْاَلَمِo
اے اللہ رحمت فرما ہمارے سردار اور ہمارے آقاا تاج و معراج والے‘ براق اور بلندی والے پر بلیات و وباء‘ قحط و مرض‘ دُکھ اور مصیبت کے دُور کرنیوالے پر
اِسْمُہٗ مَکْتُوْبٌ مَّرْفُوْعٌ مَّشْفُوْعٌ مَّنْقُوْشٌ فِی اللَّوْحِ وَالْقَلَمِoسَیِّدِ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِoِ
جن کا اسم گرامی لکھا ہوا ہے بلندہے اور اللہ کے نام کیساتھ جُڑا ہوا ہے لوح محفوظ اور قلم میں رنگ آمیزی کیا ہوا ہے‘ عرب اور عجم کے سردار
جِسْمُہٗ مُقَدَّسٌ مُّعَطَّرٖ مُّطَہَّرٌ مُّنَوَّرٌ فِی الْبَیْت وَالْحَرَمِoِ
جن کا جسم مبارک ہر عیب سے مبرا‘ خوشبو کا منبع‘ انتہائی پاکیزہ نور علی نور‘ اپنے گھر اور حرم میں(ان تمام احوال کے ساتھ آج بھی موجود ہے)
شَمْسِ الضُّحٰی بَدْرِ الدُّجٰی صَدْرِ الْعُلٰی نُوْرِ الْھُدٰی کَھْفِ الْوَرٰی مِصْبَاحِ الظُّلَمِo
صبح کے روشن اور خوشنما سورج‘ چودھویں رات کے چاند‘ بلندی کے ماخذ‘ ہدایت کے نور‘ مخلوق کی جائے پناہ ‘ تاریکیوں کے چراغ
جَمِیْلِ الشِّیَمِ ط شَفِیْعِ الْاُمَمِ ط صَاحِب الْجُوْدِ وَالْکَرَمِoوَاللّٰہُ عَاصِمُہٗ وَ جِبْرِیْلُ خَادِمُہٗ وَالْبُرَاقُ
بہترین خلق و عادات والے‘ امتوں کی شفاعت کرنیوالے‘ سخاوت اور کرم کے والی پر درود و سلام اور اللہ انکا محافظ ہے‘ جبرائیل امین خادم ہیں اور براق سواری ہے
مَرْکَبُہٗ وَالْمِعْرَاجُ سَفَرُہٗ وَسِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی مَقَامُہٗ وَقَابَ قَوْسَیْنِ مَطْلُوْبُہٗ
معراج ان کا سفر ہے سدرۃ المنتہیٰ ان کا مقام ہے اور قاب و قوسین(کمال قرب الہی) ان کا مطلوب ہے اور مطلوب یعنی کمال قرب الہی
وَالْمَطْلُوْبُ مَقْصُوْدُہٗ وَالْمَقْصُوْدُ مَوْجُوْدُہٗ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ شَفِیْعِ الْمُذْنِبِیْنَ
وہی مقصود ہے اور مقصود حاصل ہوچکا ہے تمام رسولوں کے سردار‘ تمام انبیاء کے بعد آنے والے‘ گنہگاروں کی شفاعت کرنیوالے‘
اَنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنَ رَ حْمَۃٍ لِّلْعٰلَمِیْنَ رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ مُرَادِ الْمُشْتَاقِیْْنَ شَمْسِ الْعَارِفِیْنَ
مسافروں اور اجنبیوں کے غمگسار‘ تمام جہانوں پر رحم فرمانیوالے‘ عاشقوں کی راحت اور مُشتاقوں کی مراد‘ جملہ ہائے عارفوں کے سورج
سِرَاجِ السَّالِکِیْنَ مِصْبَاحِ الْمُقَرَّبِیْنَ مُحِبِّ الْفُقَرَآئِ وَالْغُرَبَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ سَیِّدِ الثَّقَلَیْنِ
سالکوں کے چراغ‘ مقربین کی شمع‘ فقیروں پردیسیوں اور مسکینوں سے محبت و الفت رکھنے والے‘ جنات اور انسانوں کے سردار
نَبِیِّ الْحَرَمَیْنِ اِمَامِ الْقِبْلَتَیْنِ وَسِیْلَتِنَا فِی الدَّ ارَیْنِ صَاحِبِ قَابَ قَوْسَیْنِ
حرم مکہ اور حرم مدینہ کے نبی‘ بیت المقدس اور خانہ کعبہ دونوں قبلوں کے امام‘ دنیا و آخرت میں ہمارے وسیلہ‘ قاب قوسین کی نوید والے
مَحْبُوْبِ رَبِّ الْمَشْرِقَیْنِ وَالْمَغْرِبَیْنِ جَدِّ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ مَوْلٰنَا وَ مَوْلَی الثَّقَلَیْنِ اَبِی الْقَاسِمِ مُحَّمَدِ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ
مشرقوں اور مغربوں کے رب کے حبیب‘ امام حسن اور امام حسین کے نانا‘ ہمارے آقا جملہ جن و انس کے والی‘ یعنی ابو القاسم محمد بن عبداللہ
نُوْرٍ مِّنْ نُّوْرِ اللّٰہِoیَآ اَیُّھَا الْمُشْتَاقُوْنَ بِنُوْرِجَمَالِہٖ صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo
اللہ کے نور میں سے عظمت و رفعت والے نور پر درود و سلام ان کے نور جمال کے عاشقو‘ خوب صلوٰۃ و سلام بھیجو ان کی ذات والا صفات پر اور ان کے آل و اصحاب پر

سبب تالیف

٭ میرے ایک شاگرد مولانا حبیب اللہ اویسی ایم اے نے پچھلے دنوں لیاقت پور سے کسی صاحب کا یہ اعتراض بھیجا تھا کہ درود تاج میں ’’اِسْمُہٗ مَشْفُوْعٌ‘‘ کے الفاظ ہیں اور ’’ مَشْفُوْعٌ‘‘ کے معنی لغت میں مجنوں کے لکھے ہیں۔ میں نے اسکا مفصل جواب لکھا۔ اس کے بعد ایک دوسرا اعتراض پہنچا کہ درود تاج میں ’’غَرِیْبِیْنَ‘‘ کا لفظ ہے جو غلط ہے۔ اسلئے کہ ’’غَرِیْبٌ‘‘ کی جمع ’’غُرَبَا ئُ‘‘ آتی ہے۔ اسکا مفصل جواب بھی میں نے لکھا۔اسکے بعد مجھے کراچی جانے کا اتفاق ہوا دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے بعض علماء نے مجھے بتایا کہ یہ دونوں اعتراض لیاقت پور کے کسی باشندے کے نہیں بلکہ یہ اور انکے علاوہ بعض دیگر اعتراضات بھی درود تاج وغیرہ وظائف صوفیہ پر جعفر شاہ پھلواروی نے کئے تھے جو مودودیوں کے رسالہ ’’فاران‘‘ میں بڑے طمطراق کیساتھ شائع ہوئے۔ پھر عام لوگوں تک پہنچانے کیلئے وہ ایک پمفلٹ کی صورت میں بھی شائع کئے گئے جولیاقت پور میں کسی شخص کے ہاتھ آگیا اور اسکی مزعومہ لیاقت کی تشہیر کا سامان اسے مفت میں مہیا ہوگیا۔ حُسن اتفاق سے وہ پمفلٹ مجھ تک بھی پہنچ گیا۔ جسکا عنوان ہے’’ادعیہ پر تحقیقی نظر‘‘ اور مؤلف کا نام لکھا ہے’’امام الصوفیہ مجتہد العصر علامہ حضرت شاہ محمد جعفر پھلواروی‘‘۔
٭ اس مضمون پر بعض لوگوں کے سوالات اور پھلواروی صاحب کیطرف سے انکے جوابات بھی اس پمفلٹ میں شامل ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ پمفلٹ اب اتنے عرصے کے بعد یکم جنوری1986ء کو مجھے ملا۔ اے کاش یہ مضمون اسیوقت میرے سامنے آجاتا تو اس ’’تحقیقی نظر‘‘ کا جواب فوری طورپر بروقت لکھ کر میں شائع کردیتا۔ بہرحال میرے اس مضمون کو پڑھ کر اہل علم پر واضح ہوجائے گا کہ پھلواروی صاحب کی یہ تحقیقی نظر’’برعکس نہند نام زنگی کافور‘‘ کا مصداق اور علمی اعظلاط کا پلندہ ہے۔ اگرچہ دواعتراضوں کے جواب مختصراً میں پہلے لکھ چکا ہوں لیکن اب پورا مضمون سامنے آنے کے بعد مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے سامنے رکھ کر پھلواروی صاحب کے سب اعتراضات کے جوابات تفصیل سے یکجا قلم بند کردوں۔

ابتدائیہ

٭ پھلواروی صاحب نے اپنے اس رسالے کے آغاز میں لکھا ہے کہ ’’درود تاج کی عبارت پر میں اور طالب علمانہ استفسارکرنے کی جسارت کررہا ہوں اور مجھے اپنی علمی بے بضاعتی کا اقرار بھی ہے‘‘ اسکے باوجود پورے رسالے کی عبارت میں کہیں بھی حقیقت کی جستجو کا شائبہ نظر نہیں آتااور طلب ہدایت کی کاوش دکھائی نہیں دیتی۔ انداز تحریر بتاتا ہے کہ استفسار کا اصل مقصد اپنے علم و فضل کا غلط تاثر دینا اور درود تاج اور اس جیسے دیگر وظائف کا مذاق اڑا کر صلحاء امت اور ان کے معمولات سے عامتہ المسلمین کو متنفر کرنا ہے۔ انہوں نے درود تاج کی عبارت کو ’’بے سروپا‘‘ اور’’بھونڈا‘‘ قراردیا ہے۔ الفاظ کا یہ انتخاب بتا رہا ہے کہ یہ محض طالب علمانہ استفسار نہیں ہے بلکہ انتہائی سوقیانہ اور غیر مہذب انداز میں مذاق اڑانا ہے۔ درحقیقت درود تاج کے الفاظ کو مشرکانہ قرار دے کر اپنے قلبی عناد کا مظاہرہ کیاگیا ہے۔


تخطئہ فی الواقع خطا کو مستلزم نہیں
٭ اسمیں شک نہیں کہ خطا خواہ کسی سے بھی سرزد ہو اسے صواب نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ضروری نہیں کہ جس چیز کو کوئی شخص خطا سمجھے وہ درحقیقت بھی خطا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ایک بات کسی کی رائے میں خطا ہو لیکن واقعہ اسکے خلاف ہو۔
٭ دیکھئے حدیبیہ میں جن شرائط پر صلح ہوئی مسلمان ان پر راضی نہ تھے بالخصوص سہیل بن عمرو کی یہ شرط کہ اے محمدﷺ ہمارا کوئی آدمی خواہ مسلمان ہو کر آپ کے پاس پہنچے آپ ﷺ اسے ضرور ہماری طرف واپس کردیں گے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا
سُبْحَانَ اللّٰہِ کَیْفَ یُرَدُّ اِلیَ الْمُشْرِکِیْنَ وَقَدْ جَاء مُسْلِماً
ترجمہ٭ سبحان اللہ! جو مسلمان ہوکر آیا وہ مشرکین کی طرف کیسے لوٹا یاجائے گا۔(صحیح بخاری ج اول ص۳۸۰)
٭ یہ شرط مسلمانوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور ناپسندیدہ تھی۔ بخاری میں ہے
فَکَرِہَ الْمُوْمِنُوْنَ ڈٰلِکَ وَاٰمْتَعَضُوْا مِنْہُ
ترجمہ٭ مسلمانوں نے اس شرط کو نہایت ناپسند کیا اور اس سے غضب ناک ہوئے۔(صحیح بخاری ج اول ص ۳۷۴)
٭ سہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل مسلمان ہوکر لوہے میں جکڑے ہوئے‘ بیڑیاں پہنے ہوئے‘ بڑی مشقت و تکلیف کی حالت میں کہ سے حضورﷺ کے پاس حدیبیہ پہنچے تھے اور ایمان کی خاطر انہوں نے مشرکین کی سخت ایذائیں برداشت کی تھیں مگر اس شرط کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے انہیں بھی واپس جانے کا حکم دیا۔ ابوجندل اس وقت آہ وزاری کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ
ترجمہ٭ مجھے اس حال میں مشرکین کی طرف واپس کیاجارہا ہے حالانکہ میں مسلمان ہوکر آیا ہوں ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے میں کیسے شدائد میں مبتلا ہوں۔(بخاری ج ۱ ص ۳۸۰)
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صاتب الرائے انسان کی نظر میں بھی مسلمانوں کے حق میں وہ شرائظ انتہائی ذلت کا موجب تھیں انہوں نے کہا
فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِیْ دِیْنِنَا
ترجمہ٭ جب ہم حق پر ہیں تو اپنے دین میں کیوں پست ہوں۔(صحیح بخاری ج اول ص ۳۸۰)
٭ جب حضورﷺ نے ان شرائط کو مان لیا تو سہیل بن حنیف جیسے عظیم و جلیل صحابی نے کہا
لَوْاَسْتَطِیْعُ اَنْ اَرُدَّ اَمْرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ لَرَدَدْتُّہٗ
ترجمہ٭ اگر میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کو رد کرنے کی طاقت رکھتا تو ضرور اسے رد کردیتا۔
٭ لیکن جب نتائج سامنے آئے تو انہیں کہنا پڑا
وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ
ترجمہ٭ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔(بخاری ج ۱ ص ۴۵۱ ج ۲ ص ۶۰۲)
٭ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا
وَعَسٰی اَنْ تَکُرَہُوْا شَیْئاً وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وعَسٰی اَنْتُحِبُّوْا شَیْئاً وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ
ترجمہ٭ اور قریب ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو اور قریب ہے تم کسی چیزکو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے بہتر نہ ہو۔(پ۲ البقرہ آیت ۲۱۶)
٭ لہذا کسی چیز کو خطا سمجھنے سے لازم نہیں آتا کہ وہ فی الواقع بھی خطا ہو۔ رسالہ زیر نظر میں پھلواروی صاحب نے جن چیزوں کو غلطی قراردیا ہے وہ دراصل انکے اپنے ذہن کی غلطی ہے۔ اگر ایک بھینگے کو ایک کے دو اور دو کے چار دکھائی دیں تو یہ اسکی اپنی نظر کی غلطی ہوگی۔ اسیطرح اگر کوئی یک چشم دو طرفہ بازار میں سے گزرنے کے باوجود یہ کہے کہ شہر تو خوبصورت ہے مگر بازار ایک ہی طرف ہے تو اس سے یہی کہا جائے گا کہ بازار تو دونوں طرف ہے تیرا ہی ایک بازار بند ہے۔ پھلواروی صاحب کو درود تاج میں جو غلطیاں نظر آئیں۔ وہ ان کی اپنی ناسمجھی کا شاہکار ہیں۔ درود تاج ان اغلاط سے پاک ہے۔
٭ پھلواروی صاحب کے تمام اعتراضات کا خلاصہ ان کے رسالہ کو سامنے رکھ کر ہم قارئین کرام کے سامنے رکھتے ہیں۔ ان سب اعتراضات کے ترتیب وار جوابات حاضر ہیں۔ انہیں پڑھئے اور پھلواروی صاحب کی علمی لیاقت پر سردُھنیے۔

پہلا اعتراض اور اسکا جواب

’’اِسْمُہٗ مَشْفُوُعٌ‘‘
٭ پہلا اعتراض یہ کیا گیا کہ عربی میں ’’مَشْفُوُعٌ‘‘اسے کہتے ہیں جو مجنون ہو یا اسے نظر بد لگی ہو یا وہ طاق سے جنت کیا گیا ہو۔ یہ سارے معنی یہاں بے محل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ لفظ ’’ مَشْفُوُعٌ لَّہٗ‘‘ہو لیکن یہاں یہ معنی لینا بھی صحیح نہیں حضورﷺ ‘ شَافِعْ ہیں‘ شَفِیْعْ ہیں اور مُشَفَّعْ ہیں۔یعنی شفاعت کرنیوالے مقبول الشفاعت ہیں۔ ’’ مَشْفُوُعٌ لَّہٗ‘‘نہیں۔ نعوذ باللہ حضورﷺ کی کون شفاعت کرسکتا ہے۔ انتہٰی کلامخہٗ
٭ پھلواروی صاحب کا یہ اعتراض پڑھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
٭ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے۔ انہوں نے لفظ مَشْفُوْعٌ سے حضورﷺ کی ذات پاک کے معنی سمجھ لئے حالانکہ درود تاج میں ذات مقدسہ کیلئے نہیں بلکہ لفظ مَشْفُوْعٌ حضورﷺ کے اسم مبارک کیلئے استعمال ہوا ہے۔ ذات مقدسہ یقینا مَشْفُوْعٌ لَّہٗ نہیں۔ نہ حضورﷺ نظر بد لگے ہوئے ہیں۔ نہ ذات مقدسہ کے حق میں مجنون کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ جب یہ معانی یہاں متصور ہی نہیں تو پھر ان کے ذکر کی یہاں کیا ضرورت پیش آئی؟ صاحب درود تاج نے رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ کو نہیں بلکہ اسم مبارک کو مشفوع کہا ہے۔ جو اَلشَّفْعُ سے ماخوذ ہے۔ اَلشَّفْعُ کے معنی ہیں کسی چیز کی طرف اسکی مثل کو ملانا اور طاق کو جفت کرنا ک کی سورہ والفجر میں ہے وَالشَّفِعُ وَالُوَتُرِ(پ۳۰) قسم ہے جفت کی اور قسم ہے طاق کی۔
٭ المنجد میں شَفَعَ شَفْعًا کے تحت مرقوم ہے۔اَلشَّیْیَٔ صَیَّرَہٗ شَفْعًا اَیٰ زَوْجًابِاَنْ یُّضِیْفَ اِلَیْہِ مِثْلَہٗ۔ انتہیٰ(المنجد ص ۳۹۵ طبع بیروت)یعنی شَفَعَ الشَّیْیَٔ کے معنی ہیں۔ اس نے شے کو شفع یعنی جفت کردیا۔ باایں طور کہ ایک شے کی طرف اس کی مثل کو ملا دیا۔
٭ اسی طرح اقرب الموارد میں ہے شَفَعَ ۔۔۔۔۔شَفْعًاَ صَیَّرَہٗ شَفْعًا اَیٰ زَوْجًااَیْ اَضَافَ اِلَی الْوَاحِدِثَانِیًا۔۔۔۔ یُقَالُ کَانَ وَتْرًا فَشَفَعَہٗ بِاٰخَرَ اَیْ قَرَنَہٗ بِہٖ۔ انتہٰی(اقرب الموارد ج۱ ص ۵۹۹) یعنی شَفَعَ شَفْعًا کے معنی ہیں اس نے کسی چیز کو شفع کردیا۔ یعنی اسے جفت بنادیا یعنی ایک کی طرف دوسرے کو ملا دیا۔اہل عرب کا مقولہ ہے کہ وہ طاق تھا اس نے دوسرے کو اسکے ساتھ ملا کر اسے جفت کردیا یعنی ایک کو دوسرے کے ساتھ ملا دیا۔
٭ نیز’’تاج العروس‘‘میں ہے۔اَلشَّفْعُ خِلَافُ الْوَتْرِوَھُوَ الزَّوْجُ تَقُوْلُ کَانَ وَتُرًا فَشَفَعْتُہٗ شَفْعًا وَشَفَعَ الْوَنْرَمِنَ الْعَدَدِ شَفْیًا صَیَّرَہٗ زَوْجًا۔ یعنی شفع‘ وتر کے خلاف ہے اور شفع جفت کو کہتے ہیں۔ اہل عرب کا قول ہے کہ وہ طاق تھا‘ میں نے اسے جفت کردیا اور اس نے طاق عدد کو جفت بنا دیا۔(تاج العروس ج ۵ ص ۳۹۹)
٭ درود تاج میں لفظ’’مَشْفُوْعُ‘‘ اَلشَّفْعُ سے ماخوذ ہے اور اَلشَّفْعُ متعدی ہے۔اس کا اسم مفعول مَشْفُوْعٌ ہے جو مَقُرون اور جفت کے معنی میں ہے اور ’’اِسْمُہٗ مَشْفُوْعٌ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ شد نے کلمہ میں‘ اذان میں ‘ تکبیر میں اپنے اسم مبارک کے ساتھ اپنے حبیب ﷺ کا مبارک نام ملایا۔ یہ مقرون کے معنی ہیں اور اذان و اقامت میں اسے وتر یعنی طاق نہیں رکھا گیا۔ بلکہ اسے جفت بنا دیا۔ مؤذن اور مکبر اذان و تکبیر میں حضورﷺ کانام ایک بار نہیں بلکہ دو بار پکارتا ہے اور یہی طاق کو جفت بنانا ہے۔
٭ اسم الہی کے ساتھ حضورﷺ کے نام کا متصل ہونااوراذان و تکبیر میں حضورﷺ کے نام کا دوبار پکارنا اِسْمُہٗ مَشْفُوْعٌ کے معنی ہیں اور یہ بالکل واضح‘ برمحل اور مناسب ہیں۔ انہیں نامناسب اور بے محل قرار دینا کج فہمی اور نادانی ہے۔
٭ مخفی نہ رہے کہ امام قسطلانی نے حضورﷺ کے اسماء مبارکہ کے ضمن میں ارقام فرمایا ’’اَلْمُشَفَّعُ اَلْمَشْفُوْعُ‘‘(مواہب اللدنیہ ج ۱ ص ۱۸۴ طبع بیروت) یعنی ’’مُشَفَّعٌ‘‘ اور’’مَشْفُوْعٌ‘‘ دونوں حضور اکرم ﷺ کے مبارک نام ہیں جس کے بعد صاحب درود تاج کی عبارت قطعًا بے غبار ہوگئی اور پھلواروی صاحب کی لا علمی بھی بے نقاب ہو کر سامنے آگئی ہے۔

پھلواروی صاحب کی ایک علمی خیانت

٭ پھلواروی صاحب یہ تو کہہ گئے کہ مَشْفُوْعٌ کے معنی مجنوں بھی ہیں جیسا کہ المنجد میں ہے۔ مگر اس حقیقت کو چھپا گئے کہ اس معنی کا ماخذ اَلشَّفْعُ نہیں علماء لغت میں سے کسی نے آج تک اَلشَّفْعُ کے تحت مَشْفُوْعٌ کے معنی مجنوں نہیں لکھے بلکہ اَلشُّفُعَۃُ کے مادہ پر کلام کرتے ہوئے اہل لغت نے لکھا ہے کہ اس لفظ اَلشُّفْعَۃُ کے شرعی معنی کے علاوہ ایک معنی ’’جنون‘‘ بھی ہیں دیکھئے اقرب الموارد میں ہے۔’’اَلشُّفْعَۃُ اَیْضًا اَلْجُنُوْنُ‘‘ یعنی لفظ شفعہ کے معنی جنون بھی ہیں۔(ج ۱ ص ۵۹۹)
٭ اور المنجد میں ہے اَلشُّفْعَۃُ جَمْعُمَا شُفَعٌ اَلجُنُوْنُ یعنی لفظ شفعہ کی جمع شُفَعٌ ہے اور اس کے معنی جنون بھی ہیں۔
٭ لسان العرب میں اَلشُّفْعَۃُ کے تحت مرقوم ہے وَیُقَالُ لِلْمَجُنُوْنِ مَشْفُوْعٌ و َ مَسْفُوْعٌ(بِالسِّیْنِ الْمُہْمَلَۃِ)(لسان العرب ج ۸ ص ۱۸۴)قاموس میں اَلشُّفْعَۃُ کے تحت لکھا ہے اَلشُّفْعَۃُ اَیْضْاُاَلْجُنُوْنُ اور اسی کے تحت ارقام فرمایا اَلْمَشْفُوْعُ اَلْمَجْنُوْنُ(قاموس ج ۳ ص ۴۶)
٭ ان عبارات سے واضح ہوگیا ہے کہ لفظ مَشْفُوْعٌ بمعنی مجنون کا ماخذ شَفْعٌ نہیں بلکہ وہ لفظ اَلشُّفْعَۃُ ہے جو جنون کے معنی میں آتا ہے درود تاج کے لفظ مَشْفُوْع کو اس سے دور کا بھی تعلق نہیں جو لوگ اسے مجنون کے معنی پرحمل کرتے ہیں وہ خود مبتلائے جنون ہیں ایسے لوگوں نے اَلشَّفْعُ اور اَلشُّفْعَۃُ کے فرق کو بھی نہیں سمجھا پھر درود تاج کے سیاق میں اس امر کو بھی نظر انداز کردیا کہ اس کا سوق کلام رسول اللہ ﷺ کی تعریف و توصیف اور مدح و ثناء پر مشتمل ہے جس میں مجنون کے معنی کا تصور مجنون کے سوا کوئی عاقل نہیں کرسکتا۔

لفظ مشفوع کلام علماء میں

٭ صرف یہ نہیں بلکہ پھلواروی صاحب کے حاشیہ برداروں کا دعوی ہے کہ مَشْفُوْعٌ کا لفظ مجنون کے سوا اور کسی معنی میں کسی نے استعمال نہیں کیا حالانکہ انکا یہ قول خود پھلواروی صاحب کے قول کی تکذیب کے مترادف ہے۔ کیونکہ وہ تسلیم فرما چکے ہیں کہ ’’طاق سے جفت کیا ہوا بھی مَشْفُوْعٌ کے معنی ہیں‘‘ تاہم مزید وضاحت کیلئے ہم بتانا چاہتے ہیں کہ لفظ مَشْفُوْعٌ مقرون کے معنی میں مستعمل ہوا ہے دیکھئے آیت کریمہ سَنُعَذِّ بُھُمْ مَّرَّ تَیْنِ کے تحت روح المعانی میں گیارہویں پارے کے ص ۱۱ پر مرقوم ہے’’وَلََعَلَّ تَکْرِیْرِ عَذَابِھِمْ لِمَا فِیْھِمْ مِنَ الْکُفْرِ الْمَشْفُوْع بِالنِّفَاق ‘‘یعنی منافقین کے عذاب کے مقرر ہونے کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کا کفر ان کے نفاق کے ساتھ مقرون ہے۔
٭ یہاں مَشْفُوْعْ مقرون کے معنی میں ہے۔ اسے مجنون کے معنی میں وہی سمجھے گا جو خود مجنون ہوگا یہ بات بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص کہہ دے کہ حق شُفعہ جنون کے سوا کچھ نہیں اور جب اس سے پوچھا جائے تو لغت کی کتاب کا حوالہ دے دے کہ یہاں شُفعہ کے معنی جنون لکھے ہیں۔کیا کسی عاقل کے نزدیک یہ بات قابل قبول ہوسکتی ہے؟
٭ قارئین کرام نے دیکھ لیا کہ پھلواروی صاحب درود تاج کے جملے کے ایک جزء کو بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

دوسرا اعتراض اور اس کا جواب

مَنْقُوْشٖ فِی اللَّوْحِ وَ الْقَلَمِ
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’پھر نام مبارک (اِسْمُہٗ)کا منقوش فی اللوح ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن منقوش فی العلم ہونا نرالی سی بات ہے اگر مَنْقُوْشٌ فِی اللَّوْحِ بِالْقَلَمِ ہوتا پھر بھی بات واضح ہوجاتی‘‘(انتہیٰ)
٭ پھلواروی صاحب نے یہاں بھی ٹھوکر کھائی کہ اس لوح وقلم کا قیاس دنیا کی قلم اور تختی پر کرلیا اسلئے وہ فرمارہے ہیں کہ ’’نام مبارک اِسْمُہٗ کا منقوش وی اللوح ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن منقوش فی القلم ہونا نرالی سی بات ہے‘‘
٭ الحمد للہ! لوح میں اسم مبارک کا منقوش ہونا آپ کی سمجھ میں آگیا البتہ قلم میں منقوش ہونا صرف اسلئے آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ نے قیاس مع الفارق سے کام لے کر یہ سوچا کہ قلم لکھنا ہے۔ اس پر لکھا نہیں جاتا مگر آپ کی یہ سوچ اس عالم بالا تک نہیں پہنچ سکتی جہاں لوح و قلم تو درکنار ساق عرش پر بھی رسول اللہ ﷺ کا اسم مبارک منقوش ہے جبکہ حضور کے اسم مبارک کے متعلق حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا مروی ہے۔
کَانَ مَکْتُوْبًا عَلٰی سَاقِ الْعَرْشِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭ اس حدیث کو طبرانی‘ حاکم ‘ ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا حوالہ کیلئے دیکھئے(تفسیر فتح العزیزپ۱ص۱۸۳ طبع نولکشور۔ روح المعانی ج۱ جز۱ ص۲۳۷۔ روح البیان ج۱ ص ۱۱۳طبع بیروت خلاصتہ التفاسیر ج۱ص۲۹طبع انوار محمدی لکھنؤ) اسیطرح درنشور میں بھی ہے(بحوالہ خلاصتہ التفاسیر) ایسی صورت میں حضور کے اسم گرامی کے قلم میں منقوش ہونے کو نرالی سی بات کہنا بجائے خود نرالی سی بات ہے۔
٭ علاوہ ازیں یہاں بھی قلم پر نام منقوش ہونے کی مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں پھر اسکو نرالا سمجھنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اسم مبارک کا لوح میں مکتوب ہونا حضور کیلئے کوئی وجہ فضیلت نہیں۔ لوح میں تو ہرچیز مکتوب ہے حضور کی فضیلت عظمی اور اہم ترین خصوصیت تو یہ ہے کہ نشان عظمت کے طورپر صرف لوح پر نہیں‘ قلم پر بھی اسم مبارک مثبت و منقوش ہے بلکہ سیاق عرش پر بھی حضور کا نام مبارک لکھا ہوا ہے۔ یہ حضور کی اس رفعت شان کی ایک جھلک ہے جس کا بیان شد نے وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَ کَ میں فرمایااگر پھلواروی صاحب اس کا انکار کریں توہمارے نزدیک ان کا یہ انکار پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا جبکہ آیت قرآنیہ اور اس کی مطابقت میں حدیث مذکور بھی حبیب کبریا علیہ التحیتہ والثناء کی عظمت و رفعت شان کا اعلان کر رہی ہے۔صاحب درودتاج نے حضور کے اسم مبارک کے منقوش فی اللوح والقلم ہونے کا ذکر اسی نشان عظمت و رفعت کے طورپر کیا ہے جسے پھلواروی صاحب نہیں سمجھ سکے۔

تیسرا اعتراض اور اسکا جواب

سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی مَقَامُہٗ

٭ تیسرا اعتراض کرتے ہوئے پھلواروی صاحب لکھتے ہیں ’’ سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی مَقَامُہ‘‘واقعہ یہ ہے کہ سدرۃ المنتھٰی جبریل کا مقام ہے جہاں جاکر وہ ٹھہر گئے اور آگے نہ جاسکے۔ حضور کی یہ گذرگاہ تھی۔ مقام نہ تھا۔انتہی کلامہٗ
٭ محترم نے اس جملے کو سمجھنے میں بھی غلطی کی حقیقت یہ ہے کہ سدرہ المنتہیٰ کے مقام جبریل ہونے کے جو معنی ہیں وہ یہاں مراد نہیں بلکہ یہاں حضور کی خصوصی رفعت شان کا بیان مقصود ہے وہ یہ کہ سدرۃ المنتہیٰ تک کوئی بشر نہیں پہنچا مگر حضور اپنی بشریت مطہرہ کے ساتھ وہاں پہنچے۔
٭ ’’مَقَامَہٗ‘‘ سے یہاں صرف پہنچنے کی جگہ مرا دہے۔ ’’مَقَامُ اِبْرَاھِیْمَ‘‘کا ذکر ک میں وارد ہے اور صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے منر شریف کو اپنا’’مقام‘‘ فرمایا۔ حدیث کے الفاظ ہیں مادُمْتُ فِیْ مَقَامِیْ ھٰذَا(بخاری ج ۱ ص۷۷ مسلم ج۲ ص۲۶۳) جس کے معنی پہنچنے اور کھڑے ہونے کی جگہ کے سوا کچھ نہیں۔ درود تاج کے اس جملے میں مَقَامُہٗ کایہی مفہوم ہے مقام جبریل پر مقام مصطفی ﷺ کا قیاس ایسا ہی ہے جیسا کہ حضرت مصطفی ﷺ کا قیاس جبریل پر۔

 

چوتھا اعتراض اور اس کا جواب

قَابَ قَوْسَیْنِ کا اعراب
٭ پھلواروی صاحب کا یہ فرمانا بھی غلط ہے کہ یہاں ’’قَابَ‘‘کو مرفوع پڑھنا چاہئیے۔انتہیٰ
٭ انہوں نے اتنا بھی نہ سمجھا کہ قرآن کے الفاظ ’’قَابَ قَوْسَیْنِ‘‘ کو بطور حکایت درودتاج میں شامل کیاگیا ہے اور درودتاج میں ’’قَابَ‘‘کا نصب اعراب حکائی ہے۔ اعراب حکائی کی بحث میں صاحب معجم النحو نے لکھا ہے۔اَلْحِکَایَۃُ لُغَۃً اَلخمُمَا ثَلَۃُ وَاصْطِلَا حًا اِیْرَادُ اللَّفْظِ الْمَسْمُوْعِ عَلٰی ھَیْئَتِہٖ کَمَنْ مُّحَمَّدًا اِذَا قِیْلَ رَائَ یْتُ مُحَمَّدًا‘‘یعنی ’’حکایت‘‘ لغتہً مماثلت ہے اور اصطلاح میں کسی لفظ مسموع کو اس کی ہیئت پر وارد کرنا’’حکایت‘‘ ہے۔ جیسے مَنْ مُّحَمَّدًا؟ جب کہا جائے رَأَیْتُ مُحَمَّدًا(ص۱۷۶طبع مصر)
٭ آیت قرآنیہ میں لفظ’’قَابَ‘‘نصب کے ساتھ مسموع ہے۔ اس کی ہیئت پر درود تاج میں حکایتہ وارد کیاگیا۔ کس اہل علم کے نزدیک اعراب حکائی ناجائز ہے؟

پا نچواں اعتراض اور اسکا جواب

قَابَ قَوْسَیْنِ کا معنی
٭ اس کے بعد وہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’قَابَ قَوْسَیْنِ‘‘ کو حضور کا مطلوب و مقصودکہہ دینا اس وقت تک محل نظر رہے گا۔ جب تک کتاب اللہ‘ سنت رسول اللہ ﷺ سے اس کی تصدیق نہ ہوجائے‘‘(انتہیٰ)
٭ میں عرض کردوں گا کہ اسے محل نظر کہنا خود محل نظر ہے۔ شائد قَابَ قَوْسَیْنِ کے مرادی معنی پھلواروی صاحب نے سمجھے۔ اس سے مراد کمال قرب الہی ہے اور یہ کمال قرب اپنے حسب حال ہر مومن کا مطلوب و مقصود ہے کتاب و سنت کی تعلیم کا خلاصہ یہی ہے کہ بندے کو کمال قرب نصیب ہوجوکمال عہدیت کا معیار ہے۔ ک میں بے شمار مقامات پر یہ مضمون وارد ہے مثلاوَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُونَoاُولٰئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَo(پ۲۷ الواقعہ ۱۰۔۱۱) اور جو سبقت کرنیوالے ہیں وہ تو سبقت ہی کرنیوالے ہیں۔ وہی شد کے مقرب ہیں۔اور بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّۃِ فَتَدَ لّٰے حَتّٰی کَانَ مِنْہُ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوٓاَدْنٰیاورجَبّارربّ العزّۃ
٭ قریب ہوا۔ پھر اور زیادہ قریب ہوا‘ یہاں تک کہ وہ اس(عبد مقدس) سے دوکمانوں کی مقدار تھا یا اس سے زیادہ قریب۔(بخاری ج ۲ص۱۱۲۰)
٭ اب تو پھلواروی صاحب سمجھ گئے ہوں گے کہ ’’قَابَ قَوْسَیْنِ‘‘کے معنی کمال قرب ہیں جو یقینا حضور کامطلوب و مقصود ہے۔

چھٹا اعتراض اور اسکا جواب

درودتاج کی عربیت بے غبار ہے
٭ اس کے بعد پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’علاوہ ازیں یہ پوری عبارت ہی عجمی قسم کی عربی عبارت ہے’’مَوجودہٗ‘‘کی ترکیب اضافی کچھ عجیب سی ہے۔ ’’مقصودہٗ‘‘اس کا موجود ہے کیا مطلب ہوا؟‘‘(انتہیٰ)
٭ اس عبارت کو عربی عبارت کہہ کر بلا دلیل عجمی قسم کی عربی عبارت کہنا ہماری فہم سے بالا تر ہے۔

وَالْمَطْلُوْبُ مَقْصُوْدُہٗ کا مطلب
٭ جس عبارت کے معنی انہوں نے پوچھے ہیں وہ اپنے معنی میں بالکل واضح ہے کہ ’’قَابَ قَوْسَیْنِ‘‘یعنی کمال قرب حضور کا مطلوب ہے اور مطلوب وہی چیز ہوتی ہے جو کسی کا مقصود ہو۔ حضور کا مقصود ایسا نہیں جسے حضور نے نہ پایا ہو بلکہ وہ پایا ہوا ہے۔ لہذا’’مَوجُوْدُہٗ‘‘کی ترکیب کو عجیب سی ترکیب کہنا عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔

ساتواں اعتراض اور اسکا جواب

اَنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنَ
٭ پھلواروی صاحب نے ’’اَنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنَ‘‘ پر بھی اعتراض کیا ہے‘ فرماتے ہیں’’کس عربی دان کو نہیں معلوم کہ ’’غَرِیْبٌ‘‘کی جمع ’’غُرَبَائُ‘‘ہے نہ کہ غَرِیْبِیْن آگے خود ہی اس درود کے مصنف نے ’’مُحِبِّ الْفُقَرَائِ والْغُرَبَائِ وَالْمَسَاکِیْنَ‘‘لکھا ہے‘‘(انتہیٰ)
٭ یہ اعتراض بھی ان کی علمی کمزوری کا نتیجہ ہے انہوں نے اس حقیقت کو بالکل نظر انداز کردیا کہ فَعِیْلٌ کے ہم وزن جس صیغے کی جمع سالم نہیں آتی وہ وہی صیغہ ہے جو مفعول کے معنی میں ہو۔ جاربروی شرح شافیہ میں ہے۔ثُمَّ مُذَکَّرُھٰذٰا الْجَمْعِ لَا یُجْمَعُ بِالْوَاوِوَالنُّوْنِ فَرْقًا بَیْنَدٗ وَبَیْنَ فَعِیْلِ بِمَعْنٰی فَاعِلٍ کَکَرِیْمٍ یعنی فعل بمعنی مفعول کی جمع سالم نہیں آتی تاکہ فعل بمعنی مفعول اور فعل بمعنی فاعل کے درمیان امتیاز باقی رہے جیسے کَرِیْمٌ۔(انتہیٰ)(جاربردی ص ۹۸ طبع سیٹم پریس لاہور) یعنی کَرِیْمٌ چونکہ فاعل کے معنی میں ہے اس لئے یہ اس قانون کے ماتحت نہیں بلکہ اس کی جمع کَرِیْمُوْنَ آتی ہے‘ جیسا کہ رضی شرح شافیہ میں ہے۔وَالَّذِیْ بِمَعْنَے الْفَاعِلِ یُجْمَعُ فَلَمْ یُجْمَعِ الَّذِیْ بِمَعْنَے الْمَفْیُوْلِ جَمْعَ السَّلَامَۃِ فَرْقًا بَیْنَھُمَا یعنی فَعِیْل کے وزن پر جو صیغہ فاعل کے معنی میں آئے اس کی جمع سالم آتی ہے۔ جیسے رَحِیْمٌ کی جمع رَحِیْمُوْنَ اوررَحِیْمَۃٌ کی جمع رَحِیْماتٌ اور کَرِیْمٌ کی جمع کَریْمُوْنَ اورکَرِیْمَۃٌ کی جمع کَرِیْمَاتٌ ہے تو فعل کے وزن پر جو صیغہ کہ مفعول کے معنی میں ہو اس کی جمع سالم نہیں آتی تاکہ دونوں کے درمیان فرق باقی رہے۔ (انتہیٰ) (رضی شرح شافیہ ص۱۴۸ ج ۲ طبع بیروت)۔ لفظ غَرِیْبٌ فعل کے وزن پر صرف فاعل کے معنی میں آتا ہے لہذا اس کی جمع غَرِیْبِیْنَ اسی طرح جائز ہے جس طرح رَحِیْمٌ اورکَرِیْمٌ کی جمع کَرِیْمُوْنَ جائز ہے۔
٭ صاحب درود تاج نے غَرِیْبِیْنَ کے بعد غُرَبَاء کا لفظ وارد کرکے اس حقیقت کو واضح کردیا کہ اس کی جمع سالم اور مکسر دونوں جائز ہیں۔ جیسے رَحِیْمٌ اورکَرِیْمٌ کی جمع سالم اور جمع مکسر یعنی رُحَمَائُ اور کُرَمَائُ دونوں بلاشبہ جائز ہیں۔


لفظ غَرِیْبِیْنَ کا استعمال
٭ امام لغت حدیث علامہ محمد طاہر نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’مجمع بحارالانوار‘‘کے مقدمہ میں اپنے مآخذ کا ذکر کرتے ہوئے کتاب ’’ناظر عین الغریبین‘‘کا ذکر فرمایا اور غَرِیْبِیْنَ کی مناسبت سے حرف غ اس کیلئے رمز قرار دیا اور متعدد مقامات پر ’’ناظر عین الغریبین‘‘ سے حدیث کے مطالب و فوائد اخذ کئے۔ علامہ محمد طاہر جو کچھ نھایہ سے اخذ کرتے ہیں بعض اوقات اسکے ساتھ ان فوائد کو بھی شامل کردیتے ہیں جو ناظر عین الغریبین سے اخذ فرماتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ موصوف نے آغاز کتاب میں فرمایا۔وَاَضُمُّ اِلٰی ذٰلِکَ مَا فِیْ نَاظِرِ عَیْنِ الْغَرِیْبِیْنَ مِنَ الفَوَائِدِ۔(مجمع بحارالانوار ج۱ص۳ طبع نولکشور)یہ کتاب میری نظر سے نہیں گذری لیکن اس کے ملتقطات اور فوائد ماخوذہ عظیم و جلیل کتاب ہے جس کے نام ’’ناظر عین الغریبین‘‘ لغت حدیث میں ہے کہ اہل علم نے لفظ غَرِیْبِیْن استعمال کیا ہے۔پھلواروی صاحب نے لفظ غریبین کو غلط قرار دے کر اپنی لا علمی کا مظاہرہ فرمایا۔
٭ علاوہ ازیں اگر ہمارے پیش کردہ حوالہ جات اور علماء صرف و نحو کی واضح عبارت سے قطع نظر بھی کرلیا جائے۔ تب بھی لفظ غریبین کے استعمال کو غلط کہنا صحیح نہیں کیونکہ اس قسم کا استعمال آخر کلمات میں رعایت تناسب کی صورت میں بلاشبہ جائز ہے۔ ایسے استعمال کی مثال ک میں سورۃ دھر میں ’’سَلَا سِلاً‘‘ اور ’’تَوَارِ یْرًا‘‘ کو تنوین کیساتھ پڑھنا ہے۔ جو خلاف قاعدہ ہے اور اہل عرب کے استعمالات اور محاورات کے خلاف ہے کیونکہ یہ دونوں لفظ غیر منصرف ہیں اور غیر منصرف پر تنوین جائز نہیں۔ مگر علماء نے سجع یا فاصلہ کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ متصلاً استعمال ہونے والے کلمات کے آخر میں تناسب کی رعایت کی بناء پر بلاشبہ اسے جائز کہا۔(ملحضًا)(النحو الوافی ج ۴ ص ۲۷۰ں۲۷۱) سَلَا سِلًا(بالتنوین) نافع‘ کسائی ‘ ابوبکر اور ہشام کی قرات ہے(تفسیر مظہری ج۱۰ ص۱۴۹) اور قَوَارِیْرًا(بالتنوین) ابن کثیر کی قرات ہے(مظہری ج۱۰ص۱۵۷) یہ دونوں قراتیں مرعات تناسب کی وجہ سے جائز ہیں۔ قرات متواترہ کی بناء پر ان کے جائز ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ درودتاج میں لفظ غَرِیْبِیْن بھی بصورت سجع کلمات متجاورہ کے آخر میں تناسب کی رعایت کی بناء پر بلا شبہ جائز ہے بلکہ حسب تصریح صاحب النحو الوافی ج ۴ ص ۲۷۰‘ آخر کلمات کا یہ تناسب مخاطب کی سمع کو لذت بخشتا ہے اور سننے والے کے کان کو شیرینی فراہم کرتا ہے تقویت معنی میں نہایت موثر ہے۔ قاری اور سامع دونوں کی روح میں ان کلمات کو پیوست کردیتا ہے۔(انتہیٰ)
٭ پورا درود تاج اسی نوعیت کا ہے بالخصوص انہی کلمات متجاورہ مختومہ بالسجع کو ایک مرتبہ اسی خیال سے پڑھیں اور اندازہ فرمائیں کہ مراعات تناسب نے ان کلمات کو کس قدر موثر کردیا ہے بشرط محبت آپ یقینا محسوس کرینگے کہ دل کی گہرائیوں میں یہ کلمات اترتے جلے جارہے ہیں۔ سامعہ لطف اندوز ہے اور روح کو غذا میسر ہورہی ہے۔ درود تاج کے وہ کلمات مبارکہ حسب ذیل ہیں۔
سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ شَفِیْعِ الْمُذْنِبِیْنَ اَنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنَ رَ حْمَۃٍ لِّلْعٰلَمِیْنَ رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ مُرَادِ الْمُشْتَاقِیْْنَ شَمْسِ الْعَارِفِیْنَ سِرَاجِ السَّالِکِیْنَ مِصْبَاحِ الْمُقَرَّبِیْنَ
٭ اگر اس مقام پر یہ شبہ وارد کیا جائے کہ آخر کلمات میں رعایت تناسب کا حکم النحوالوافی میں غیر منصرف سے متعلق ہے اور ہمارے پیش نظر لفظ غَرِیْبِیْنَ ہے تواسکا ازالہ یہ ہے کہ خلاف قاعدہ اور محاورات اہل عرب کے خلاف ہونے میں غیر منصرف پر تنوین داخل کرنا اور بزعم فاضل مخاطب غَرِیْبٌ کی جمع غَرِیْبِیْنَ لانا دونوں یکساں ہے۔ لہذا آخر کلمات میں رعایت تناسب کا حکم بھی دونوں کیلئے یکساں ہوگا۔

آٹھواں اعتراض اور اسکا جواب

لفظ غَرِیْب کا معنی
٭ اس کے بعد پھلواروی صاحب فرماتے ہیں کہ درود تاج میں ’’دونوں جگہ لفظ غریب کا وہ مفہوم لیاگیا ہے جو ہماری اردو زبان میں ہے یعنی محتاج‘ بے مایہ‘‘(انتہیٰ)
٭ ان کا یہ دعوی محض بلا دلیل ہے۔ درودتاج میں اِنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنِ اور مُحِبِّ الْفُقَرَائِ دونوں جگہ پر لفظ غِرِیْب سے اجنبی مراد ہے‘ اجنبی اور پردیسی کا کوئی انیس اور محب نہیں ہوتا۔ رسول کریم  ہر پردیسی اور اجنبی کے انیس اور محب ہیں۔ اَنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنَ اور مُحِبِّ الْفُقَرَائِِ وَالْغُرَبَائِ کا یہی مفہوم ہے‘ انیس اور محب اس مفہوم کیلئے واضح قرینہ ہیں۔
٭ شاید پھلواروی صاحب نے غُرَبَائِ کے ساتھ فَُِرَائِ اور مَسَاکِیْن کے الفاظ دیکھ کریہ سمجھ لیا کہ فقراء اور مساکین محتاج ہوتے ہیں۔ اسلئے غُرَبَائِ سے بھی محتاج لوگ مراد ہیں مگر انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ لفظ فُقَرَاء کا معطوف ہے اور مَسَاکِیْن کا معطوف علیہ۔ عطف مغایرت کو چاہتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں دونوں میں سے کسی ایک جگہ بھی لفظ غَرِیْب کا مفہوم محتاج و بے مایہ نہیں لیاگیا بلکہ دونوں جگہ وہ اجنبی ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے پھلواروی صاحب کا یہ اعتراض ۔ راصل اظہار عناد کے سوا کچھ نہیں۔

نواں اعتراض اور اسکا جواب

رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ
٭ پھلواروی صاحب نے درودتاج کے الفاظ رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ میں لفظ عاشقین پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے ’’محبت ایک لطیف میلان قلب کا نام ہے مگر عشق محض زورِ گندم ہوتا ہے جس کا سارا تعلق حسن و شباب سے ہے‘ مولانا روم نے صحیح کہا ہے

عشق نہ بود آنکہ در مردم بود
ایں خمار از خوردن گندم بود

٭ لفظ عشق اتنا گرا ہوا‘ گھٹیا اور سخیف لفظ ہے کہ قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس لفظ کے استعمال سے مکمل احتراز کیا ہے‘‘(انتہیٰ)

 

عشق کے معنی
٭ پھلواروی صاحب نے عشق کے معنی زورِ گندم بتائے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں بتائے۔ لغت کی کسی کتاب میں لفظ عشق کے یہ معنی کوئی نہ دکھاسکے گا البتہ اس معنی پر انہوں نے مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے اس شعر سے ضرور استدلال فرمایا ہے جو پھلواروی صاحب کے حواس باختہ ہونے کی دلیل ہے۔ مولانا رومی تو اس شعر میں یہ فرما رہے ہیں کہ لوگوں میں جو خواہش نفسانی پائی جاتی ہے وہ عشق نہیں وہ تو محض گندم کھانے کا خمار ہے پھلواروی صاحب نے اسی خمارِ گندم کو عشق قرار دے دیا جس کے عشق ہونے کی مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نفی فرما رہے ہیں

ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے

عشق مولانا رومی کی نظر میں
٭ مولانا نے اس شعر میں خمارِ گندم کی مذمت کی ہے مگر حسب ذیل اشعار میں عشق کی مدح فرمائی ہے

ہر کرا جامہ ز عشق چاک شد
اوز حرص و عیب کلی پاک شد
شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علتہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
جسم خاک از عشق برافلاک شد
کوہ در رقص آمدو چالاک شد

٭ یعنی جس کے وجود نفسانی کا جامہ عشق سے چاک ہوگیا۔ وہ حرص اور ہر عیب سے پاک ہوگیا۔ اے ہمارے عشق خوش سوداء اور ہماری تمام بیماریوں کے طبیب تو خوش رہ۔ اے ہماری نخوت و غرور کی دوا۔ اے ہمارے عشق تو ہی ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے جسم خاکی عشق سے افلاک پر پہنچا‘ پہاڑ رقص میں آکر چست و چالاک ہوگیا۔
٭ ان اشعار میں مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے عشق وخوش سودا کو تمام بیماریوں کا طبیب اور اسی عشق کو اپنی نخوت و ناموس کی دوا اور اسی عشق کو اپنا افلاطون اور جالینوس فرماکر اس کی مدح فرمائی ہے۔ پہلے شعر کے ساتھ ان اشعار کو ملا کر پڑھیئے۔ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کا مفہوم آپ پر واضح ہوجائے گا کہ زورِ گندم عشق نہیں کیونکہ وہ انسانی خواہشات کو ابھارتا اور انسان کو بیشمار امراض قلبیہ میں مبتلا کردیتا ہے عشق تو ان کے نزدیک ایک ایسا جوہر لطیف ہے کہ اگر وہ کسی کے وجود نفسانی کا جامہ چاک کردے تو وہ حرص اور ہر عیب سے پاک ہوجائے وہ فرماتے ہیں۔ عشق ہی ہماری تمام بیماریوں کا طبیب اور نخوت و ناموس کی دوا ہے۔ اسی عشق نے جسد خاکی کو افلاک پر پہنچایا اور اسی عشق سے پہاڑ رقص میں آیا۔
٭ خلاصہ یہ ہے کہ مولانا کے نزدیک زور گندم عشق نہیں کیونکہ وہ امراض قلبیہ کا سبب ہے اور عشق ان کے نزدیک تمام امراض قلبیہ کا طبیب ہے۔

ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا


محبت
٭ اس ضمن میں پھلواروی صاحب نے ایک لطیف میلان قلب کا نام محبت رکھا ہے گویا ان کے نزدیک محبت میں نفسانی خواہش‘ زورِ گندم اور حسن و شباب سے تعلق کا شائبہ ممکن ہی نہیں حالانکہ اہل عرب کے کلام اور محاورات میں محبت کا لفظ حسن و شباب کے تعلق ‘ نفسانی خواہش اور زورِ گندم کے معنی میں بھی بکثرت مستعمل ہے۔ حدیث میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں مثلاً بخاری شریف میں ہے
اِنَّھَا کاَنَتْ لِیْ بِنْتُ عِمِّ اَحْبَبْتُھَا کَاَ شَۃِ مَایُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَآ ئَ فَطَلَبْتُ مِنْھَا فَاَ یَتُ
ترجمہ٭ غار میں پھنسے ہوئے تین آدمیوں میں سے ایک نے کہا میری چچا کی بیٹی تھی جس سے میں ایسی محبت کرتا تھا جیسی شدید ترین محبت مردوں کو عورتوں سے ہوتی ہے لہذا میں نے اس سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہی تو اس نے انکار کردیا۔(بخاری ج۱ ص۳۱۴)
٭ الفاظ حدیث کی روشنی میں پھلواروی صاحب کے اپنے من گھڑت عشق کے معنی اور محبت میں کیا فرق رہا؟ مولانا رومی کے اشعار میں تو عارفین کا عشق مذکور تھا جو رَاحَۃ العاشقین کے الفاظ سے مراد ہے۔ اب اہل لغت کی طرف آیئے تمام اہل لغت نے لفظ عشق پر کلام کرتے ہوئے اسکے معنی ’’فرط محبت‘‘ کے لکھے ہیں۔ مختار الصحاح ص۳۷۴ میں ہے۔ اَلْعِشْقُ فَرْطُ ا لْحُبِّ اسیطرح لسان العرب ج۱۰ص۲۵‘ تاج العروس ج۷ص۱۳ اور قاموس ج۳ص۲۶۵ میں ہے۔
٭ جس طرح محبت پاکیزہ بھی ہوتی ہے اور خبیث بھی۔ اسی طرح عشق بھی پاکیزگی اور خبث دونوں میں پایا جاتا ہے ملاحظہ ہو قاموس میں ہے اَلْیِشْقُ۔۔۔۔اِفْرَاطُ الْہُبِّ ویَکُوْنُ فِیْ عَفَافٍ وفِیْ دَعَارَۃٍ (ص۲۶۵ج۳) یعنی عشق کا معنی افراط محبت ہے جو پاک دامنی میں ہوتا ہے اور خبث میں بھی معلم ہوا کہ عشق اور محبت میں شدت اور افراط کے سوا کوئی فرق نہیں۔


لفظ عشق کا ثبوت
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’لفظ عشق اتنا گرا ہوا‘ گھٹیا اور سخیف لفظ ہے کہ قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس لفظ کے استعمال سے مکمل احتراز کیا ہے‘‘
٭ قرآن و حدیث میں لفظ’’عشق‘‘ سے مکمل احتراز کا دعوی محل نظر ہے۔ قرآن میں نہ سہی مگر حدیث میں ’’عَشِقَ‘‘ کے الفاظ موجود ہیں۔ بروایت خطیب بغدادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ ثُمَّ مَاتَ مَاتَ شَھِیْدًا
ترجمہ٭ جس کو کسی سے عشق ہوا پھر وہ پاک دامن رہتے ہوئے مرگیا تو وہ شہید ہے۔
٭ اس کے علاوہ دوسری حدیث بھی بروایت خطیب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
مَنْ عَشِقَ فَکَتَمَ وَعَفَّ فَمَاتَ فَھُوَ شَھِیْدٌ
ترجمہ٭ جس کو کسی سے عشق ہوا پھر اس نے چھپایا اور پاک دامن رہتے ہوئے مرگیا تو وہ شہید ہے۔(الجامع الصغیر ج۲ ص ۱۷۵ طبع مصر)
٭ اگر چہ ان دونوں حدیثوں میں ضعف کا قول کیاگیا ہے لیکن اس حدیث کو امام سخاوی نے مقاصد حسنہ میں اسانید متعددہ سے وارد کیا بعض میں کلام کیا اور بعض کو برقرار رکھا جن اسانید کو برقرار رکھا وہ ضعیف نہیں چنانچہ امام سخاوی نے اس حدیث کی اسانید میں سے ایک سند کے متعلق فرمایا وَھُوَ سَنَدٌ صَحِیْحٌ (مقاصدِ حسنہ ص ۴۲۰)
٭ علامہ سخاوی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام خرائطی اور ویلمی وغیرھما نے روایت کیا۔ بعض محدثین کے نزدیک اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں
مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ فَکَتَمَ فَصَبَرَ فَھُوَ شَھِیْدٌ
ترجمہ٭ جس کو کسی سے عشق ہوگیا پھر وہ پاک دامن رہا اور اسے چھپایا اور صبر کیا تو وہ شہید ہے۔
٭ اور امام بیہقی نے اسے طرقِ متعددہ سے روایت کیا(مقاصدِ حسنہ ص۴۱۹‘۴۲۰ طبع مصر)
٭ اہل علم جانتے ہیں کہ طرقِ متعددہ سے سند ضعیف کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے۔ مختصر یہ کہ لفظ عشق حدیث میں وارد ہے۔ قرآن و حدیث میں ا س سے مکمل احتراز کا جو دعوی کیا گیا ہے صحیح نہیں۔


عدم ورود ثبوت سخا فت نہیں
٭ علاوہ ازیں پھلواروی صاحب کی یہ دلیل کہ لفظ عشق چونکہ قرآن و حدیث میں وارد نہیں ہوا ۔ اس لئے وہ نہایت گرا ہوا‘ گھٹیا اور سخیف ہے۔ قطعاً درست نہیں بکثرت کلمات فصیحہ کتاب و سنت میں وارد نہیں ہوئے مثلاً لفظ ’’طُروف‘‘ اور اس کا واحد’’ظرف‘‘ قرآن میں کہیں وارد نہیں ہوا نیز’’نظم‘‘ اور ‘‘نسق‘‘ دونوں محاورات عرب میں کثیر الاستعمال اور فصیح ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک لفظ بھی قرآن میں کہیں وارد نہیں ہوا۔ نہ ان دونوں میں سے کوئی لفظ کسی حدیث میں آیا ہے۔ ترمذی شریف میں ’’نِظَامٍ بَالٍ‘‘ کے الفاظ وارد ہیں(ج۹ص۵۹ طبع مصر) اور مسند امام احمد میں ایک جگہ لفظ ’’مَنْظُوْمَات‘‘ اور دوسری جگہ ’’اِنْتَظَمَتْ‘‘ کا لفظ آیا ہے(ج۲ص۲۱۹‘ج۴ص۵۲ طبع بیروت) لیکن لفظ نظم بعینہٖ آج تک کسی حدیث میں منقول نہیں ہوا اسی طرح نَاسِقُوْ بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ کے الفاظ بعض علماء نے حدیث سے نقل کئے ہیں(مجمع بحارالانوار ج۳ص۳۵۲ طبع نولکشور) لیکن لفظِ نسق آج تک کسی حدیث سے کسی نے نقل نہیں کیا۔ کیا پھلواروی صاحب ان الفاظ کو بھی گھٹیا‘ گرا ہوا اور سخیف قرار دیں گے؟
٭ پھر یہ کہ لفظ عشق نہ سہی مگر اس کے معنی (شدتِ محبت اور فرطِ محبت) جو لغت کی معتبر کتابوں سے ہم نقل کرچکے ہیں۔ قرآن و حدیث میں بکثر ت وارد ہیں جیسے وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ اور جو لوگ ایمان لائے وہ شد کیلئے بہت زیادہ محبت رکھنے والے ہیں(پ۲ بقرہ)
٭ اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مومن وہی ہے جس کے دل میں سب سے زیادہ میری محبت ہو(بخاری ج ۱ ص۷ مسلم ج ۱ ص۴۹) شدت محبت اور زیادت محبت ہی عشق کے معنی ہیں جو اس آیت اور اس حدیث میں وارد ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرط محبت کے معنی میں علماء اور صلحاء امت اور فصحا ملت نے نظماً و نثراً اس لفظ عشق کو جس کثرت سے استعمال کیا ہے کسی سے مخفی نہیں۔ کیا اس کے بعد بھی اسے گرا ہوا گھٹیا اور سخیف کہنے کا جواز باقی رہتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ لفظ عشق اصل میں گھٹیا ‘ سخیف اور گرا ہوا ہونے کی دلیل ہے بلکہ پھلواروی صاحب کی ذہنیت رکھنے والے اگلے پچھلے لوگوں نے اس کے معنی زورِ گندم سمجھ کر اسے گرے ہوئے‘ گھٹیا اورسخیف معنی میں استعمال کیا۔ اسی لئے اس کا استعمال عام مذموم قرارپایا۔ بجز ایسے بعض استعمالات کے جہاں سخیف اور گھٹیا اور معنی کا واہمہ متصور ہی نہ ہو جیسے رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ یہاں اس قسم کے توہم کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔

دسواں اعتراض اور اسکا جواب

اقارب سے کمال درجے کی محبت
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’انسان کو اپنے والدین سے بہن‘ بھائی سے دختر و فرزند سے کمال درجے کی محبت تو ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک سے بھی عشق نہ ہوتا ہے اور نہ ہوسکتا ہے‘‘(انتہیٰ)
٭ ہم ابھی ثابت کرچکے ہیں کہ عشق کے معنی کمال درجے کی محبت کے سوا کچھ نہیں لیکن ماں باپ‘ بہن بھائی کے ساتھ کمال محبت کو عشق اس لئے نہیں کہا جاتا اور نہ کہا جاسکتا ہے کہ پھلواروی صاحب جیسی ذہنیت رکھنے والوں نے خمار گندم کا نام عشق رکھ دیا ہے جس کا تصور بھی والدین اور بہن‘ بھائی کے متعلق نہیں کیا جاسکتا۔

گیارہواں اعتراض اور اسکا جواب

زورِ گندم اور عشق
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں محبت کو بقا ہوتی ہے ‘ عشق فانی ہے۔ انتہیٰ
٭ درست فرمایا زور گندم یقینا فانی ہے مگر وہ عشق نہیں ‘ عشق تو کمالِ محبت کا نام ہے اور وہ باقی ہے۔

بارہواں اعتراض اور اسکا جواب

حضور کو معشوق کہنا جائز نہیں
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’حضور کو معشوق کہنا انتہائی بدتمیزی ہے پس جب حضورﷺ معشوق نہیں تو راحتہ العاشقین کس طرح ہوسکتے ہیں‘‘؟ انتہیٰ
٭ بجا فرمایا کوئی صاحب ہوش و حواس حضورﷺ کے حق میں یہ لفظ نہیں کہہ سکتا۔ اگر کہے گا تو یقیناً بد تمیز قرار پائے گا مگر صاحب درود تاج نے حضورﷺ کے حق میں یہ لفظ نہیں کہا۔
٭ اس مقام پر پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ جب حضورﷺ معشوق نہیں تو ’’راحۃ العاشقین‘‘ کیسے ہوسکتے ہیں؟ انتہائی مضحکہ خیز ہے حکم اور اطلاق کا فرق بھی پھلواروی صاحب نہیں سمجھ سکے۔ عشق کے معنی کمال محبت کے اعتبار سے اَلْعَاشِقِیْنَ کے معنی محبین کاملین ہیں جس کا مفادیہ ہے کہ حضورﷺ محبوب اکمل ہیں محبوب اکمل اپنے محب کامل کی راحت ہوتا ہے۔
٭ خلاصہ یہ ہے کہ درود تاج میں حضورﷺ کی ذات مقدسہ پر محبوب اکمل ہونے کا حکم ہے۔ لفظ معشوق کا اطلاق نہیں۔
٭ صاحب درودتاج نے حضورﷺ کو راحۃ العاشقین کہا ہے معشوق نہیں کہا پھلواروی صاحب کا ان پر یہ الزام کہ انہوں نے راحۃ العاشقین کہہ کر حضورﷺ کو معشوق کہہ دیا۔ اگر حضورﷺ معشوق نہیں تو راحۃ العاشقین کیسے ہوسکتے ہیں۔بالکل ایسا ہے جیسے شد کو ’’خَالِقُ کُلِّ شَیْیٍٔ‘‘ کہنے والے پر یہ الزام لگا دیاجائے کہ معاذ اللہ اس نے شد کو ’’خَالِقُ الْخَنَازِیْر‘‘ کہہ کر شان الوہیت میں گستاخی کی ہے کیونکہ اگر شد خالق الخنازیر نہیں تو خالق کل شیٔ کیسے ہوسکتا ہے؟ جس طرح یہ الزام قطعاً غلط اور لغو ہے اسی طرح راحۃ العاشقین کہنے کی بنیاد پر مؤلف دروردتاج پر حضورﷺ کومعشوق کہنے کا الزام بھی غلط ‘ بیہودہ اور لایعنی ہے۔


رَاحَۃِ الَعَاشِقِیْنَ پر اعتراض کا خمیازہ
٭ اگر پھلواروی صاحب ’’رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ‘‘ کے الفاظ سے یہ الزام لگاتے ہیں کہ درودتاج میں حضورﷺ کومعشوق کہا گیا ہے تو اپنے اوپر بھی اس الزام کو قبول کرلیں کہ انہوں نے ماں‘ بہن اور بیٹی کو محبوبہ کہا ہے جبکہ ماں‘ بہن اور بیٹی کو اس کے بیٹے بھائی اور باپ کی محبوبہ کہنا انتہائی معیوب ہے۔ ہم ابھی پھلواروی صاحب کا کلام نقل کر چکے ہیں کہ انسان کو اپنے والدین‘ بھائی‘ بہن سے دختر و فرزند سے کمال درجہ محبت ہوتی ہے ۔ پھلواروی نے یہی کہہ کر ماں بہن اور بیٹی کو محبوبہ کہدیا کیونکہ اگر وہ محبوبہ نہیں تو ان کے ساتھ کمال درجہ کی محبت کیسے ہوسکتی ہے؟
٭ اگر پھلواروی صاحب اپنے اوپر یہ الزام قبول کرنے کو تیار نہیں تو درودتاج کے مؤلف پر یہ الزام رکھنا سراسرناانصافی نہیں تو کیا ہے؟

تیرھواں اعتراض اور اسکا جواب

مَحْبُوْبِ رَبِّ الْمَشْرِقَیْنِ
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں کہ محبوب کا لفظ لغتہً تو غلط نہیں ہوسکتا لیکن حضورﷺ کیلئے یہ لفظ میری ناقص نگاہوں سے نہیں گزرا۔ صحابہ کرام ’’خَلِیْلِیْ‘‘ یا ’’حَبِیْبِیْ‘‘ تو کہتے تھے لیکن’’مَحْبُوْبِی‘‘ و ’’َمَعْشُوْقِیْ‘‘ کبھی نہ کہا۔ انتہیٰ کلامہٗ
٭ پھلواروی صاحب کے آخری جملے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حضورﷺ کومحبوب کہنا اور معشوق کہنا دونوں کا حکم ایک ہے لفظ معشوق کے متعلق تو ہم ابھی کہہ چکے ہیں کہ حضورﷺ کے حق میں یہ لفظ کہنا انتہائی بد تمیزی ہے بجز کسی بے حواس کے کوئی مسلمان حضورﷺ کو معشوق نہیں کہہ سکتا لیکن لفظ محبوب کو بھی اس کے ساتھ ملا دینا انتہائی جسارت ہے کیا پھلواروی صاحب نے یہ سمجھ لیا ہے کہ رسول اللہ  کی ثناء میں کوئی ایسا لفظ جائز نہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نہ کہا ہو؟


عدم ورود دلیل عدم جواز نہیں
٭ اگر واقعی وہ یہ سمجھتے ہیں تو بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہیں متقدمین و متاخرین علماء و صلحاء امت نے حضورﷺ کی مدح وثناء میں بے شمار ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں مثلاً ’’وَسِیْلَتِیْ‘‘ ’’مُحْسِنِ اَعْظَمْ‘‘ ’’اِمَامُ الْاَنْبِیَائِ‘‘ جن پر آج تک کسی نے انکار نہیں کیا اور وہ بلاشبہ جائز ہیں ہاں! ایسا کوئی لفظ جو حضورﷺ کے شایان شان نہ ہوکسی کے نزدیک جائز نہیں‘ نہ درورد تاج میں کوئی ایسا لفظ وارد ہوا۔
٭ پھلواروی صاحب کے اس آخری جملے سے کچھ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ حضورﷺ کے محبوب ہونے کا تصور ان کیلئے معاذ اللہ سوہان روح ہے۔

چود ھواں اعتراض اور اسکا جواب

جَدِّالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ حسنین کریمین بلکہ جمیع امت مسلمہ باعث فخر
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’رسم دنیا کے مطابق چھوٹا اپنے بڑوں کیلئے باعث فخر ہوسکتا ہے لیکن صرف اس وقت جبکہ وہ مجموعی حیثیت سے یا کسی خاص امتیازی کارگزاری میں اپنے بزرگوں سے آگے نکل جائے یا کم ازکم ان کے برابر ہوجائے یا کسی ایسے وصف کا مالک ہوجائے جو اس کے بڑوں کو حاصل ہی نہ ہوا ہو۔ نواسہ رسول  ہونا حضرات حسنین کریمین کیلئے باعث فخر ہوسکتا ہے لیکن حضورﷺ کیلئے حسنین کانانا ہونا قطعاً کوئی شرف ۔ مہاجرین و انصار کو چھوڑ کر کسی ایسے کو باعث فخر بنانا جو نہ مہاجر ہے نہ انصار۔ یقیناً ایک ایسی غالیانہ ذہنیت کا غماز ہے جس کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں‘‘ (ملحضاً)
٭ پھلواروی صاحب نے رسم دنیا کا سہارا لے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ دین کے کسی گوشے میں انہیں پناہ نہیں ملی۔ ذرا دین کے میدان میں آئیے ہم آپ کو بتائیں گے کہ کسی کا باعث فخر ہونا ہرگز اس بات کو مستلزم نہیں کہ جس شخص کے باعث فخر کیاجائے وہ فخر کرنیوالے سے افضل یا اس کے برابر ہو۔ دیکھیئے حدیث میں واردہے کہ رسول اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو مخاطب فرماکر ارشاد فرمایا
اِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ الْاَنْبِیَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
ترجمہ٭ میں تمہارے باعث قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام پر فخر کروں گا۔(مسند احمدج۳ص۲۴۵ طبع بیروت)
٭ اور ترمذی شریف میں ہے
اِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ
ترجمہ٭ میں تمہارے باعث فخر کروں گا(ترمذی ج۱ص۳ طبع دہلی)
٭ اور ابو دائود میں ہے
فَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ
ترجمہ٭ بیشک میں تمہارے سبب فخر کروں گا(ابودائود ج۱ص۲۸۰ طبع اصح المطابع کراچی)
٭ یہی الفاظ نسانی میں بھی ہیں(ج۲ ص۵۹ طبع دہلی) اور مسند احمد میں ایک دوسری جگہ وارد ہے
وَمُکَاثِرٌ بِکُمْ
ترجمہ٭ میں تمہاری وجہ سے فخر کروں گا۔(ے۳۵۱ج۴طبع بیروت)
٭ اور ابن ماجہ میں ہے
وَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ الْاُمَمَ
ترجمہ٭ اور بے شک میں تمہارے باعث دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔(ابن ماجہ ج۲ ص۲۹۱طبع المطابع کراچی)
٭ کتب احادیث میں روایات منقولہ بتفاوت یسیر متعدد مقامات پر مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً وارد ہیں جن کی دلالت قطعیہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ کی امت حضورﷺ کیلئے باعث فخر ہے۔ حسنین کریمین‘ حضورﷺ کی امت ہونے کے علاوہ حضورﷺ کے صحابی بھی ہیں۔ صرف صحابی نہیں بلکہ حضورﷺ کی اولاد امجاد اور اہل بیت اطہار ہونے کا شرف بھی انہیں حاصل ہے۔ جب حضورﷺ کی امت حضورﷺ کیلئے باعث فخر ہے تو حسنین کریمین حضورﷺ کیلئے بطریق اولی باعث فخر ہیں جبکہ امت کے کسی ایک فرد کا حضورﷺ سے افضل یا حضورﷺ کے برابر ہونا بھی ممکن نہیں بلکہ حضورﷺ مطلقاً افضل الخلق ہیں۔
٭ ثابت ہوا کہ حسنین کریمین کا حضورﷺ کیلئے باعث فخر ہونا ہرگز اس بات کو مستلزم نہیں کہ معاذ اللہ وہ حضورﷺ سے افضل یا حضورﷺ کے برابر ہوں۔ پھلواروی صاحب کی غلط فہمی یہ ہے کہ انہوں نے حسنین کریمین کا حضورﷺ کے لئے باعث فخر ہونا حضورﷺ سے ان کے افضل ہونے کو مستلزم سمجھ لیا اور یہ قطعاً غلط ہے۔ دیکھیئے حدیث شریف میں وارد ہے
اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یُبَاھِیْ بِکُمُ الْمَلٰئِکَۃَ
ترجمہ٭ حضورﷺ نے فرمایا اے میرے صحابہ بیشک اللہ عزوجل تمہارے باعث ملائکہ پر فخر فرماتا ہے۔
٭ یہ حدیث مسلم شریف ج ۲ ص۳۴۶ طبع اصح المطابق کراچی اور مسند امام احمد ج۲ ص ۱۸۶ ‘۱۸۷طبع بیروت پر وارد ہے۔ نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ امت محمدیہ شد کیلئے بھی باعث فخر ہے کیا پھلواروی صاحب معاذ اللہ یہاں بھی اس استلزام کو تسلیم کریں گے؟(العیاذ باللہ) ذرا غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آئیگی کہ حضورﷺ کی امت پر شد کا فخر فرمانا شد ہی کی علوِ شان کی دلیل ہے کہ حق سبحانہ و تعالی نے امت محمدیہ کو یہ فضل و شرف عطا فرمایا کہ شد ان کے باعث ملائکہ پر فخر فرماتا ہے معلوم ہوا کہ حسنین کریمین اور حضورﷺ کی باقی امت کا حضورﷺ کیلئے باعث فخر ہونا حضورﷺ سے افضل ہونے کو مستلزم نہیں بلکہ خود حضورﷺ کی افضلیت کو مستلزم ہے کیونکہ ان حضرات کا حضورﷺ کیلئے باعث فخر ہونا حضورﷺ ہی کے فیض اور نسبت کی وجہ سے ہے اگر امت کی اضافت حضورﷺکیطرف نہ ہوتی یا حسنین کریمین کو حضورﷺ کا نواسہ ہونے کی نسبت حاصل نہ ہوتی اور وہ حضورﷺ کے فیض سے محروم ہوتے تو ان میں سے کوئی بھی حضورﷺ کیلئے باعث فخر نہ ہوسکتا تھا۔ جس سے ظاہر ہوا کہ درحقیقت یہ حضورﷺ ہی کی فضیلت ہے اور حضورﷺ کی ہر فضیلت شد کی عظمت شان کی دلیل ہے کہ اسی نے اپنے محبوب کو یہ فضیلت عطا فرمائی۔
٭ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں ’’جِدِّالْحَسَنِ وَالْحُسَیْن‘‘کے الفاظ محض بطور لقب اور تعریف استعمال ہوئے ہیں جیسے حضورﷺ کا قول مبارک ’’اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ‘‘(صحیح بخاری ج۲ ص۶۱۷) طبع اصح المطالع کراچی۔ صحیح مسلم ج۲ ص ۱۰۰طبع اصح المطابع کراچی
٭ ’’جِدِّالْحَسَنِ وَالْحُسَیْن‘‘کے الفاظ ہوں یا ’’اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ‘‘کے نوری کلمات حضورﷺ کیلئے حصول فضل و شرف کے معنی کا ان سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔
٭ اس کے بعد آگے چل کر’’جِدِّالْحَسَنِ وَالْحُسَیْن‘‘کے الفاظ کو پھلواروی صاحب غالیانہ ذہنیت کا غماز قراردے رہے ہیں جبکہ حسنین کریمین کے تمام فضائل و مناقب کو نظر انداز کرکے ان کے مہاجر و انصار نہ ہونے کا ذکر جس انداز میں پھلواروی صاحب نے کیا ہے وہ خود اہل بیت اطہار کے حق میں ان کی متعصبانہ ذہنیت کی غمازی کررہا ہے۔ فیاللعجب

پندرھواں اعتراض اور اسکاجواب

نام مخفی رکھنے کی توجیہ
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں میں ابھی تک درودتاج کے اصل مصنف کا نام معلوم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا غالباً نام مخفی رکھنے ہی میں مصلحت ہوگی تاکہ خوش عقیدہ لوگوں میں آسانی سے مقبول ہوکر رائج ہوجائے۔ انتہیٰ
٭ پھلواروی صاحب اپنی ناکامی کی جھنجلاہت میں ایسے برسے کہ گویا ان کے کان میں کسی نے کہہ دیا کہ درودتاج کے مؤلف نے خود اپنا نام مخفی رکھا ہے۔ بالفرض ایسا ہو بھی تو ان کے حق میں اس سویٔ ظن کا کیا جواز ہے کہ انہوں نے خوش عقیدہ لوگوں میں اسے رائج اور مقبول بنانے کیلئے اپنا نام مخفی رکھا ہے کیا ان کے حق میں بحیثیت مومن ہونے کے یہ حسن ظن درست نہیں کہ محض ریا اور سُمعہ سے بچنے کیلئے اپنا نام چھپایا ہو؟ کیسی عجیب بات ہے کہ کسی مؤلف کا نام معلوم نہ ہوسکے تو یہ سمجھ لیاجائے کہ اپنی تالیف کو عوام میں مقبول بنانے کیلئے مؤلف نے اپنا نام مخفی رکھا ہے درودتاج تو چند سطورپر مشتمل ہے فنون عربیہ میں کئی ایسی کتابیں مروج و مقبول ہیں مثلا میزان الصرف‘ شرہ مائتہ عامل‘ پنج گنج وغیرہ جن کے مؤلفین کے نام آج تک متعین ہوکر عام طورپر سب اہل علم کو معلوم نہ ہوسکے تو کیا بقول پھلواروی صاحب یہی کہاجائے گا کہ ان لوگوں نے خوش عقیدہ عوام میں اپنی تالیفات کو مقبول اور مروج کرنے کیلئے اپنے ناموں کو مخفی رکھا؟ ذرا سوچئے! یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے۔

سولہواں اعتراض اور اسکا جواب

وظائف اولیاء کی زبان کو گھٹیا کہنا
٭ فرماتے ہیں’’ایسے ایسے کئی وظائف عوام میں رائج ہوگئے ہیں جن کا نہ سر ہے پیر۔ ان کی عربی زبان بھی نہایت گھٹیا قسم کی ہے بلکہ بعض وظائف تو سراسر مشرکانہ قسم کے ہیں‘‘ انتہیٰ
٭ میں عرض کروں گا کہ درود تاج اور اس جیسے وظائف صلحاء امت کو گھٹیا قسم کی زبان کہنا انتہائی گھٹیا ذہنیت کا مظاہرہ ہے جیسا کہ ہمارے جوابات سے واضح ہے بقیہ وضاحت عنقریب آرہی ہے بیشک جبلا عوام میں بکثرت بے سروپا مشرکانہ وظائف و عملیات رائن ہیں جو سحر‘ جادو اور ٹونہ کے اقسام سے ہیں صلحاء امت نے نہ انہیں کبھی قبول کیا نہ وہ قبول کرنے کے لائق ہیں لیکن درود تاج اور اس جیسے وظائف اولیاء کرام کو ان سے کیا نسبت؟
٭ وہ تو علماء و صلحا ء امت کے مقبول اور پسندیدہ معمولات میں سے ہیں خود پھلواروی صاحب کے بزرگوار اور پیرو مرشد بھی درودتاج کی کمال عظمت اور مقبولیت کے قائل ہیں ان کے اپنے پمفلٹ میں یہ مضمون موجود ہے کہ خسروی صاحب نے ایک خط کے ذریعے ان سے پوچھا مولانا قاری شاہ سلیمان صاحب پھلواروی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’صلوۃ وسلام‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ سید ابو الحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے درود تاج نبی کریم  اس درود کیلئے منظوری عطا فرمائیے کہ یہ ایصال ثواب کے وقت ختم میں پڑھا جایا کرے۔ حضور نے منظور فرمالیا۔ انتہی کلامہ ص۱۳
٭ پھلواروی صاحب اس کے جواب میں فرماتے ہیں غلطی بہر حال غلطی ہے خواہ کسی سے اس کا صدور ہو حضرت قبلہ مولانا شاہ سلیمان پھلواروی میرے مرشد بھی ہیں اور پدر بزرگوار بھی مجھے ان سے بے حد عقیدت ہے لیکن ایسی اندھی عقیدت بھی نہیں کہ انہیں معصوم عن الخطاء سمجھنے لگوں۔ انتہیٰ کلامہٗ ۱۴


پھلواروی صاحب کا اپنے مرشد کو مشرک بتانا
٭ پھلواروی صاحب نے اس جواب میں اپنے ’’خلف رشید‘‘ مرید صادق اور بے حد عقیدت مند ہونیکا جو مظاہرہ کیا ہے اسکی مثال نہیں بیشک انکے پدربزرگوار معصوم عن الخطاء نہیں لیکن خطاء کے مدارج ہیں جس خطاء کا صدور ایک مبتدی طالب علم سے بھی متصور نہ ہو پھلواروی صاحب کا اس میں اپنے پدر بزرگوار صاحب فضل و کمال‘ مرکز عقیدت‘ مرشد کامل کو عمر بھر مبتلا سمجھنا مقام حیرت نہیں تو کیا ہے؟
٭ یہی نہیں بلکہ عمر بھر انہیں درود تاج کے مشرکانہ ہونیکا بھی علم نہ ہوا۔ گویا وہ شرک و توحید میں بھی امتیاز نہ کرسکے بلکہ ایک غلط سلط مشرکانہ کلام کا بارگاہ رسالت میں مقبول و منظور ہونا بھی انہوں نے تسلیم کرلیا حتی کہ اپنی کتاب’’صلوۃ وسلام‘‘ میں بلا نکیر اسے درج کردیا۔

بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است

٭ پھلواروی صاحب نے درودتاج کے علاوہ صالحین امت کے دیگر کئی معمولات کی بھی سخت مذمت کی ہے اور انہیں مشرکانہ قراردیا ہے اور ان کا مذاق اڑا کر عامتہ المسلمین کی نظروں میں انہیں بے وقعت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
٭ مگر یاد رہے کہ ان کی عظمت و مقبولیت کو نقصان پہنچانا پھلواروی صاحب کے بس کا روگ نہیں

اگر گیتی سراسر باد گیرد
چراغ قدسیاں ہرگز نہ میرد

سترھواں اعتراض اور اس کا جواب

وظائف اولیاء کو خلاف قرآن و سنت کہنا
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’ان وظائف کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ اہل توحید کو قرآنی دعائوں اور ماثورہ ادعیہ سے ہٹا دیا جائے‘‘
٭ میں عرض کروں گا یہ کوئی نئی بات نہیں منکرین حدیث بھی یہی کہا کرتے ہیں کہ احادیث کا ذخیرہ گھڑنے کا مقصد یہی ہے کہ اہل قرآن کو قرآن سے ہٹا دیاجائے۔

اٹھارہویں اعتراض کا جواب

یٰاَ ایُّھَا الْمُشْتَاقُوْنَ بِنُوْرِ جَمَالِہٖ
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں کس مبتدی طالب علم کو یہ نہیں معلوم کہ مشتاق کا صلہ ’’اِلیٰ‘‘ ہوتا ہے ’’ب‘‘ نہیں ہوتا۔ اتنی بھونڈی بھونڈی غلطیاں کوئی اہل علم نہیں کرسکتا۔
٭ یہ اعتراض پھلواروی صاحب کی لا علمی پر مبنی ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہاں ’’اَلْمُشْتَاقُوْنَ‘‘ ’’اَلْعَاشِقُوْنَ‘‘ کے معنی کو متضمن ہے اور ’’عشق‘‘ کا صلہ ’’ب‘‘ آتا ہے’’اِلیٰ‘‘نہیں آتا۔ قاموس میں ہے عَشِقَ بِہٖ ج ۳ ص ۲۶۵ نیز تاج العروس ج۷ ص ۱۳ اور اقرب الموارد ج۲ ص ۷۸۶ میں بھی عشق کا صلہ ’’ب‘‘ مذکورہ ہے شاید پھلواروی صاحب اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جب کوئی لفظ کسی دوسرے لفظ کے معنی کو متضمن ہو تو اس کے صلہ میں وہی حرف آئے گا جو اس دوسرے لفظ کے صلہ میں آتا ہے۔ قرآن وحدیث میں بھی اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّ فَثُ اِلیٰ نِسَا ئِکُمْ‘‘ (پ۲ البقرہ) کس مبتدی طالب علم کو معلوم نہیں کہ رَفَثَ کا صلہ ’’بن‘‘ آتا ہے ’’الیٰ‘‘نہیں آتا۔
٭ لسان العرب میں ہے ’’وَقَدْ رَفَثَ بِھَا‘‘(ج۲ص۱۵۴)چونکہ آیت کریمہ میں لفظ اِنْضیائٌ کے معنی کو متضمن ہے جس کا صلہ اِلٰی آتا ہے۔ لسان العرب میں ہے اَفْضَیْتُ اِلَی الْمَرْأَۃِ (جلد ۲ ص۱۵۴) اس لئے آیت کریمہ میں لفظ رفث کا صلہ اِلٰی وارد ہوا۔
٭ کیا پھلواروی صاحب  قرآن و حدیث کے الفاظ کو بھی معاذ اللہ بھونڈی غلطیاں قرار دیں گے؟ اگر نہیں تو انہوں نے ’’مشتاقون‘‘ کے صلہ کو جو بھونڈی غلطی قرار دیا ہے تسلیم کرلیں کہ درودتاج کی بجائے یہ ان کی اپنی بھونڈی غلطی ہے۔
٭ الحمدللہ ہم نے درودتاج سے متعلق ان کے ہر اعتراض کا جواب مکمل و مدلل لکھ دیا اور ساتھ ہی پھلواروی صاحب کے اعتراضات بھی انہی کے الفاظ میں نقل کردیئے ہیں۔
٭ قارئین کرام سے التماس ہے کہ تعصب سے بالا تر رہ کر عدل و انصاف کی روشنی میں فیصلہ فرمالیں کہ پھلواروی صاحب کے سوالات میں طالب علمانہ استفسار ہے یا دلی تعصب و عناد کا اظہار؟
٭ ہمارے جوابات کی روشنی میں آپ پر واضح ہوگیا ہوگا کہ پھلواروی صاحب نے درود تاج میں جن اغلاط کی نشان دہی کی ہے وہ اغلاط نہیں بلکہ پھلواروی صاحب کی لا علمی اور متعصبانہ ذہنیت کا شاہکار ہیں۔

انیسواں اعتراض اور اس کا جواب

غلطی کا انکشاف
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’یہ کوئی ضروری نہیں کہ آج اگر کوئی بات کسی پر منکشف ہوئی ہو تو لازماً گذشتہ بزرگوں پر بھی منکشف ہوچکی ہو خود میں بھی اب تک درودتاج کو ایک آسمانی اور الہامی قسم کی چیز سمجھتا تھا لیکن جب حقیقت حال منکشف ہو کر سامنے آگئی تو (من بعد ماجاء نی من العلم) اپنے قدیم خیال پر جمے رہنے کا کوئی جواز نظر نہیں آیا‘‘ انتہیی کلامہٗ
٭ پھلواروی صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ درودتاج میں غلطیاں موجود ہونے کے باوجود اگر میرے مرشد اور پدربزرگوار اور مرکز عقیدت شاہ سلیمان صاحب پھلواروی پر وہ منکشف نہیں ہوئیں اور مجھ پر ان کا انکشاف ہوگیا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟’’یہ کوئی ضروری نہیں کہ آج اگر کوئی بات کسی پر منکشف ہوئی ہو تو لازماً گذشتہ بزرگوں پر بھی منکشف ہوچکی ہو‘‘
٭ میں عرض کروں گا کہ یہ کیا ضروری ہے کہ آج اگر کسی کلام میں کوئی غلطی نکالے تو لازماً گذشتہ بزرگوں نے بھی اسے غلطی کہا ہو؟ ممکن ہے کہ اس کلام کو غور و فکر سے دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود بھی گذشتہ بزرگوں کے نزدیک وہ چیز غلطی نہ ہو جسے آج کوئی شخص غلطی کہہ رہا ہے؟ امور غیبیہ اور حقائق غامضہ خفیہ اور مسائل دقیقہ کے بارے میں تو پھلواروی صاحب کی یہ بات کسی حد تک تسلیم کی جاسکتی ہے کہ ان میں سے کوئی غیبی حقیقت یا بہت باریک و دقیق ‘ پوشیدہ بات گذشتہ بزرگوں پر منکشف نہ ہوئی ہو اور بعد میں بذریعہ الہام یا غورو خوض کرنے سے کسی پر اس کا انکشاف ہوجائے لیکن جو بات ابتدائی طالب علم اور معمولی عربی دان بھی جانتا ہو وہ گذشتہ علماء راسخین اور بزرگان دین پر مخفی رہے اور مدتوں بعد کسی پر اس کا انکشاف ہو۔ قابل فہم نہیں۔ پھلواروی صاحب جن کے سامنے درودتاج رہا اور وہ اب تک اسے آسمانی اور الہامی چیز سمجھتے رہے کیاوہ اپنی عمر کے اس طویل زمانے میں ایک معمولی عربی دان اور مبتدی طالب علم کی استعداد بھی نہ رکھتے تھے کہ درودتاج کی بھونڈی بھونڈی غلطیاں بھی انہیں نظر نہیں آئیں اور اب اچانک ان کے پاس نہ معلوم کہاں سے ایسا علم آ گیا کہ درودتاج کی غلطیاں ان پر منکشف ہوگئیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے قدیم خیال پر جمے رہنے کا کوئی جواز نظر نہ آیا۔
٭ ناظرین غور فرمائیں کہ پھلواروی صاحب کی یہ بات کہاں تک قابل فہم ہے حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس سارے کلام میں محض سخن سازی سے کام لیا ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

بیسواں اعتراض اور اس کا جواب

غلط انتساب
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’غلط انتساب کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ کسی چیز کو مقبول بنانے کیلئے کسی مقبول شخصیت کی طرف منسوب کردینے کا رواج کوئی نیا نہیں بہت قدیم ہے۔ روحانی اشارات‘ کشف اور خواب وغیرہ اس مقصد کیلئے گھڑ لئے جاتے ہیں۔ موثر قصے بھی تصنیف کر لئے جاتے ہیں‘‘(انتہیٰ کلامہٗ)
٭ پھلواروی صاحب کی خدمت میں نہایت ادب سے گذارش ہے کہ صلحا امت کے وظائف اور درودتاج آپ کے نزدیک مشرکانہ اور غلط سلط ہیں سب کا مقصد آپ کے نزدیک یہی ہے کہ اہل توحید کو  قرآن اور ادعیئہ مأ ثورہ سے ہٹایا جائے مگر اسی درودتاج کی مقبولیت کے ثبوت میں یہ قصہ آپ کے پدربزرگوار‘ مرشد کامل اور مرکز عقیدت نے اپنی کتاب’’صلوۃ و سلام‘‘ میں تحریر فرمایا ہے۔ آپ اس قصے کو جھوٹا اور من گھڑت بتا رہے ہیں۔ لاکھ دفعہ آپ اسے جھوٹا اور من گھڑت کہیں مگر اتنی بات بتا دیجئے کہ مشرکانہ ‘ غلط سلط اور قرآن و حدیث سے ہٹانے والے درودتاج کی مقبولیت کے ثبوت میں اس قصے کو لکھنے والا‘ مرشد کامل اور مرکز عقیدت ہوسکتا ہے؟ آپ کا صرف یہ کہہ دینا کہ میں انہیں معصوم عن الخطاء نہیں سمجھتا ‘ کافی نہیں۔ آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کی یہ خطا کس نوعیت کی ہے؟ کیا مشرکانہ کلام کی تائید عقیدہ توحید کے منافی نہیں؟ شرک کو آپ توحید کی نقیض نہیں مانتے؟ شرکیہ کلام کی فضیلت و مقبولیت ثابت کرنا بھی شرک ہے گویا آپ نے اپنے مرکز عقید ت کو خطاء شرک سے محفوظ نہیں سمجھا۔ قرآن سے ہٹانے والے کلام کی مقبولیت وفضیلت کا اثبات قرآن سے بغاوت ہے جس کا مرتکب گویا آپ نے اپنے پدر بزرگوار‘ مرکز عقیدت اور مرشد کامل کو ٹھہرایا آپ کیلئے اس الزام سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ نے جو خطاء اپنے مرکز عقیدت سے منسوب کی ہے۔ آپ اس سے رجوع فرمائیں۔ورنہ اس خطاء کے وبال سے آپ کا محفوظ رہنا بھی ممکن نہیں کیونکہ اس عظیم خطا وار سے عقیدت رکھنا بھی خطاء عظیم ہے۔

اکیسواں اعتراض اور اسکا جواب

قوا عدِ صرف و نحو قطعی نہیں
٭ اس کے بعد پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’عربی قواعد صرف و نحو ظنی نہیں یعنی ہیں اگر ان قواعد کو ظنی مانا جائے تو  قرآن و حدیث کی زبان ہی ظنی اور مشکوک ہوجاتی ہے‘‘ انتہیٰ کلامہٗ
٭ پھلواروی صاحب کی یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے جن قواعد کو وہ یقینی کہہ رہے ہیں اہل فن کے شدید اختلافات ان میں پائے جاتے ہیں نحو کی کوئی چھوٹی بڑی کتاب ایسی نہیں جس میں یہ اختلاف مذکور نہ ہوں۔ آئمۂِ فن کے اقوال مختلفہ بالخصوص ان مسائل میں بصرین اور کوفین کے اختلافات کثیرہ سے فن کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ علامہ ابن خلدون نے بھی وضاحت کیساتھ ان کا ذکر کیا ہے فن نحو پر کلام کرتے ہوئے علامہ ابن خلدون نے اس فن کے علماء بالخصوص بصرین‘ کوفین کے نحوی اختلافات کا ذکر کیا ہے وہ فرماتے ہیں
ثُمَّ طَالَ الْکَلَامُ فِیْ ھٰذِہِ الصَّنَا عَۃِ وَحَدَثَ الْخِلَافُ بَیْنَ اَھُلِہَا فِی الْکُوْفَۃِ وَالْبَصْرَۃِ الْمِصْرَیْنِ الْقَدِیْمَیْنِ لِلْعَرَبِ
ترجمہ٭ پھر اس فن میں ان کا کلام بہت طویل ہوگیا‘کوفہ اور بصرہ کے ان علماء کے درمیان مسائل فن میں اختلافات پیدا ہوئے یہ دونوں شہر عرب کے قدیم شہروں میں سے ہیں۔(مقدمہ ابن خلدون ص۵۴۷ طبع بیروت باب ۶ فصل۳۷)
٭ کون نہیں جانتا کہ یقینی امور اختلاف کے شائبہ سے پاک ہوتے ہیں۔ دو اور دو کا چار ہونا یقینی ہے کسی کو اس میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ پھلواروی صاحب اگر ان اختلافات سے باخبر ہوتے تو قواعد صرف و نحو کو یقینی کہنے کی کبھی جسارت نہ فرماتے۔
٭ رہا ان کا یہ کہنا کہ ’’اگر ان قواعد کو ظنی مانا جائے تو قرآن و حدیث کی زبان ہی ظنی اور مشکوک ہوجاتی ہے‘‘ پھلواروی صاحب کی لا علمی پر مبنی ہے قرآن کی زبان عین قرآن ہے جس کا محافظ خود شد ہے ارشاد ہوا
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ
ترجمہ٭ ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔(الحجر ۹ ع۱)
٭ قرآن کا ایک ایک حرف اور ایک ایک حرکت و سکون قطعی اور یقینی ہے۔ ساتواں متواتر قراتیں یقینی اور قطعی ہیں محض تعدد کی وجہ سے انہیں مختلفہ کہاجاتا ہے جیسے قرآن کی آیتوں اور سورتوں کو ایات مختلفہ و سُوَرِ مختلفہ کہہ دیا جاتا ہے۔ ان کے صحیح اور یقینی ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں جس کی دلیل ان کا تواتر ہے۔ اہل علم سے مخفی نہیں کہ تواتر مفید یقین ہوتا ہے۔
٭ ثابت ہوا کہ قرآن کی زبان کا یقینی ہونا تواتر سے ثابت ہے۔ اس کے یقینی ہونے کو صرف و نحو کے ایسے قواعد پر مبنی کہنا جو اختلاف کثیر کی وجہ سے خود ظنی ہیں قرآن اور اس کی زبان کو ظنی قرار دینے کے مترادف ہے ‘ پھلواروی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن و حدیث قواعد کے تابع نہیں بلکہ صرف و نحو کے قواعد قرآن و حدیث کے تابع ہیں متبوع اصل ہوتا ہے اور تابع اس کی فرع ‘ فرع کا وجود ہمیشہ اصل کے بعد ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث کی زبان پہلے سے موجود تھی صرف و نحو کے قواعد نزول قرآن کے مدتوں بعد وضع کئے گئے۔
٭ علامہ ابن خلدون کہتے ہیں کہ جب اسلام آگیا اور مسلمانان عرب فتوحات کیلئے عجم کی طرف بڑھے اور انکے اختلاط کے باعث یہ خطرہ انہیں لاحق ہوا کہ عرب کا فطری لسانی ملکہ عجم سے متاثر ہوکر ختم ہوجائے گا بلکہ قرآن کے سمجھنے میں بھی سخت دشواری پیش آئے گی اس وقت اہل علم نے کلام عرب کو سامنے رکھ کر نحو کے ابتدائی قواعد وضع کئے مثلا ہر فاعل مرفوع ہوتا ہے اور مفعول منصوب علم نحو میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے مشورہ سے ان کی خلافت کے اواخر میں ابوالاسووالدئلی نے قلم اٹھایا(ملحضاً) (مقدمہ ابن خلدون عربی ص ۵۴۶ طبع بیروت باب۲ فصل۳۷) خلاصہ یہ کہ اس علم نحو کے ابتدائی قواعد کی تدوین کا آغاز رسول اللہ کی وفات کے تقریبا تیس پینتیس سال بعد عمل میں آیا جس پر پھلواروی صاحب قرآن و حدیث کی زبان کے یقینی ہونے کا انحصار فرمارہے ہیں۔
٭ قارئین! غور فرمائیں کہ پھلواروی صاحب کی یہ بات کس قدر غلط‘ بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔

با ئیسواں اعتراض اور اسکا جواب

درودتاج ہر طرح کی غلطی سے مبرا ہے
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’درودتاج اگر الہامی بھی ثابت کردیاجائے تو اس کی لسانی غلطی‘ غلطی ہی رہے گی اور لغوی غلطی کی طرح اعتقادی غلطی بھی غلطی کہی جائے گی۔ محض عوامی مقبولیت کسی چیز کی صحت کی ضمانت نہیں‘‘(انتہیٰ)
٭ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مضبوط دلائل کی روشنی میں ہم نے واضح کردیا کہ درودتاج میں کوئی لسانی غلطی نہیں۔ رہی اعتقادی غلطی تو درودتاج اس سے بھی پاک ہے۔ دراصل پھلواروی صاحب کے دل میں ’’دَاِفعِ الْبِلَائِ وَالْوَبَائِ وَالْقَحْطِ وَالْمَرَضِ وَالْاَلَمِ‘‘کے الفاظ کانٹے کی طرح چُبھ رہے ہیں۔ جنہیں اب تک وہ الہامی سمجھتے رہے‘ مگر بقول ان کے ’’من بعد ماجائَ نی من العلم‘‘ اچانک وہ انہیں مشرکانہ سمجھنے لگے مگر یہ بھی علم کی بجائے ان کی لا علمی کا نتیجہ ہے۔
٭ کوئی مسلمان حضورﷺ کودافع حقیقی نہیں سمجھتا۔ دافع حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ رسول کریم ﷺ محض وسیلہ اور واسطہ ہونے کی حیثیت سے دافع مجازی ہیں بایں طورکہ حضورﷺ دفع عذاب کا سبب ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ
ترجمہ٭ یعنی آپ کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ لوگوں کو عذاب نہیں دے گا۔(الانفال)
٭ اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضور ﷺ دفع عذاب کا وسیلہ ہیں نیز فرمایا
وَمَ کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
ترجمہ٭ اللہ تعالیٰ لوگوں کے استغفار کی وجہ سے بھی انہیں عذاب نہیں دے گا۔(الانفال)
٭ استغفار بھی حضور ﷺ ہی سے ملا۔ اس لئے جب تک مومنین کا استغفار ہے حضور ﷺ کا وسیلہ برقرار ہے۔ مدینہ دارالہجرۃ بننے سے پہلے ۔ یَثْرِبْ کہلاتا تھا۔ یثرب کا ماخذ ثَرْبْ ہے یا تَثْرِیْبُ۔ ثرب کے معنی ہیں فساد۔ وہاں کی ہر چیز فاسد تھی جو وہاں آتا ‘ زہریلے بخار اور شدید امراض میں مبتلا ہوجاتا تھا اگر اتفاقاً کوئی وہاں پہنچ جاتا تو لوگ اسے ملامت کرتے کہ تو یہاں بیماریوں اور زہریلے بخاروں میں مبتلا ہونے آیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب وہاں ہجرت کرکے پہنچے انہیں شدید ترین بخار لاحق ہوا وہ بیماری کی حالت میں مکے کو یاد کرکے روتے تھے۔ جب حضور ﷺ وہاں تشریف لائے اور حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا یہ حال دیکھا تو حضور ﷺ نے دعا فرمائی اور حضورﷺ کے مبارک قدموں کی برکت سے مدینہ کی بیماریاں دور ہوئیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا
غُبَارُالْمَدِیْنَۃِ شِفَائٌ مِّنَ الْجُذَامِ
ترجمہ٭ مدینے کا غبار جذام سے شفاء ہے۔(الوفاء لابن الجوزی ج۱ ص۲۵۳ وفاء الوفا ج۱ ص۶۷)
٭ حضورﷺ کے طفیل مدینے کی مٹی جذام کیلئے شفاء ہوگئی۔
٭ رسول اللہ ﷺ کے طفیل‘ بلاء‘ وباء‘ قحط‘ مرض اور اَلَمْ کے دفع ہونے کی صداقت پر مندرجہ ذیل احادیث شاہد عدل ہیں۔
٭ جب حضورﷺ مدینے تشریف لائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ دونوں کو سخت بخار ہوگیا ۔ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی میں نے حضورﷺ کوبتایا حضور ﷺ نے دعا فرمائی
اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیْنَا الْمَدِیْنَۃَ کَحُبِّنَا مَکَّۃَ اَوْاَشَدَّ حُبًّا وَصَحِّحْھَا وَ بَارِکَ لَنَ فِیْ صَاعِھَا وَمُدِّھَا وَانْقُلْ حُمَّا ھَا نَا جْعَلْھَا بِالْجُحْفَۃِ
ترجمہ٭ یا اللہ مکے کی طرح مدینے کو ہمارا محبوب بنا دے بلکہ مکے سے زیادہ اور مدینے کی آب و ہوا ہمارے لئے درست فرما دے اور اس کی صاع اور مُد یعنی غلہ اور پھلوں میں ہمارے لئے برکت فرما اور مدینے کی بیماریاں (یہود کی بستی) حُجفہ کی طرف منتقل کر دے۔(بخاری ج۱ ص۵۵۹)
٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے ایک سیاہ فام پراگندہ سر عورت کو خواب میں دیکھا جو مدینے سے نکل کر حُجفہ میں پہنچ گئی
فَاَوَّلْتُ اَنَّ وَبَائَ الْمَدِیْنَۃِ نُقَلَ اِلَیْھَا
ترجمہ٭ میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ مدینے کی وباء حُجفہ کی طرف چلی گئی۔(بخاری ج۲ ص۱۰۴۲)
٭ یزیدبن ابی عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پندلی میں تلوار کی ضرب کا نشان دیکھا اس نشان کے متعلق میں نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا کہ یہ تلوار کی اس ضرب کا نشان ہے جو مجھے خیبر میں لگی تھی یہ ایسی ضرب تھی کہ لوگ کہنے لگے بس سلمہ اب شہید ہوئے۔ میں حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو حضور ﷺ نے اس میں تین مرتبہ پھونکا اس وقت سے اب تک مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔(بخاری ج۲ ص ۶۰۵ مشکوۃ ص۵۳۳)
٭ حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ ابو رافع یہودی کو قتل کرکے زینے سے نیچے اتر رہے تھے کہ اچانک گر اور انکی پنڈلی ٹوٹ گئی وہ فرماتے ہیں۔میں نے اسے اپنے عمامہ سے باندھ دیا۔ سرکار ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا فرمایا فَمَسَحَھَا فَکَاَنَّمَا لَمْ اَشْتَکِھَا قَطُّ اپنا پائوں پھیلائو۔ میں نے اپنا پائوں پھیلا دیا۔ حضور ﷺ نے میری پندلی پر مبارک ہاتھ پھیر دیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی تکلیف کبھی پہنچی ہی نہ تھی۔(بخاری ج ۲ ص ۵۷۷)
٭ مسلم شریف میں ایک طویل حدیث وارد ہے جس کے آخری حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عطاء رضی اللہ عنہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے حضورﷺ کا جُبہ مبارک نکالا اور فرمایا کَانَ النَبِیُّ ا یَلْبَسُھَا فَخَحْنُ تَغْسِلُھَا لِلْمَرْضٰی لِئَسْتَشْفِیَ بِھَا حضور ﷺ اسے پہنتے تھے اور ہم اس جبے کو پانی سے دھو لیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے اپنے بیماروں کیلئے شفا حاصل کریں۔(مسلم شریف ج۲ ص ۱۹۰)
٭ صحیحین و دیگر کتب احادیث میں باسانید کثیرہ یہ مضمون وارد ہے کہ عہد رسالت میں مدینے میں قحط پڑا۔ خطبہ جمعہ کے موقع پر حضور ﷺ سے باران رحمت کی دعا کیلئے عرض کیاگیا۔ حضورﷺ نے دعا فرمائی اور فورا ہی باران رحمت شروع ہوگئی اور اس کثرت سے بارش ہوئی کہ اگلے جمعہ کے موقع پر حضور ﷺ سے عرض کیاگیا کہ اب تو بارش کی وجہ سے لوگوں کے مکان گرنے لگے ہیں آپ ﷺ دعا فرمائیں کہ بارش رک جائے حضور ﷺ مسکرائے اور آسمان کی طرف اپنے دونوں مبارک ہاتھ اٹھا کر چاروں طرف اشارہ فرمایا اور دعا فرمائی ’’اَلّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا‘‘ حضورﷺ کے اشارے کے ساتھ بادل پھٹتا گیا اور صاف آسمان گول دائرے کی طرح نظر آنے لگا۔مدینہ میں بارش رک گئی۔ آس پاس جاری رہی(بخاری ج ۱ ص ۱۴۰‘۱۴۱‘۵۰۶)قحط دفع ہوا اور خشک سالی خوشحالی میں بدل گئی۔
٭ سلیمان بن عمرو بن احوص ازدی اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو رمی جمارکرتے دیکھا رمی جمار فرما کر حضور ﷺ آگے بڑھے ایک عورت حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی عرض کی حضورﷺ میرا بیٹا فاتر العقل ہے حضورﷺاس کیلئے دعا فرمائیں حضور ﷺ نے اس سے فرمایا پانی لے آ وہ ایک پتھر کے برتن میں حضور ﷺ کے پاس پانی لے آئی حضور ﷺ نے اسمیں لعاب دہن ڈالا اور اپنا چہرہ انور اسمیں دھویا پھر اسمیں دعا فرمائی پھر فرمایا یہ پانی لے جا ’’فَاغُسِلِیْہِ بِاٖء وَاسْتَشْفِی اللّٰہَ عَزَّوجَلَّ‘‘ اس پانی سے اسے غسل دے اور اللہ تعالیٰ سے شفاء طلب کر اس حدیث کی روایت کرنے والی صحابیہ سلیمان بن عمروبن احوص رضی اللہ عنہ کی والدہ نے اس عورت سے کہا میرے اس بیمار بچے کیلئے اس میں سے تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دے وہ فرماتی ہیں میں نے اپنی انگلیوں سے تھوڑا سا پانی لے کر اپنے بیمار بیٹے کے بدن پر مل دیا چنانچہ وہ اعلی درجہ کا تندرست ہوگیا فرماتی ہیں اس کے بعد میں نے اس عورت سے پوچھا کہ اس کے بیٹے کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا وہ بہترین صحت کے ساتھ صحت یاب ہوگیا۔(مسند احمد ج۶ص۳۷۹ طبع بیروت)
٭ قارئین کرام نے آیت قرآنیہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرما لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو بلاء و وباء‘ قحط و مرض اور اَلَم کے دفع ہونے کا سبب بنایا۔ دافع حقیقی محض اللہ تعالیٰ ہے۔رسول اللہ ﷺ کمال عبدیت کے باعث عون الہی کا مظہر اتم و اکمل ہیں۔ اسی اعتبار سے درودتاج میں حضورﷺ کو ’’دَافِعِ الْبَلَائِ وَالْوَبَائِ وَالْقَحْطِ وَالْمَرَضِ وَالْاَلَمِ‘‘ کہا گیا جس میں شرک کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ بلکہ یہ کمال عبدیت کا وہ بلند مقام ہے جس کی تفصیل کتاب و سنت کے مطابق نادِ علی کی بحث میں آرہی ہے۔


عوامی مقبولیت
٭ پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ’’محض عوامی مقبولیت کسی چیز کی صحت کی ضمانت نہیں’’ اس مقام پر قطعاً نامناسب ہے حقیقت یہ ہے کہ درودتاج محض عوام میں مقبول نہیں بلکہ خواص میں بھی مقبول ہے جسکی دلیل یہ ہے کہ پھلواروی صاحب کے مرکز عقیدت نے اسکی مقبولیت ثابت کرنے کیلئے اپنی کتاب ’’صلوۃ و سلام‘‘ میں وہ واقعہ لکھا جسے پھلواروی صاحب من گھڑت اور ظنی کہہ رہے ہیں مگر وہ انکے لکھنے کا انکار نہ کرسکے جس سے صاف ظاہر ہے کہ پھلواروی صاحب کے والد بزرگوار جو طبقہ خواص سے ہیں ۔ درودتاج ان کے نزدیک مقبول ہے اور وہ اس کی مقبولیت کے قائل ہیں۔ اس کے باوجود پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’محض عوامی مقبولیت کسی چیز کی صحت کی ضمانت نہیں‘‘ گویا اپنے پیر و مرشد اور مرکز عقیدت کو خواص سے خارج کرکے عوام میں شامل کردینا ہے جو کسی’’خلف رشید‘‘ مرید صادق اور بے حد عقیدت رکھنے والے کے شایان شان نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ یہ اپنے مرشد کی عظمت کو بری طرح مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

تیئسواں اعتراض اور اسکا جواب

’’یَا اللّٰہ‘‘ کی ترکیب صحیح ہے
٭ پھلواروی صاحب نے درودتاج کے علاوہ صلحاء امت اور بزرگان دین کے دیگر معمولات اور وظائف پھر بھی ایسے ہی لا یعنی اور لچر اعتراض کئے ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں ’’یا‘‘ عربی لفظ ہے اور اللہ بھی عربی لفظ ہے لیکن’’یا اللہ‘‘ کوئی عربی لفظ نہیں ۔ یہ نہ قرآن میں نہ حدیث میں اور نہ عربی لٹریچر میں۔ جب اے اللہ کہنا مقصود ہوتو اللہ پر نداء کا ’’یا ‘‘نہیں لاتے بلکہ ایسے موقع پر اَللَّھُمَّ کہتے ہیں پس جب وظیفے میں آپ ’’یا اللہ‘‘ لکھا ہوا دیکھیں بس سمجھ لیں کہ یہ کسی ایسے عجمی عربی دان کا لکھا ہوا ہے جو عربی زبان کی باریکیوں اور نزاکتوں کا زیادہ فہم نہیں رکھتا۔ اب اس پر خواب‘ کشف اور برکات و تاثیرات کے کتنے ہی حاشیے چڑھائے جائیں غلطی‘ غلطی ہی رہے گی۔ درستی نہیں ہوجائے گی۔ انتہیٰ


فیوض اولیاء سے تنفیر کی سازش
٭ اس کے بعد پھلواروی صاحب نے کشف و کرامات اور روحانی فیوض و برکات کا مذاق اڑانے کیلئے واقعہ کے نام سے ایک مضحکہ خیز قصہ لکھ دیا۔ انداز تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ اس کی اصلیت قلبی عناد ظاہر کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ آگرے میں سیدنا ابو العلی رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک مرجع خواص و عوام اور ایسی مشہور و معروف زیارت گاہ ہے کہ جس کے متعلق عقل سلیم تسلیم ہی نہیں کرتی کہ ان کے مزار پر حاضری کے قصد سے جانے والا ملا شوستری کی قبر پر جاکھڑا ہو۔ یہ سارا قصہ محض اس لئے تصنیف کیاگیا ہے کہ پڑھنے والے‘ بزرگان دین کی مزارات پر حاضری اور فیوض و برکات کے حصول کو محض ایک اضحو کہ سمجھ کر اس سے متنفر ہوجائیں۔ بقول پھلواروی صاحب اگر ان امور کی حمایت اور موافقت میں کشف و الہام اور خواب گھڑے جاسکتے ہیں تو میں عرض کروں گا کہ کیا ان امور کی مخالفت میں اس نوعیت کے قصوں سے حاشیہ آرائی نہیں کی جاسکتی؟
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں کہ لفظ ’’یا‘‘ اور لفظ ’’اللہ‘‘ دونوں عربی ہیں مگر یا اللہ کوئی عربی لفظ نہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے اگر قرآن و حدیث میں ’’یََااَللّٰہُ‘‘ کا لفظ وارد نہیں ہوا۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عربی زبان ہی سے خارج ہوجائے۔ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ کسی لفظ کا قرآن و حدیث میں وارد نہ ہونا اس کے غلط یا غیر عربی ہونے کو مستلزم نہیں اور یہ بات بالکل بدیہی ہے ۔ پھلواروی صاحب ’’یَا اَللّٰہ‘‘کو غلط قرار دے رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ عربی لٹریچر میں بھی کہیں اس کا وجود نہیں۔ ان شاء اللہ ہم عنقریب ثابت کریں گے کہ ’’یَااَللّٰہُ‘‘ کی ترکیب خالص عربی ہے اور یہ خالص عربی زبان کا کلمہ ہے۔ عرب کے لوگ ’’یَااَللّٰہُ‘‘ کہتے تھے دیکھئے تفسیر بیضاوی میں ہے ’’وَاللّٰہپ اَصلْلُہٗ فَحُذِفَتِ الْھَمْزَۃُ وَعُوِّضَ عَنخھَا اْلاَلِفُ وَاللَّامُ وَلِذٰلِکَ قَیْلَ یَااَللّٰہُ بَالْقَطْعِ‘‘ یعنی لفظ ’’یَا اَللّٰہ‘‘ کی اصل ’’اِلٰہٌ‘‘ ہے۔ ’’اِلٰہٌ‘‘ کا ہمزہ حذف کرکے الف لام اسکے عوض میں لایاگیا۔ اسی لئے ’’ ’’یَا اَللّٰہ‘‘ بالقطع کہا گیا(تفسیر بیضاوی علے ھامش شیخ زادہ ج۱ ص ۲۱ں۲۲ طبع ترکی) یعنی اس ہمزہ کو ہمزہ وصلی کی طرح ساقط نہیں گیا بلکہ ہمزہ قطعی قرار دے کر اس کے تلفظ کو برقرار رکھاگیا۔
٭ بیضاوی کے بعد کافیہ کی عبارت بھی ملاحظہ فرمالیجئے۔ علامہ ابن حاجب فرماتے ہیں قَالُوْا یَا اَللّٰہُ خَاصَّۃً (کافیہ بحث توابع المنادی) ملا جامی نے اسکی شرح میں فرمایا ہے لفظ ’’اَللّٰہ‘‘اصل میں ’’الہ‘‘ تھا۔ الہ کا ہمزہ حذف کرکے الف لام اسکے عوض میں لایاگیا جو اس کیلئے لازم ہے اور ’’یَا اَللّٰہ‘‘ کہاگیا لفظ ’’ اَللّٰہ‘‘ کے سوا کوئی ایسا کلمہ نہیں جس کے الف لام میں عوض اور لزوم دونوں باتیں پائی جائیں۔ کسی جگہ عوض ہے تو لزوم نہیں جیسے اَلنَّاسُ اور کہیں لزوم ہے تو عوض نہیں جیسے اَلنَّجْمُ یہ خاصہ لفظ ’’ اَللّٰہ‘‘ کا ہے کہ اسکا الف لام عوض میں بھی ہے اور وہ اس کیلئے لازم بھی ہے اسیلئے خصوصیت کیساتھ بالقطع ’’یَااَللّٰہُ‘‘ کہا جاتا ہے۔(شرح جامی ص ۱۱۰۔۱۱۱ طبع پشاور)
٭ پھلواروی صاحب عربی زبان میں ’’یَا اَللّٰہ‘‘ کا لفظ پائے جانے کے منکر ہیں۔ حالانکہ اہل عرب جب اَلّٰھُمَّ کی میم کو ساقط کردیتے تھے تو کہتے تھے ’’یَا اَللّٰہ اِغْفِرْلِی‘‘ (لسان العرب ج۱۳ ص۴۷۰ طبع بیروت) بلکہ یَللّٰہُ بھی بعض اہل عرب سے ثابت ہے(جو شاذ ہے) لسان العرب میں ہے قَال الْکِسَائِ یُّ اَلْعَرَبُ تَقُوْلُ یَا اَللّٰہُ اغْفِرْلِی وَیَللّٰہُ اغْفِرْلِیْ(لسان العرب ج۱۳ ص۴۷۰ طبع بیروت)۔ آخر میں امام لنحاۃ ابو بشر عمر وبن عثمان سیبویہ کا ارشاد بھی سن لیجئے وہ فرماتے ہیں
وَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَا یَجُوْزُلَکَ اَنْتُنَادِیَ اسْمًا فِیْہِ اِلْالِفُ وَاللَّامُ اَلْبَتَّ ۃَ اِلَّا اَنَّھُمْ قَدْقَالُوْایَااَللّٰہُ اغْفِرْلَنَا وَذٰلِہَ مِہْ قِبَلِ اَنَّہُ اسْمٌ یَلْزَمُہُ الٰاَلِفُ واللَّامُ لَائُفَارِقَانِہٖ وَکَثُرَنِیْ کَلَا مِہِمٌ
ترجمہ٭ جان لو کہ جس اسم پر الف لام ہو(بلا فصل)اسے ندا کرنا قطعاً جائز نہیں بجز اس کے کہ اہل عرب نے ’’ یَا اَللّٰہُ اغْفِرْلَنَا‘‘ کہا ہے(اے اللہ ہمیں بخش دے) یہ صرف اس لئے کہ لفظ ’’ اَللّٰہُ‘‘ ایسا اسم ہے جس کیلئے الف لام لازم ہے کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا اور یہ استعمال ان کے کلام میں بہت کثیر ہے(کتاب سیبویہ ج۲ ص۱۹۵ طبع بیروت)
٭ ان تمام عبارات سے ثابت ہوا کہ ’’یَا اَللّٰہ‘‘ عربی لفظ ہے اور یہ صحیح ہے اسے غلط کہنا قطعاً غلط ہے۔ اہل عرب اَلّٰھُمَّ کے علاوہ ’’یَا اَللّٰہ‘‘ بھی کہتے تھے ان کا مقولہ ’’یَا اَللّٰہُ اغْفِرْلَنَا‘‘ اس کا شاہد ہے اور استعمال ان کے کلام میں کثیر ہے۔
٭ پھلواروی صاحب کی علمی بے مائیگی پر افسوس ہوتا ہے ’’کتاب سیبویہ‘‘ تو درکنا وہ فنون کی متداول کتابوں سے بھی واقف نہیں۔ ایسا نہ لسان العرب کا دیکھنا انہیں نصیب ہوا۔ فواحسرتاہ۔

چوبیسواں اعتراض اور اسکا جواب

معرف باللام پردخول حرف نداء
٭ پھلواروی صاحب کہتے ہیں’’اگر لفظ معرف باللام ہو تو یٰاَیَُھَا آئے گا‘‘ جیسے ’’یٰاَ ایُّھَاالنَّبِیُّ‘‘ (اس کے بعد فرماتے ہیں) ’’صرف اللہ ایک ایسا لفظ ہے جس پر نہ ’’یَا‘‘ آتا ہے نہ ’’اِیُّھَا‘‘ آتا ہے۔ اللہ جب منادی ہو تو اس کے آخر میں م آجاتا ہے یعنی اَللّٰھُمَّ ہوجاتا ہے‘‘(ص۱۸)
٭ پھلواروی صاحب نے اس عبارت میں اپنی علمی بے مائیگی اور ناسمجھی کا مظاہرہ کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ جس اسم پر الف لام ہو جیسے اَلرََّحُلُ ‘ النَّبِیُّ‘‘ وغیرہ اس کو نداء کرنے کیلئے اَیُّھَا کا فاصلہ لانا پڑے گا۔ جیسے یٰاَ یُّھَالرَْجُلُ۔ یٰاَ یُّھَاالنَّبِیُّ(شرح جامی وغیرہ کتب نحو) بجز لفظ اللہ کے کہ اس کی نداء میں اَیُّھَا کے بغیر اَللّٰہُ کہاجائے گا۔ یا اس کے آخر میں میم مشددہ مفتوحہ شامل کرکے اَللّٰھُمَّ کہہ کر نداء کی جائے گی۔ یہ دونوں جائز ہیں۔ اہل عرب کے کلام میں مستعمل ہیں جس کا تفصیلی بیان دلائل کے ساتھ ہم ابھی ہدیہ قارئین کرچکے ہیں۔

نَادِعَلِیًّا
ایک بے بنیاد قصے کی تردید
٭ پھلواروی صاحب نے اس عنوان کے تحت صالحین امت بالخصوص سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف دلی نفرت اور بغض و عناد کا اظہار جس انداز سے کیا ہے۔ محتاج بیان نہیں ۔ اس کے پس منظر میں جو بے بنیاد قصہ روافض سے انہوں نے نقل کیا ہے ہم پر حجت نہیں کسی نے اس بے بنیاد واقعہ کو غزوہ خیبر سے متعلق کیا اور کسی نے غزوہ تبوک سے ہمارے نزدیک سرے سے یہ قصہ ہی من گھڑت ہے۔ لہذا اس کی بنیاد پر پھلواروی صاحب کا طعن و تشنیع بے محل‘ لا یعنی اور لغو ہے ہم اس وظیفہ کے متعلق اتنا جانتے ہیں کہ یہ بعض صالحین کے اوراد میں شامل ہے اور بس۔


ناد علی شعر نہیں
٭ ہمارے خیال میں یہ وظیفہ نظم نہیں بلکہ نثر ہے اسے شعر کہنا درست نہیں شعر اس کلام موزون‘ مقفی کو کہتے ہیں جو بقصد شعر کہاجائے۔ اگر کوئی کلام یا اس کا کوئی حصہ بلا قصد اتفاقاً موزوں ہوجائے تو اسے شعر نہیں کہاجاتا۔ آیتہ قرآنیہ کا ایک حصہ ثُمَّ اَنْتُمْ ہٰؤُلَائِ تَقْتُلُوْن(البقرہ ۸۵) موزوں ہے مگر وہ کلام الہی ہے۔ قصدِ وزن اور شعریت سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔

پچیسواں اعتراض اور اسکا جواب

٭ پھلواروی صاحب نے اس وظیفہ کو شعر سمجھا اور اس بنیاد پر وزن اور قافیہ کا اعتراض اس پر جڑ دیا جو بِنَائُ الْفَاسِدعَلَ الْفَاسِد کا مصداق ہے جب وہ مانتے ہیں کہ اس میں نہ قافیہ کی رعایت ہے نہ وزن کی پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کس بنیاد پر وہ اسے شعر سمجھ رہے ہیں؟

چھبیسواں‘ ستائیسواں اور اٹھائیسواں اعتراض اور انکے جواب

چند بے محل اعتراضات کا اجمالی جواب
٭ حضورﷺ کا اپنے آپ کو مخاطب کرنا اور فتح خیبر کیلئے حضورﷺ کی نبوت کا کافی نہ ہونا اور حضورﷺ کا مدد کیلئے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کو پکارنا پھلواروی صاحب کے ایسے اعتراضات ہیں جنکی بنیاد وہی من گھڑت قصہ ہے جسکی ہم ابھی تکذیب کرچکے ہیں۔

انتیسواں اعتراض اور اسکا جواب

نام اقدس لے کر خطاب کرنا
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’پھر دیکھئے کہ کس بد تمیزی سے حضورﷺ کو نام لے کر مخاطب کیاجارہا ہے۔ سارے قرآن میں کہیں حضورﷺ کو نام لے کرمخاطب نہیں کیاگیا ہے کسی صحیح حدیث قدسی میں نام لے کر مخاطب نہیں کیاگیا ہے‘‘
٭ یَا مُحَمَّدُ کے الفاظ کو بد تمیزی کہنا بجائے خود بدتمیزی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بہ نفس نفیس ’’یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ قَدْتَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ‘‘ کے الفاظ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو تلقین فرمائے۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ قزوینی نے اپنی سنن میں روایت کیا اور کہا قَال اَبُوْ اِسْحٰقَ ہٰذَا حَدِیْثٌ صَحیْحٌ یعنی ابو اسحق نے فرمایا یہ حدیث صحیح ہے۔
٭ (ابن ماجہ ص۱۰۰ طبع اصح المطابع کراچی ص ۴۴۱‘۴۴۲ طبع بیروت ج ۱) یہاں یہ ملحوظ رہے کہ آیت کریمہ تَجْعَلُوْا دُعَائَ الرَّسُوْل بَیْنَکُمْ الآیتہ میں رسول اللہ ﷺ کو جس نداء اور خطاب کرنیکی ممانعت آئی ہے درحقیقت وہ ایسی نداء اور خطاب ہے جس کا عادۃ لوگوں میں رواج ہے جیسے عام طورپر کسی کو یَازَیْدُ ‘ یَا عَمْرُو کہہ کر پکارلیاجاتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ اسطرح میرے رسول کو نہ پکارو۔
٭ مگر اورادو وظائف میں یَامُحَمَّدُ کے ساتھ حضورﷺ کو جو نداء کی جاتی ہے۔ وہ ہرگز اس نوعیت کی ندائے مروج و معتاد نہیں بلکہ یہاں تو تنہائی میں محض سر گوشی کے طور پر یَا مُحَمَّدُ کہہ کر حضورﷺکی روحانیت مقدسہ کو نداء کیساتھ اپنی طرف اسلئے متوجہ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ یَا مُحَمَّدُ کہنے والا حضورﷺ کو اپنے لئے تَوَجُّہْ اِلیٰ اللّٰہ کا وسیلہ بنائے۔
٭ لہذا اس نداء کو ندایٔ مروج اور خطابِ معتاد پر قیاس کرنا ہرگز صحیح نہیں تاہم اہل علم ایسے مواقع پر احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے یَامُحَمَّدُ کی بجائے یَارسُوْل اللّٰہ پڑھتے ہیں۔
٭ بہرنوع پھلواروی صاحب کا یَا مُحَمَّدُکہنے کو بے دھڑک بدتمیزی کہہ دینا سخت بدتمیزی ہے اور حدیث پاک پر صراحتہً طعن کرنا ہے (العاذ باللہ)


یَا مُحَمَّدُ کہنے کا ثبوت
٭ یہ صحیح ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یَا مُحَمَّدُ کہہ کر حضورﷺ کو مخاطب نہیں فرمایا لیکن یَا مُحَمَّدُ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حضورﷺ کو خطاب فرمانا احادیث صحیح میں وارد ہے۔ مُتِّفَقْ عَلَیْہِ حدیث میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’یَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَاْسَکَ‘‘ اے محمدﷺ اپنا سر اقدس اٹھائیے۔(مشکواۃ شریفص ۴۸۸ ۔۴۸۹ طبع رشیدیہ دہلی) اختصام ملائکہ کی مشہور حدیث میں رسول اللہ ﷺ کیلئے لفظ یَا مُحَمَّدُ کے ساتھ اللہ کا خطاب وارد ہے۔ بروایت معاذین جبل رضی اللہ عنہ اس حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یَا مُحَمَّدُ سرکار فرماتے ہیں میں نے عرض کیا لَبَّیْکَ رَبِّ اے میرے رب میں حاضر ہوں۔(مشکواۃ ص۷۲)

تیسواں اعتراض اور اسکاجواب

نادعلی کو مشرکانہ وظیفہ کہنا
٭ رہا یہ امر کہ اس وظیفہ میں شرکیہ الفاظ ہیں تو یہ پھلواروی صاحب کی ناسمجھی ہے۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کا مدد کرنا اذن الہی اور مشیت ایزدی کے تحت ہے بالا استقلال نہیں اور مدد اور عون کی اسناد حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی طرف حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہے جس کا مفاد حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ سے توسل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس وظیفے کے الفاظ سے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے مستعاں حقیقی ہونے کا مفہوم پھلواروی صاحب کی اپنی فہم ہے جو درست نہیں آیت کریمہ اِیَّاک نَسْتَعِیْنُ کے تحت ہم نے اپنے تفسیری حواشی میں اس مسئلہ کی پوری وضاحت کردی ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں۔

اکتیسواں اعتراض اور اسکا جواب

مرتب ناد علی کو بدبخت شاعر کہنا
٭ اس وظیفے کے مؤلف کو بد بخت شاعر کے الفاظ سے تعبیر کرنا اور اس کے حق میں یہ کہنا کہ ’’بدبخت شاعر کو حضورﷺ کی طرف شرک منسوب کرتے بھی شرم نہ آئی‘‘ پھلواروی صاحب کے بے محل غیظ و غضب کے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔
٭ ہم ابھی بتا چکے ہیں کہ یہ وظیفہ شعر نہیں لہذا اس کی بنیاد پر اس کے مؤلف کو شاعر کہنا غلط ہے نہ اس نے اس وظیفہ کا کوئی کلمہ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا۔ حضورﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنے والا وہ بد بخت ہے جس نے یہ جھوٹا قصہ گھڑا۔
٭ پھلواروی صاحب کی تمام تر طعن و تشنیع کی بنیاد صرف وہی جھوٹا قصہ ہے جو کسی رافضی کے حوالے سے انہوں نے نقل کیا جس کا کوئی تعلق نہ وظیفے سے ہے نہ اس کے مؤلف سے۔

بتیسواں اعتراض اور اسکا جواب

حسنین کریمین صحابی ہیں
٭ پھلواروی صاحب ملا باقر مجلسی کا ایک بیان نقل کرکے تحریر فرماتے ہیں ’’اس روایت سے واضح طورپر دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جناب حسن رضی اللہ عنہ وفات نبوی کے وقت چار سال کے لگ بھگ تھے اور جناب حسین رضی اللہ عنہ ان سے بھی کوئی سال بھر چھوٹے تھے۔ دوسرے یہ کہ سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کو شریک غزوہ خیبر ہونا صحیح نہیں‘‘ انتہیٰ کلامہٗ
٭ میں عرض کروں گا کہ ملا باقر مجلسی کا بیان یا اس کی منقولہ روایت ہمارے نزدیک پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتی۔ یہاں اس کا نقل کرنا ہی بے سود اور بے محل ہے۔ ہمارے علمائے محقیقین نے لکھا ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی ولادت نصف رمضان 3ہجری میں ہوئی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔ قَالَ خَلِیْفَۃُ وَغَیْرُ وَاحِدٍ وُّلِدَللِنِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ سَنَۃَ(۳) یعنی خلیفہ اور ان کے علاوہ کئی علماء نے کہا کہ حضرت حسن نصف رمضان3ہجری میں پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے ابن حجر اسی مقام پر فرماچکے ہیں۔ رَوٰی عَنْ جَدِّہٖ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ یعنی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا رسول اللہ ﷺ سے روایت کی (تہذیب التہذیب ج۲ص۲۹۵‘۲۹۶ بیروت) امام ابن جوزی نے تقریباً دس احادیث کے رواۃ میں ان کانام لکھا (تلقیح فہوم الاثرص۱۸۷ طبع دہلی) اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے تہذیب التہذیب میں فرمایا’’قَالَ الزُّبَیْرُبْنُ بَکاَّرٍ وْلِدَ لِحَمْسِ لَیَالٍ کَلَوْنَ مِنْ شَعْبَانَ سَنَۃَ اَرْبَعٍ‘‘ یعنی زبیر بن بکار نے کہا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ چھ شعبان 4ہجری کو پیدا ہوئے(تہذیب التہذیب ج۲ ص ۳۴۵ طبع بیروت)اور امام ابن جوزی نے انہیں تقریباً سات احادیث کے رواۃ میں شمار کیا۔(تلقیح ص ۱۸۸)
٭ ثابت ہوا کہ پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’جناب حسن رضی اللہ عنہ وفات نبوی کیوقت چار سال کے لگ بھگ تھے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان سے بھی کوئی سال بھر چھوٹے تھے قطعاً غلط اور دروغ بے فروغ ہے حقیقت یہ ہے کہ وفات نبوی کے وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عمر شریف تقریباً ساڑھے سات سال اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک تقریباً ساڑھے چھ سال تھی۔ رسول اللہ ﷺ سے ان کا احادیث روایت کرنا بھی اسی کا مو’ید ہے۔
٭ قارئین کرام نے ملاحظہ فرمالیا کہ پھلواروی صاحب نے کس دلیری کے ساتھ حق کو چھپایا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت گھٹانے کی کیسی مذموم جسارت کی۔


حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور غزوہ خیبر
٭ اسی طرح حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حق میں بھی ان کا یہ گھنائونا نظریہ قارئین کرام کے سامنے آگیا کہ ’’سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کا شریک غزوہ خیبر ہونا صحیح نہیں‘‘ العیاذباللہ۔
٭ آج تک دنیا کے کسی مورخ نے غزوہ خیبر میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شرکت کی نفی نہیں کی۔ تمام کتب سیرت و تاریخ اور احدیث صحیحہ میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کا غزوہ خیبر میں شریک ہونا بلکہ فاتح خیبر ہونا منقول اور مروی ہے۔ صحیحین کی متفق علیہ حدیث ہے
عَنْ سَلمَۃَ قَالَ کَانَ عَلِّیٌ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبَیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نِیْ خَیْبَرَوَکَانَ بِہٖ رَمَہٌ فَقَالَ اَنَا اَتَخَلَّفُ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فَلَمَّا کَانَ مَسَائُ اللَّیْلَۃِ الَّتِیْ فَتَحَھَا اللّٰہُ فِیْ صَبَا حِھَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ اَوْلَیَأْ خُذَنَّ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَوْقَالَ یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلَیْہِ فَاِذَانَحْنُ بِعَلِیٍّ وَمَانَرْجُوْہُ فَقَالُوْھٰذَا عَلِیٌّ فَاَعْطَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ھٰذَا عَلِیٌّ فَاَعْطَاہپ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔
ترجمہ٭ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ عزوہ خیبر کے موقع پر حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے۔ انہیں آشوب چشم کی تکلیف تھی۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ جائوں؟ چنانچہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم مدینہ سے چل کر خیبر پہنچے اور حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوگئے۔ جب اس رات کی شام ہوئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کل یہ جھنڈا میں اسے دوں گا یا مجھ سے یہ جھنڈا وہ لے گا جو اللہ تعالیٰ اور رسول کا محبوب ہے یا (فرمایا) اللہ تعالیٰ اور رسول اسکے محبوب ہیں۔ یہ جنگ اللہ تعالیٰ اسی پر فتح فرما دے گا اچانک ہم نے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دیکھا اور ہمیں انکی کوئی امید نہ تھی صحابہ نے عرض کیا حضورﷺ ! یہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ جھنڈا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کو عطا فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خیبر فتح فرمایا۔ انتہیٰ(صحیح بخاری ج اول ص۵۲۵ صحیح مسلم جثانی ص۲۷۹ طبع اصح المطابع کراچی)
٭ شاید قارئین کرام میں سے کسی کو یہ شبہ لاحق ہو کہ پھلواروی صاحب نے ملا باقر مجلسی اور روافض پر الزام قائم کرنے کیلئے ایسا لکھا ہے تو میں عرض کروں گا کہ الزام‘ مخاطب پر قائم کیاجاتا ہے پھلواروی صاحب کے مخاطب‘ روافض اور ملا باقر مجلسی نہیں پھر ان پر الزام قائم کرنے کے کیا معنی؟ درودتاج‘ دلائل الخیرات اور حزب البحر وغیر جن اوراد و وظائف پر پھلواروی صاحب نے جواعتراضات کئے وہ بزرگان اہل سنت کے معمولات ہیں۔ اس لئے پھلواروی کے مخاطب روافض اور ملا باقر مجلسی نہیں بلکہ ہم غریبین ہیں۔ لہذا روافض یا ملا باقر مجلسی پر الزام قائم کرنے کا شبہ درست نہیں ہوسکتا۔
٭ علاوہ ازیں اس موقع پر اظہار حق ضروری تھا جو انہوں نے نہیں کیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہی ان کے نزدیک حق ہے جو اہل حق کے نزدیک سراسر باطل اور ناقابل قبول ہے۔
٭ پھلواروی صاحب کی یہ ساری کاوش اس غرض سے ہے کہ فضائل اہل بیت کے انکار اور ان کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالنے کیلئے کہیں سے انہیں کوئی سہارا مل جائے نہ معلوم کس قدر تگ و دو اور کدوکاوش کے بعد ملا باقر مجلسی کی یہ روایت ان کے ہاتھ آئی‘ جس کے بعد حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ دو باتیں ثابت کرنے کا بزعم خویش انہیں موقع میسر آیا جو اہل سنت کے لئے قابل قبول تو درکنار لائق التفات بھی نہیں۔


مَرْحَبْ یہودی کے قاتل
٭ دنیا جانتی ہے کہ یہود خیبر کے سب سے بڑے سردار مرحب کے قاتل حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔ پھلواروی صاحب اس کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’مزید براں طبری متوفی310ہجری کے بیان کے مطابق مرحب کے قاتل محمد بن مسلمہ ہیں اور صحیح بھی یہی ہے۔ کیونکہ ان کے بھائی محمود بن مسلمہ کی خواہش پر حضور ﷺ نے انہی کو مرحب کا مقابلہ کرنے کیلئے بھیجا اور انہی نے اسے قتل کیا۔ مرحب کے قتل کا کوئی تعلق سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے نہیں۔ یہ چوتھی صدی ہجری کا اختراع ہے‘‘ انتہیٰ کلامہٗ
٭ میں عرض کروں گا علم حدیث اور سیرت کی روشنی میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی مرحب کے قاتل ہیں دیکھئے امام مسلم متوفی261ہجری نے ’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث روایت کی جس کا آخری حصہ حسب ذیل الفاظ میں ہے۔
وَخَرَجَ مَرْحَبُ فَقَالَ

قَدْعَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِی السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ
اِذَا الْحُرُوبُ اَقٰبَلَتْ تَّلَھَّبٗ
فَقَالَ عَلِیٌّ
اَنَا الَّذِیْ سَمَّتْنِیْ اُمِّیْ حَیْدَرَہ کَلَیْثِ غَابَاٹٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہ
اُدْنِیْھِمْ بالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہ
قَالَ فَضَرَبَ رَأَسَ مَرْحَبٌ فَقَتَلَہٗ ثُمَّ کَانَ الْفَتْحُ عَلٰی یَدَیْدِ(صحیح مسلم شریف ج۳ ص۱۴۴۱ طبع بیروت)
ترجمہ٭ یہودیوں کا سب سے بڑا سردار مرحب رجزیہ اشعار پڑھتا ہوا میدان جنگ میں نکلا۔ خیبر والے جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں۔ نہایت مضبوط ہتھیار بند‘ آزمودہ بہادر پہلوان۔ جب بھڑکتی ہوئی لڑائیاں سامنے آئیں۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس کے مدمقابل ہوکر فرمایا۔ میں وہ علی ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا‘ بیانانوں کے خوفناک شیروں کی طرح‘ میں دشمنوں کو بڑی تیزی اور فراخی کے ساتھ قتل کرتا ہوں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مرحب کے سر پر کاری ضرب لگائی اور اسے قتل کردیا پھر خیبر حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ہاتھ پر فتح ہوگیا۔ انتھیٰ
٭ علامہ ابن کثیر نے فرمایا اس حدیث کو مسلم اوربیہقی نے روایت کیا بیہقی کے الفاظ حسب ذیل ہیں
قَالَ فَضَرَبَ مَرْحَبَ فَفَلَقَ رَأْسَہٗ فَقَتَلَہٗ وَکاَنَ الْفَتْحُ
ترجمہ٭ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مرحب کو ضرب کاری لگائی اس کا سر پھاڑ کر اسے قتل کردیا اور خیبر کی جنگ فتح ہوگئی۔(البدایہ و النہایہ جز چہارم ص۱۸۸ طبع مصر)یہی الفاظ مستدرک میں بھی ہیں۔(المستدرک للحاکم ج۳ ص۳۹ طبع بیروت) اسی طرح طبقات محمد بن سعد متوفی230ہجری میں ہے(ج۲ص۱۱۲ طبع بیروت)
٭ ابن کثیر نے بیہقی کی ایک دوسری روایت کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں
نَبَدَرَہٗ عَلِیٌّ بِضَرْبَۃٍ فَقَدَّالْحَجَرَ وَالْمِغْفَرَوَرَاّسَہٗ وَوَ قَعَ فِی الْاَضْرَاسِ وَاَخَذَ الْمَدِیْنَۃَ
ترجمہ٭ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مرحب کو ضرب لگانے میں جلدی کی تلوار کی ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کے پتھر اور لوہے کے خود کو کاٹ کر رکھ دیا۔ تلوار اس کے سر میں پیوست کردی۔ جو اس کی ڈاڑھوں تک پہنچ گئی اورخیبر کے شہر کو فتح کرلیا۔(البدایہ و النہایہ جز۴ص۱۸۷)
٭ نیز علامہ ابن کثیر نے امام احمد کی بھی ایک روایت بیان کی ہے وہ فرماتے ہیں’’عنْ عَلِیٍّ (ڑَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ( قَالَ لَمَّا قَتَلْتُ مَرْحَبَ جِئْتُ بِرَاّْسِہٖ اِلٰی رَسُوْل اللّٰہِ صَلَّیَ اللّٰہپ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘ یعنی امام احمد متوفی241ہجری نے فرمایا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے جب میں نے مرحب کو قتل کردیا تو اس کا سر لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔(البدایہ و النہایہ جز۴ص۱۸۸)
٭ طبری میں ہے’’فاخْتَلَفَ ھُوَ وَعَلِیُّ ضَرْبَتَیْنِ فَضَرَبَہٗ عَلِیٌّ عَلٰی ھَامَتِہٖ حَتٰی عَضِّ السَّیْفُ مِنْھَابِاَضْرَاسِہٖ وَسَمِعَ اَھْلُ الْسَسْکَرِصَوْتَ ضَرْبَتِہٖ نَمَاتَتَائَ مَ اٰخِرُ النَّاسِ مَعَ عَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلَامُ حَتّٰی فَتَحَ اللّٰہُ لَہٗ وَلَھُمْ‘‘ مرحب اور حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آپس میں ایک دوسرے پر دو ضربوں کے وار کئے پھر حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اسکی کھوپڑی میں تلوار ماری حتی کہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تلوار خارا شگاف نے کھوپڑی سے لے کر اسکی ڈاڑھوں تک مرحب کو چیر کر رکھ دیا لشکر والوں نے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اس ضرب کی آواز سنی پچھلے لوگ ابھی حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم پر پہنچنے نہ پائے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور تمام مسلمانوں کیلئے خیبر کو فتح فرمادیا۔ (طبری ج ۲ جز۳ ص۹۳طبع بیروت) اور یہی طبری متوفی310ہجری اس کے ساتھ ایک اور روایت لائے ہیں۔’’فَبَدَرَہٗ عَلِیٌّ بِضَرْبۃٍ نَقَہَّ الْحَجَرَ وَالْمِغْفَرَ وَرَائْ سَہٗ حتیّٰ وَقَعَ فِی الْاَضْرَاسِ وَاَخَذَ الْمَدیْنۃَ‘‘ مرحب کو ضرب لگانے میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ نے جلدی کی تو پتھر اور لوہے کے خود اور اس کے سر کو کاٹ دیا۔ یہاں تک کہ وہ تلوار مرحب کی ڈاڑھوں تک پہنچ گئی۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اسی وقت خیبر کا شہر فتح کرلیا۔(طبری ج۲ جز۳ ص۹۴ طبع بیروت)

 

محب طبری پر غلط بیانی
٭ پھلواروی صاحب کی یہ کتنی بڑی علمی خیانت ہے کہ انہوں نے طبری کی ان دونوں روایتوں کو چھوڑ دیا اور محمد بن مسلمہ کے بارے میں جو ایک روایت طبری نے لکھی اسی کو طبری کا بیان قراردے دیا اور سارا زور قلم اسی پر لگا دیا کہ ’’مرحب کے قاتل صرف حضرت محمد بن مسلمہ ہیں مرحب کے قتل کا کوئی تعلق حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے نہیں۔ یہ چوتھی صدی ہجری کا اختراع ہے‘‘ حالانکہ وہی امام طبری متوفی310ہجری ہیں جن کا سہارا پھلواروی صاحب نے لیا وہی حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مرحب کا قاتل ظاہر کرنے کے دو روایتیں اپنی کتاب میں درج فرما رہے ہیں۔
٭ پھر انہوں نے صحیح مسلم کو بھی نظر انداز کردیا جس کے مؤلف کی وفات 261ہجری میں ہوئی اور انہوں نے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مرحب کو قتل کرنے کا واقعہ اپنی’’صحیح‘‘ میں روایت کیا ۔ جسے پھلواروی صاحب چوتھی صدی ہجری کا اختراع قرار دے رہے ہیں۔ فیا للعجب۔
٭ پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’طبری کے بیان کے مطابق مرحب کے قاتل محمد بن مسلمہ ہیں اور یہ صحیح بھی ہے‘‘ قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے طبری کا کوئی ایسا بیان موجود نہیں اگر طبری کی ایک روایت کو وہ انکا بیان سمجھتے ہیں تو اس کے خلاف دو روایتوں کو طبری کا ڈبل اور مکرر بیان سمجھنا چاہئے جن کے مطابق حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی مرحب کے قاتل ہیں میں عرض کروں گا صحیح بھی یہی ہے۔ پھلواروی صاحب نے اپنے دعوی صحت کی جو دلیل لکھی ہے وہ قطعاً غلط ہے وہ فرماتے ہیں کہ ’’کیونکہ ان کے بھائی محمود بن مسلمہ کو مرحب نے قتل کیا تھا لہذا محمد بن مسلمہ کی خواہش پر حضورﷺ نے انہی کو مرحب کا مقابلہ کرنے کیلئے بھیجا‘‘
٭ محض مرحب تو محمود بن مسلمہ کا قاتل نہیں۔ ان کو قتل کرنے والی پوری جماعت ہے جنہوں نے اپنے ایک قلعہ کی دیوار سے حضرت محمود بن مسلمہ پر چکی کا ایک بھاری پتھر گرایا اور وہ اس سے قتل ہوگئے۔(طبری جز۳ص۹۲۔ البدایہ والنہایہ ج۲ جز۴ص۱۹۲) اسی لئے کسی نے بھی مرحب کو ان کا قاتل نہیں لکھا بلکہ روایات میں ’’قَتَلُوْا‘‘کے الفاظ وارد ہوئے ہیں جو جمع کا صیغہ ہے یعنی یہود کی ایک جماعت نے حضرت محمود بن مسلمہ کو قتل کیا(البدایہ والنہایہ ج۲ جز۴ ص۱۸۹ ‘ طبری ج۲جز۳ص۹۲)
٭ غزوہ خیبر کے قصہ میں خیبر کے یہودی کنانہ کے متعلق طبری کی ایک روایت ہے’’ثُمَّ دَفَعَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلیٰ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ فَضَرَبَ عُنُقَہٗ بِاَخِہْہِ مَحْمُدْدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ‘‘ رسول اللہﷺ نے کنانہ کو محمد بن مسلمہ کے حوالے فرمادیا جسے انہوں نے اپنے بھائی محمود بن مسلمہ کے بدلے میں قتل کردیا۔(طبری ج ۲جز۳ ص۹۵ طبع بیروت)
٭ طبری کی اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ محمود بن مسلمہ کا قاتل کنانہ تھا جس سے واضح ہوگیا کہ مرحب کو محمود بن مسلمہ کا قاتل قراردینا صحیح نہیں ہے البتہ یہ ممکن ہے کہ یہود کی جس جماعت نے محمود بن مسلمہ پر قلعے کی دیوار سے پتھر گرایا جس سے وہ قتل ہوگئے مرحب بھی اس میں شامل ہو اور اس طرح وہ دونوں بھی محمود بن مسلمہ کے قاتل قرار پائے۔ کیونکہ کسی کے قتل میں جتنے آدمی شامل ہوں گے وہ سب اس کے قاتل قرار پائیں گے لیکن ان میں سے محض کسی ایک کو قاتل قرار دینا درست نہ ہوگا۔
٭ محمدبن مسلمہ کے مرحب کو قتل کرنے کی جس روایت کا سہارا پھلواروی صاحب نے لیا ہے وہ مرجوح ہے‘ جمہور محدثین اور علماء سیر کا قول یہی ہے کہ مرحب کے قاتل حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں وہ اسی کو صحیح کہتے ہیں۔
٭ محمد بن مسلمہ کے مرحب کے قاتل ہونے کا قول ضعیف ہے اسی لئے علماء نے اسے لفظ تیْلَ کے ساتھ بصیغہ تمریض نقل کیا ہے علامہ ابن اثیر نے فرمایا’’تِیْلَ اِنَّہٗ ھُوَ الَّذِیٰ قَتَلَ مَرْحَبَ الْیَھُوْدِیَّ وَالصَّحِیْحُ الَّذِیْ عَلَیْہِ اَکْثَرُ اَھْلِ السِّیَرِ وَالْحَدِیْثِ اَنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ قَتَلَ مَرْحَبَ‘‘(اسد الغابہ ج۴ص۳۳۱ طبع ایران)یعنی ایک (ضعیف) قول یہ ہے کہ مرحب کو محمد بن مسلمہ نے قتل کیا اور صحیح یہی ہے کہ مرحب کے قاتل حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔ اکثر اہل سیر وحدیث اسی کے قائل ہیں(انتہیٰ)
٭ حضرت علی کے مرحب کو قتل کرنے کی حدیث کی شرح میں علامہ نووی فرماتے ہیں کہ اصح یہی ہے کہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی مرحب کے قاتل ہیں اور ایک (ضعیف) قول یہ ہے کہ مرحب کے قاتل محمد بن مسلمہ ہیں۔ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب الدرر میں محمد بن اسحق کا یہ قول نقل کیا کہ مرحب کے قاتل محمد بن مسلمہ ہیں اسے نقل کرنے کے بعد ابن عبدالبر نے فرمایا کہ محمد بن اسحق کے علاوہ دوسروں کا قول یہ ہے کہ مرحب کے قاتل حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں اور ہمارے نزدیک صحیح بھی یہی ہے۔ پھر اپنی اسناد سے یہی بات انہوں نے سلمہ اور بریدہ سے روایت کی‘ علاوہ نووی فرماتے ہیں ابن اثیر کا قول یہ ہے کہ جمہور علمائے حدیث اور علمائے سیرت اسی مسلک پر ہیں کہ مرحب کو حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے قتل کیا۔انتہیٰ(ملحضاً) ۔(نوری شرح مسلم بھامش ارشاد الساری ج۷ص۴۷۲‘۴۷۳ طبع مصر)
٭ مخفی نہ رہے کہ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ واقدی نے ذکر کیا کہ محمد بن مسلمہ نے مرحب کے دونوں پائوں کاٹ دیئے شدت تکلیف کی حالت میں اس نے کہا کہ مجھے جلدی قتل کردے محمد بن مسلمہ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کروں گا کہ تجھے جلدی قتل کردوں اب تو موت کا مزہ اسی طرح چکھتا رہ جیسے محمود بن مسلمہ موت کا مزہ چکھتے رہے۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اس پر گذرے انہوں نے مرحب کا سر کاٹ دیا۔(البدایہ و النہایہ ج۲ جز۴ص۱۸۹)
٭ واقدی کا یہ قول اگرثابت ہو تو دونوں روایتوں میں تطبیق کا یہ پہلو نکل سکے گا کہ محمد بن مسلمہ اور حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ دونوں کو مرحب کا قاتل کہنا صحیح ہے جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ ایک شخص کے قتل میں جتنے آدمی شریک ہوں سب کو اس کا قاتل کہا جائے گا اگرچہ اصل قاتل ایک ہی ہو جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ محمد بن مسلمہ نے مرحب کے صرف پائوں کاٹے اور حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس کا سر کاٹ دیا اصل قاتل حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی رہے اگرچہ محمد بن مسلمہ کو بھی شریک قتل ہونے کی وجہ سے قاتل کہا جاسکتا ہے جیسا کہ مرحب اور کنانہ دونوں کو محمود بن مسلمہ کا قاتل کہنا صحیح ہوسکتا ہے مگر دوسرے سے قتل کی نفی کرکے محض ایک کو قاتل کہنا صحیح نہیں۔

تینتیسواں اعتراض اور اسکا جواب

استمداد کی شرعی حیثیت
٭ بیشک اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معین اور مددگار حقیقی سمجھنا شرک خالص ہے مگرکمال قرب الہی کے باعث اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو مظاہر عون الہی سمجھنا یقینا حق ہے قرآن و  حدیث میں یہ مضمون وارد ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ بخاری شریف کی ایک حدیث پیش کررہا ہوں۔ بصیرت و انصاف کی نظر سے غور کیاجائے تو آسانی سے بات سمجھ میں آسکتی ہے دیکھئے حدیث قدسی میں ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے میرے ولی سے عداوت کی میری طرف سے اسے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ میری کسی پسندیدہ چیز کے ذریعے میرا وہ قرب حاصل نہیں کرتا جو میرے فرائض کے ذریعہ حاصل کرتا ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کی سمع بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی بصر ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اسکا پائوں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اس کو ضرور دوں گا اور اگر وہ مجھ سے میری پناہ طلب کرے تو اسے میں ضرور اپنی پناہ دوں گا۔ الحدیث(بخاری ج ۲ ص ۹۶۳‘ مشکوۃص۱۹۷) بخاری شریف کی اس حدیث قدسی کے بعض دیگر طرق میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں’’وَفُوَادَہُ الَّذِیْ یَعْقِلُ بدٖ وَلِسَانَہُ الَّذِ یَ یَتْکَلّمُ بِہٖ‘‘ یعنی میں اسکا دل ہوجاتا ہوں جس سے وہ سمجھتا ہے اور اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔(اشعتہ اللمعات ج۲ص۱۹۴ طبع مجتبائی)
٭ امام رازی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کے ایک طریق روایت میں لِسَانَا اور قَلْبًا کے الفاظ نقل کئے ہیںﷺتفسیر کبیر ج۵ص۶۸۷ طبع مصر) اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ مقربان بارگاہ الوہیت کامظہر عون الہی ہونا درحقیقت ثابتہ ہے۔ اس حدیث کو صرف اس بات پر محمول کردینا کہ قرب نوافل حاصل کرنیوالے بندے کو جب اللہ تعالیٰ اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اس کا سننا‘ دیکھنا‘ کام کرنا‘ چلنا پھرنا‘ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے احکام شریعت کے مطابق ہوجاتا ہے یعنی مقرب بندہ اپنی آنکھ کان وغیرہ کسی عضو سے معصیت کا مرتکب نہیں ہوتا۔ ہرگز صحیح نہیں کیونکہ ’’کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا‘‘ کامقام اس بندے کو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونے کے بعد ملا ہے اور وہ محبوب اسی وقت ہوگا جب وہ گناہ چھوڑ دے گا اور اپنی آنکھ کان ہاتھ وغیرہ کو احکام شرعیہ کے تابع بنا دے گا اگر اس کے بغیر ہی وہ محبوب ہوجائے تو سب عاصی اور گنہگار اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوں گے پھر سوچئے کہ محبوبیت کے بعد کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا کا مقام اسے حاصل ہوا ہے اب اگر اسے بھی ہم گناہوں سے بچنے کے معنی پر محمول کردیں تو اس کی حیثیت رجعت قہقری سے زائد کیاہوگی؟ بلکہ اسے تحصیل حاصل کہنا پڑے گا جو صراحتًا باطل ہے اس لئے حدیث کو معنی سابق پر محمول کرنا صحیح نہیں بلکہ حدیث کے صحیح معنی یہی ہیں کہ بندہ مقرب اللہ تعالیٰ کی سمع و بصر و دیگر صفات کا مظہر ہوجاتا ہے جیسا کہ اسی حدیث کے پیش نظر امام فخری الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
وَکَذٰلِکَ الْعَبْدُ اِذَا وَاَظَّبَ عَلیَ الطَّاعَاتِ بَلَغَ اِلیٰ الْمَقَامِ الَّذِی یَقُوْلُ اللّٰہُ کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا وَّبَصَرًا فَاِذاصَارَنُوْرُجَلاَلِ اللّٰہِ سَمْعًالَہٗ سَمِعَ الْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَوَاِذَا صَارَ ذٰلِکَ النُّوْرُ بَصَرً الَّہٗ وَائَی الْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَ وَاِذَاصَارَ ذٰلِکَ النُّوْرُ یَدً الَّہٗ قَدَرَ عَلَی الَتَّصَرُّفِ فِی الصَّعْبِ وَالسَّھْھِل وَالْبَعِیْدِ وَالْقَرِیْبِ
ترجمہ٭ بندہ جب گناہوں سے بچ کرنیکی کے کاموں پر ہمیشگی اختیار کرتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی سمع اور اسکی بصر ہوجاتا ہوں توجب اللہ تعالیٰ کے جلال کا نور اس کی سمع ہوجائے تو وہ قریب اور دور کی بات سن لیتا ہے اور جب یہ نور اس کی بصر ہوجائے تو وہ قریب اور دور کی چیز کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہ نور اسکا ہاتھ ہوجائے تووہ قریب اور دور کی چیز کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہ نور اسکا ہاتھ ہوجائے تو وہ مشکل اور آسان اور دور اور قریب پر قادر ہوجاتا ہے۔(تفسیر کبیر للرازی ج۵ص۶۸۸‘۶۸۹ طبع مصر)
٭ جن لوگوں نے اس حدیث کو عقیدہ توحید کیخلاف سمجھا وہ غلطی پر ہیں کیونکہ حدیث میں یہ نہیں آیا کہ معاذ اللہ وہ ’’بندہ مقرب‘‘ اللہ ہوجاتا ہے یا اللہ بندے میں حلول کرلیتا ہے بلکہ حدیث کا واضح مفہوم یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ کمال قرب مظہر ہوجاتا ہے انسانیت کا کمال قرب الہی ہے قرآن و  حدیث اور شریعت اسلامیہ کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب ہوجائے اگر یہ کفر و شرک ہے تو اسلام ا ور توحید کا کیا مفہوم ہوگا؟ کمال انسانیت کے معیار کو کفر و شرک کہنا کتاب و سنت سے ناواقفیت اور روح اسلام سے بے گانگی کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو مقرب بندے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ اس کی دی ہوئی قدرت کے باوجود اذن الہی کے بغیر کوئی کام ان سے سرزد نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے ارادے اور مشیت کو بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت کے تابع کردیتے ہیں۔
٭ بظاہر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کچھ قدرت اور اختیار نہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت اور اختیار کے باوجود اس کی حکمت اور مشیت کے تابع رہتے ہیں۔رسول اللہﷺ اگر چاہتے تو سونے کے پہاڑ حضورﷺ کے ساتھ چلتے۔ حضورﷺنے فرمایا
یَاعَائِشۃُ لَوْشِئْتُ لَشیارَتُ مَعِیَ جِبَالُ الذَّھَبِ
ترجمہ٭ اے عائشہ! اگر میں چاہتا تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلتے۔(مشکوۃ ص۵۲۱)
٭ اور فقر و فاقہ کی کبھی نوبت نہ آتی لیکن حضورﷺ نے خود فقر کو اختیار فرمایا۔ بیشک تمام انبیاء و اولیاء علیہ السلام اور کل مخلوقات اللہ تعالیٰ کے محکوم اور مقدور ہیں۔ اس کے حکم اور قدرت سے کوئی باہر نہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ بہ نسبت خلائق مجبور محض ہوں بلکہ مظاہر عون الہی ہوکر اللہ تعالیٰ کے اذن سے وہ اپنی اور ہماری سب کی مدد کرتے اور کرسکتے ہیں۔ ان کا بعض اوقات ہماری مددنہ کرنا اس لئے نہیں کہ وہ ہماری مدد نہیں کرسکتے بلکہ وہ بتقاضائے کمال عبدیت اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف کچھ نہیں کرتے۔ دلائل اور تفصیل کا یہ موقع نہیں سمجھنے کیلئے اتنی بات پیش نظر رکھ لیں کہ بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرنے والا روزے دار جسے اللہ تعالیٰ نے سب نعمتیں عطا فرمائی ہیں روزے کی حالت میں کھانے پینے کی طاقت رکھتا ہے مگر رضائے الہی کے پیش نظر وہ ایسا نہیں کرتا نمازی نماز کی حالت میں لوگوں سے کلام کرسکتا ہے مگر بندگی کا تقاضا اسے روکتا ہے ایک طاقتور مظلوم ظالم سے انتقام لے سکتا ہے مگر کمال حلم اس کیلئے مانع ہے۔
٭ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مظہر عون الہی ہونے میں کوئی شک نہیں اگر وہ چاہتے تو باذن الہی اپنی مدد کرسکتے تھے مگر اپنے رب کی حکمت و رضا کے تحت انہوں نے صبر و تحمل سے کام لیا اور حکمت الہیہ کے مطابق عمل کرنا سنت الہیہ ہے غور فرمائیے اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے لوگ بہت سے کام اس کی مرضی کے خلاف کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں روک سکتا ہے مگر نہیں روکتا شیطان کی سرکشی دور کرنے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے مگر اپنی حکمتوں کی بنایٔ پر ایسا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے سنت الہیہ کا مظہر ہوتے ہیں اپنے اوپر ان کا قیاس کرکے انہیں اپنے جیسا سمجھنا نادانی اور نا انصافی ہے۔

کار پاکاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ ماند در نوشتن شیر و شیر

چونتیسواں اعتراض اور اسکا جواب

لِیْ خَمْسَۃٌ اُطْفِیْ بِھَا حَرَّالْوَبَائِ الْحَاطِمَہ اَلْمُصْطَفٰی وَالْمُرْتَضٰی وَابْنَا ھُمَا وَالْفَاطِمَۃُ
٭ اس کے بعد لِیْ خَمْسَۃٌ پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’معلوم نہیں کس بے علم نے یہ شعر بنایا ہے؟ ْ بِھَا کی ضمیر کا مرجع کون ہے؟ بھم ہوتا تو کچھ بات بھی بن جاتی پھر وَبَائِ مونث نہیں مگر یہاں اس کی صفتحَاطِمَہ لائی گئی ہے پھرفَاطِمَۃُپر الف لام نہیں آتا اور یہاں بے تکلف داخل کردیا گیا‘‘(ص۲۱)
٭ پھلواروی صاحب نے یہاں تین اعتراض کئے ہیں۔
(۱)٭ وہ فرماتے ہیں ’’بِھَا‘‘ کی ضمیر کو مرجع کون ہے؟ ’’بِھمْ‘‘ ہوتا تو کچھ بات بھی بن جاتی۔
٭ پھلواروی صاحب کی کم فہمی پر حیرت ہے وہ اتنا بھی نہ سمجھ سکے کہ ضمیر ’’بِھَا‘‘ کا مرجع لفظ خَمْسَۃٌ کے ضمن میں موجود ہے تقدیر عبارت ہے’’خَمْسَۃُ اَشْخَاصٍ‘‘ ایسی صورت میں جمع مذکر غائب اور بتاویل جماعت واحد مؤنث غائب بلکہ جمع مؤنث غائب کی ضمیر بھی لانا جائز ہے۔ تینوں استعمال احادیث سے ثابت ہے۔
نمبر۱٭ ثَلَا ثَۃٌ مَّنْ قَالَھُنَّ (مسند امام احمد ج۳ص۱۴ طبع بیروت)
نمبر۲٭ ثَلَاثَۃٌ یُحِبُّھَا اللّٰہُ (مجمع الزوائد جز دوم ج اول ص۱۰۵طبع بیروت)
نمبر۳٭ ثَلَاثَۃٌ کُلُّھُمْ ضَامِنٌ غَلیَ اللّٰہِ (ابودائود ج ۱ ص ۳۳۷ طبع اصح المطابع کراچی)
٭ پھلواروی صاحب کا ایک کے سوا باقی دو کی نفی کرنا ان کی لا علمی پر مبنی ہے۔
(۲)٭ فرماتے ہیں’’وَباء مؤنث نہیں مگر یہاں اس کی صفت حَاطِمَہ لائی گئی ہے‘‘
٭ پھلواروی صاحب کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ یہاں اَلْوَبَائِ کی صفت اَلْحَاطِمَۃ صرف رعایت قافیہ کی وجہ سے ہے جو رعایت سجع سے کم نہیں اور رعایت سجع میں یہ اختلاف کلام عرب اور حدیث میں وارد ہے۔
٭ حدیث ام زرع میں گیارہ عورتوں سے ایک عورت کا قول مروی ہے ’’وَاَرَحَ عَلَیَّ نِعَمًا ثَرِیًّا‘‘ شارحِ شمائل اس مقام پر ارقام فرماتے ہیں وَکَانَ الظَّاھِرُ اَنْ تِقُوْلَ ثَرِیَّۃً لَکِنَّھَا ارْتَکَبَتْ ذٰلِکَ لِاَجْلِ السَّجْعِ یعنی یہاں اسے ’’نِعَمًا ثَرِیَّۃً‘‘ کہنا چاہیئے تھا لیکن رعایت سجع کی وجہ سے اس نے ’’ثَرِیَّۃَ‘‘ کی بجائے مذکر کا لفظ ’’ثَرِیًّا‘‘ بول دیا(شرح شمائل ترمذی ص۱۹۴طبع مصر)
(۳)٭ فرماتے ہیں’’پھر فاطمہ پر الف لام نہیں آتا اور یہاں بے تکلف داخل کردیا‘‘
٭ پھلواروی صاحب کا مطلب یہ ہے کہ لفظ فاطمہ صفت کا صیغہ چونکہ علم ہے اس لئے اس پر الف لام داخل ہونے کو وہ ناجائز سمجھ رہے ہیں۔ یہ ان کی لا علمی اور کم فہمی ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ الف لام زائدہ ہے جس کا لفظ فاطمہ اور اس جیسے دیگر اعلام پر داخل ہونا اگرچہ ضروری نہیں مگر اس کا جائز ہونا بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔دیکھئے شرح ابن عقیل میں ہے
وَاَکْثَرُ مَاتَدْ خُلُ عَلیَ الْمَنْقُوْلِ مِنْ صِفَۃٍ کَقَوْلِکَ فِیْ حَارِثٍ
٭ ‘‘اَلْحَارِث‘‘ یعنی صفت کا صیغہ جب اسمیت کیطرف منقول ہو تو اکثر اس پر الف لام داخل ہوتا ہے جیسے لفظ حارث کو ’’الحارث‘‘ کہنا۔(ابن عقیل شرح ابن مالک ص۱۸۴ج۱ول طبع مصر)
٭ اورا لنحو الوافی میں ہے
اَلَ الزَّائِدَۃُ ھِیَ الَّتِیْ تَدْخُْلُ عَلیَ الْمَعْرِفَۃِ الْمَعُرِفَۃِ ’’اَلْمَاّْمُوْنٌ وَرَشِیْدِ مِنْ اَشْھَرِ خُلَفَائِ بَنِی الْعَبَّاس‘‘ فَالُکَلِمَاتُ مِّاْ مُوْنٌ وَ رَشِیْدٌ وَ عَبَّاسٌ مَعَارِفُ بِالْعَلْمِیَّۃِ قَبْلَ دُخُوْلِ اَلَ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیْھَالَمْ تُحْدِثْ تَغْیِیْرًا فِیْ تَعْرِیْفِھَا زلَمْ تُفِدْھَاتَعْرِیْفًا جَدِیْدًا
٭ یعنی الف لام زائد ہ جو معرفہ یا نکرہ پر داخل ہوتا ہے وہ اس کی تعریف یا تنکیر کو متغیر نہیں کرتا معرفہ پر اس کے داخل ہونے کی مثال اس جملے میں ہے ’’اَلْمَاّْمُوْنٌ وَرَشِیْدِ مِنْ اَشْھَرِ خُلَفَائِ بَنِی الْعَبَّاس‘‘مامون‘ رشید اور عباس تینوں نام الف لام داخل ہونے سے پہلے علمیت کے ساتھ معرفہ ہیں۔ الف لام نے ان پر داخل ہوکر ان کے علم معرفہ ہونے میں کوئی نئی بات پیدا نہیں کی نہ کسی تعریف جدید کا فائدہ دیا(النحوالوافی ج ۱ ص ۴۲۹ طبع مصر)
٭ علاوہ ازیں پھلواروی صاحب نے ضرورت شعری کے قانون کو بھی نظر اندازفرما دیا نحو کے جن قواعد کو وہ یقینی فرما رہے ہیں خود ان پر یقین نہیں رکھتے۔

پینتیسواں اعتراض اور اسکا جواب

صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ ضمیر مجرور پر بغیر اعادۂ جار عطف
٭ پھلواروی صاحب نے درود کے ان الفاظ پر بھی اعتراض کیا ہے۔ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق وہ فرماتے ہیں!چند دنوں سے اخباروں‘ رسالوں میں ‘ٹی وی اور ریڈیو میں اور بعض قدیم معتبر مذہبی کتابوں میں بڑی کثرت سے یہ درود لفظ ’’اٰلِہٖ‘‘کے ساتھ دہرایا جاتا ہے حالانکہ نحوی اعتبار سے یہ الفاظ صحیح نہیں۔ اصول یہ ہے کہ ضمیر مجرور پر جب اسم ظاہر کا عطف ہو تو اعادہ جار ضروری ہوتا ہے۔(ص۲۲)
٭ پھلواروی صاحب کی علمی بے مائیگی پر افسوس ہوتا ہے نحاۃ کا یہ قول تو انہوں نے دیکھ لیا کہ ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کا عطف اعادۂ جار کے بغیر نہیں ہوتا بیشک قرآن و حدیث اور کلام عرب میں اعادہ جار کی بیشمار مثالیں موجود ہیں پھلواروی صاحب نے بھی اس کی ایک دلیل نہیں کہ تمام نحاۃ کا اس پر اتفاق ہو اور کسی کے نزدیک بھی اعادہ جار کے بغیر ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کا عطف جائز نہ ہو۔ اکثر بصریین کا یہی مذہب ہے لیکن کوفین اسے جائز سمجھتے ہیں۔ ابن مالک بھی اس کے جواز کے قائل ہیں الفیہ میں ان کے دوشعر ملاحظہ فرمائیں۔
وَعَوْدَ خَافِضً لَڈٰی عَطْفِ عَلٰی
ضَمَیْرٍ خٍَْضٍ لَازِمًا قَدْ جُعِلاَ
وَلَیْسَ عِنْدِیْ لَا زِمًا اِذْقَدْ اَتٰی
فِی النَّثْرِ وَالنَّظْمِ الصَّحِیْحِ مُثْبَتَا
٭ شارح القیہ ابن عقیل نے ان دونوں شعروں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا! یعنی جمہور نحاۃ نے اس صورت میں اعادہ جار کو ضروری قرار دیا اور میرے نزدیک صورت مذکورہ میں جار کا اعادہ ضروری نہیں کیونکہ اعادہ جار کے بغیر یہ عطف نظم و نثر میں سماعًا وارد ہوا ہے۔(ابن عقیل فرماتے ہیں) نثرمیں اعادۂ جار کے بغیر یہ عطف حمزہ کی قرأت ’’تَسَائَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَ رْحَام‘‘(بجرالارحام) میں وارد ہے کیونکہ یہاں ’’الارحام‘‘ کا عطف ’’بِہٖ‘‘کی ضمیر مجرور پر اعادۂ جار کے بغیر ہوا ہے اور نظم میں یہ شعر ہے جسے سیبویہ نے پڑھا
فَالْیَوْمَ قَرَّبْتَ تَھْجُوْنَا وَتَشْتِمُنَا
فَاذْھَبْ فَمَابِکَ وَالْاَیَّامِ مِنْ عَجَبِ
ترجمہ٭ یعنی تو آج ہماری ہجو کرتا اور ہمیں گالیاں دیتا ہوا ہمارے پاس آیا ہے چلا جا تجھ پر اور ان ایام پر کوئی تعجب نہیں(ایسا ہوتا ہی رہتا ہے)
٭ اس شعر میں ’’بِکَ‘‘ کی ضمیر مجرور پر اعادۂ جار کے بغیر ’’الایام‘‘ کا عطف ہوا ہے(ابن عقیل ج ۲ ص۲۳۹ں۲۴۰ طبع بیروت)
٭ ثابت ہوا کہ نظم و نثر دونوں میں اعادۂ جار کے بغیر اسم ظاہر کا عطف ضمیر مجرور پر کلام عرب میں مسموع ہے مخفی نہ رہے کہ حمزہ کی قرأت‘ قرا ء ات سبعہ متواترہ میں سے ہے۔ جس کے غلط ہونے کا تصور بھی کوئی مسلمان نہیں کرسکتا۔قرآنی شہادت کے بعد اس کو غلط کہنا ایسی جسارت ہے جو کسی مسلمان کے شایان شان نہیں۔
٭ اس قراء ت حمزہ میں ’’الارحام‘‘ کا عطف ضمیر مجرور پر متعین ہے کسی تاویل کا یہاں احتمال نہیں۔ اس آیت کے تحت تفسیر مظہری میں ہے
وَقَرَئَ حَمْزَۃُ بَالْجَرِّ عَطْفًا عَلیَ الضَّمِیْرِ الْمَجْرُوْرِ وَۃٰذِہِ اِلْآ یَۃُ دَلِیْلٌ لِلْکُوْفِیِّیْنَ عَلٰی جَوَازِ الْعَطْفِ عَلیَ الضَّمِیْرِ الْمَجْرُوْ رِمِنْ غَیْرِ اِعَادَۃِ الْجَارِّ فَاِنَّ الْقِرَائَ ۃَ مُتَوَاتِرَۃٌ
٭ حمزہ نے ’’تساء لون بہ والارحام‘‘ میں ’’الارحام‘‘ کو جر کیساتھ پڑھا جس میں (اعادۂ جار کے بغیر) ضمیر مجرور پر عطف واقع ہوا ہے اور یہ آیت کوفیین کے اس قول کی دلیل ہے کہ ضمیر مجرور پر اعادۂ جار کے بغیر عطف جائز ہے۔ کیونکہ حمزہ کی قرأت متواترہ ہے۔(انتہیٰ) (تفسیر مظہری سورۃ النساء ج۲ص۴۳ طبع حیدرآباد دکن)
٭ اور تفسیر روح المعانی میں علامہ سید محمود آلوسی حنفی بغدادی فرماتے ہیں
اِخْتَارَ اَبُوْحَیَّانٍ عَطْفَہٗ عَلیَ الضَّمِیْرِ الْمَجْرُوْرِ وَاِنْ لَّمَ یُعَدِ الْجَارُّ وَاَجَازَ ذٰلِکَ الْکُوْفِیُّوْنَ وَیُوْنُسُ وَالْاَخْفَشُ وَاَبُوْ عَلِیٍّ وَھُوَ شَائِعٌ فِیْ لِسَانِ الْعَرَبِ نَظْمًا وَنَثْرًا
٭ ابو حیان (صاحب تفسیر البحر المحیط) کے نزدیک اعادۂ جار کے بغیر ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کا عطف مختار ہے اعادۂ جار کے بغیر یہ عطف کوفیین‘ یونس‘ اخفش اور ابو علی سب کے نزدیک جائز ہے اور اعادۂ جار کے بغیریہ عطف کلام عرب میں نظماً و نثراً شائع ہے۔(روح المعانی پ۲ ج۱ جز۲ص۱۰۹ طبع دیوبند)
٭ اس آیت کے علاوہ قرآن کی دیگر آیات مثلا ’’وَکُفرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ (البقرہ ۲۱۷) اور ’’قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْھِنَّ وَمَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ‘‘)النساء ۱۲۷)سے بھی اعادۂ جار کے بغیرضمیر مجرور پر اسم ظاہر کے عطف کے جواز پر استدلال کیاجاسکتا ہے اور کہاجاسکتا ہے کہ ’’وَالْمَسْجِدِ الْحَرَام‘‘ کا عطف اعادۂ جار کے بغیر’’ بہٖ‘‘کی ضمیر مجرور پر ہے اور ’’وَمَا یُتْلٰی‘‘ میں ’’مَا‘‘کا عطف ’’فِیْھِنَّ‘‘ کی ضمیر مجرور پر اعادۂ جار کے بغیر ہورہا ہے لیکن ہم نے بحث کی طوالت سے بچنے کے لئے اختصار کے ساتھ ان آیات کے محض ذکر پر اکتفاء کیا۔ اس عطف کے جواز میں ابو حیان کا طویل کلام تفسیر ’’البحر المحیط ج۲ ص۱۴۷‘۱۴۸ج۳ص۱۵۷‘۱۵۸‘۱۵۹ طبع بیروت) پر ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے علاوہ دیگر تفاسیر میں بھی ضمیر مجرور پر اعادۂ جار کے بغیر اسم ظاہر کے عطف کا جواز صراحت اور بسط کے ساتھ مرقوم ہے مثلاً تفسیر قرطبی ج ۳ جز۵ ص۴ں۵۔ تفسیر کبیرج۳پ۴ص۱۹۳۔ تفسیر الجلالین علی ہامش الصاوی ج۱ ص ۱۷۶۔ تفسیر الصاوی ج۱ ص ۱۷۶ وغیرہ۔
٭ قارئین کرام! غور فرمائیں کہ ہمارے دلائل کے سامنے پھلواروی صاحب کے قول کی کیا وقعت رہ گئی؟ اس تفصیل سے پھلواروی صاحب کے اس نظریے کے بطلان پر بھی مزید روشنی پڑ گئی کہ وہ قواعد نحویہ کو قطعی اور یقینی قرار دیتے ہیں۔ الحمدللہ ہم نے ثابت کر دیا کہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ ایسا درود ہے جسکی صحت میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ پھلواروی صاحب کا اسے غلط کہنا قطعاً غلط اور باطل محض ہے۔

چھتیسواں اعتراض اور اسکا جواب

مسلمان کا مختصر درود
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلَیْماً‘‘ اس کی تعمیل میں مسلمان پڑھتے ہیں۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اسی کا اختصار ’’صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ‘‘ہے۔(انتہیٰ)
٭ قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیں پھلواروی صاحب نے کس چابک دستی کیساتھ حضورﷺ کی آل کو درودسے خارج کردیا۔ میں عرض کروں گا کہ ارشاد باری کی تعمیل میں مسلمان حضور ﷺ کی آل کو درود سے خارج کرکے اسطرح نہیں پڑھتے جس طرح پھلواروی صاحب نے لکھا ہے بلکہ اَلّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍکے ساتھ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدً بھی ضرور پڑھتے ہیں۔ ارشادباری کی تعمیل میں حضورﷺ نے درود کے جو الفاظ امت کو تلقین فرمائے ان میں ’’عَلٰی آٰلِ مُحَمَّدً‘‘ کے الفاظ بھی شامل ہیں جیسا کہ متفق علیہ حدیث میں حضورﷺ کا یہ فرمان وارد ہے’’قُوْلُوْ اَلّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدً وَّ عَلٰی آٰلِ مُحَمَّدٍ‘‘ تم ’’ اَلّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آٰلِ مُحَمَّدٍ‘‘ کہا کرو(مشکوۃ ص۸۶ طبع رشیدیہ دہلی)
٭ اگر کسی روایت میں آلِ مُحَمَّدٍ کے الفاظ نہیں تو اس کی بجائے ڈُرِّیَّتِہٖ کے الفاظ موجود ہیں(بخاری ‘ مسلم‘ مشکوۃ ص۸۶) اور ابو دائود کی روایت میں تو ذُرِّیَّتِہٖ کے ساتھ اَھْلِ بَیْتِہٖ کے الفاظ بھی وارد ہیں(مشکوۃص۸۷)
٭ اس لئے مسلمانوں کے درود کا اختصار بقول پھلواروی صاحب’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ نہیں بلکہ اس کا اختصار’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔ نسخ مروجہ میں لفظ آل کا ساقط کرنا ناسخین کا تصرف ہے جو ہمارے نزدیک پسندیدہ نہیں۔ پھلواروی صاحب نے حضورﷺ کی آل کو درود سے خارج کرکے آل محمد ﷺ سے معاذ اللہ بیزاری اور اپنے قلبی عناد کا مظاہرہ کیا ہے۔ العیاذباللہ۔

سینتیسواں اعتراض اور اسکا جواب

رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ
٭ پھلواروی صاحب کا ایک عجیب استدلال ملاحظہ فرمائیے تحر یر فرماتے ہیں’’قرآن میں صحابہ کرام کیلئے آیا ہے لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اس سے واضح ہوا کہ صحابہ کرام کیلئے صرف رَضیَ اللّٰہُ کہنا اور لکھنا ضروری ہے(انتہی ٰکلامہٗ)
٭ میں عرض کرونگا کہ اس آیت کریمہ میں مومنین اصحاب شجرہ صحابہ کرام سے اللہ تعالیٰ کے راضی ہونیکا بیان ہے جو ان کی فضیلت کی دلیل قطعی ہے لیکن اس سے پھلواروی صاحب کا یہ قول کہاں ثابت ہوا کہ ’’صحابہ کیلئے صرف رَضِیَ اللّٰہُ کہنا اور لکھنا ضروری ہے‘‘
٭ یہاں دو باتیں قابل غور ہیں۔
۱٭ یہ کہ اس آیت کریمہ میں محض اصحاب شجرہ کا ذکر ہے پھر مطلقًا ہر صحابی کے حق میں ان کا یہ استدلال کیونکر صحیح ہوگا؟
۲٭ یہ کہ یہاں اصحاب شجرہ کی فضیلت بیان فرمانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے رَضِیَ اللّٰہُ فرمایا۔ ان کے ناموں کے ساتھ رَضِیَ اللّٰہُ کہنے اور لکھنے کا اس آیت میں کوئی حکم نہیں۔ ایسی صورت میں اسماء صحابہ کے ساتھ رِضِیَ اللّٰہُ کہنے یا لکھنے کے ضروری ہونے پر پھلواروی صاحب کا یہ استدلال کیسے درست ہوسکتا ہے؟
٭ صحابہ کرام کی خصوصی فضیلت عظمی کے پیش نظر ان کے اسماء گرامی کے ساتھ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ لکھنا تو ان علمائے کرام نے تحریر فرمایا ہے جو پھلواروی صاحب کی نظر میں کوئی خاص وقعت نہیں رکھتے ہم ان علماء کے مطابق بطور ادب و احترام حضرات صحابہ کرام کے اسماء گرامی کے ساتھ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ لکھتے ہیں اور اسے اپنے لئے باعث خیر و برکت و سعادت سمجھتے ہیں لیکن پھلواروی صاحب کا استدلال مذکور ہمارے نزدیک صحیح نہیں کیونکہ قرآن میں صرف اصحاب شجرہ کیلئے رَضِیَ اللّٰہُ کے الفاظ وارد نہیں ہوئے بلکہ صحابہ ہوں یا غیر صحابہ ان سب مومنین کے حق میں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے الفاظ قرآن میں وارد ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیُّۃِ‘‘(۳۰ البنیہ) پھر ان کے حق میں فرمایا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْنُ اس آیت میں اصحاب شجرہ ہونا تو درکنار صحابی ہونے کی بھی تخصیص نہیں بلکہ قیامت تک امت مسلمہ کے وہ تمام افراد جو مومنین کاملین اور صالحین ہیں سب اس میں شامل ہیں اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سب کے حق میں وارد ہے۔ اگر پھلواروی صاحب کا استدلال صحیح ہو تو ہر مومن صالح کے نام کے ساتھ رَضِیّ اللّٰہُ عنہ کہنا اور لکھنا ضروری قرار پائے گا جس کے پھلواروی صاحب خود بھی قائل نہیں معلوم ہوا کہ ان کا یہ عجیب و غریب استدلال ان کے اپنے لئے بھی قطعاً ناقابل التفات ہے۔

اڑتیسواں اعتراض اور اسکا جواب

لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں یہ حدیث جو حدیث قدسی بھی بتائی جاتی ہے جہاں روایتہ ناقابل اعتبار ہے اپنی زبان کے لحاظ سے بھی نادرتس ہے۔
٭ پھلواروی صاحب ناحق طعن کررہے ہیں آج تک اس روایت کی صحت پر کسی نے اصرار نہیں کیا بعض علماء نے تو اسے موضوع بھی کہا ہے لیکن یہ حکم سند روایت کے اعتبار سے ہے جو صحت معنی کی نفی کو مستلزم نہیں دیکھئے ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَ فْلَاکَ قَالَ الصَّنْعَانِیُّ اِنَّہٗ مَرْفُوْعٌ کَذَا فِیْالْخُلَا صَۃَ لٰکِنْ مَّعْنَاہُ صَحِیْحٖ فَقَدْ رَوَی الدَّیْلَمِیُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا مَرْفُوْعًا اَتَانِیْ جِبْرِیْلُ فَقَالَ یَامُحَمَّدُ لَوْلَاکَ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّۃَ وَلَوْلَاکَ مَا خَلَقْتُ النَّارَ وَ فِیْ رِوَایَۃِ ابْنِ عَسَاکِرَ لَوْلَاکَ مَا خَلَقْتُ الدُّنْیَا(موضوعات کبیر ص۵۹ طبع مجتبائی)
٭ پھلواروی صاحب کا اس حدیث کو زبان کے اعتبار سے نا درست کہنا ہمارے نزدیک درست نہیں دیکھئے کافیہ میں ’’لَوْلَاکَ وَعَسَاکَ اِلٰی اٰخِرِھِمَا‘‘ یعنی ’’لولاک‘‘ کلام عرب میں آیا ہےﷺص۵۳) اور مشکل اعراب الک میں ہے’’اَجَازَ سِیْبَوَیْہِ لَوْلَاکُمْ‘‘ یعنی ’’لَوْلَاکُمْ‘‘کی ترکیب کو سیبویہ نے جائز کہا ہے(ص۲۱۰ج۲ طبع ایران)
٭ ثابت ہوا کہ یہ ترکیب اہل عرب سے مسموع ہے اور درست ہے۔پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’لَوْلَا‘‘ کے بعد خواہ اسم ظاہر آئے یا اسم ضمیرآئے وہ بہرحال مرفوع ہوگا۔
٭ میں عرض کروں گا کہ ’’لَوْلَا‘‘ کے بعد ضمیر مرفوع یا اسم مرفوع کے جائز اور مستعمل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں قرآن و حدیث اور محاورات عرب میں یہ استعمالات بکثرت وارد ہیں جسکی ایک دو مثالیں پھلواروی صاحب نے بھی لکھی ہیں لیکن ان مثالوں سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ لَوْلَاکَ کی ترکیب نا درست ہے اور وہ اہل عرب سے مسموع نہیں جبکہ ہم بھی اسکے ثبوت میں عبارتیں نقل کرچکے ہیں۔
٭ پھلواروی صاحب اہل لغت کے حوالے سے فرماتے ہیں ’’لَوْلَاہُ یا لَوْلَاکَ یا لَوْلَایَ بہت ہی کم سنا گیا ہے‘‘پھر فرماتے ہیں ’’ایسی شاذ اور غیر فصیح زبان ہرگز اس پیغمبر ﷺ کی زبان سے ادا نہیں ہوسکتی جو افصح العرب و العجم ہے‘‘
٭ رہا یہ امر کہ پھلواروی صاحب قلت سماع کی وجہ سے اسے غیر فصیح قرار دے کر فرما رہے ہیں کہ ’’ایسی شاذ اور غیر فصیح زبان ہرگز اس پیغمبر ﷺ کی زبان سے ادا نہیں ہوسکتی جو افصح العرب و العجم ہے‘‘ انتہائی حیرت انگیز‘ تعجب خیز بلکہ بیحد افسوسناک ہے اگر کسی ترکیب کا قلیل الاستعمال ہونا اس کی فصاحت کے خلاف ہوتو وَمَا اَنْسٰنِیْہُ اور بِمَا عٰھَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ میں دونوں ترکیبیں غیر فصیح قرار پائیں گی کیونکہ اس قسم کی ترکیب میں ضمیر کا ضمہ ان آیتوں کے سوا قرآن میں کہیں استعمال نہیں ہوا نہ کسی حدیث میں اس کی مثال ملتی ہے نہ کبھی اہل عرب نے ایسی ضمیر میں ضمہ استعمال کیا۔ کیا پھلواروی صاحب یہاں بھی کہیں گے کہ ایسی شاذ اور غیر فصیح زبان ہرگز اس قرآن میں نہیں ہوسکتی جو اپنی فصاحت و بلاغت میں ایسا بے مثل ہے جس کی مثل ممکن ہی نہیں۔
٭ علاوہ ازیں بہت ہی قلیل الاستعمال ترکیب کی بعض مثالیں حدیث میں بھی پائی جاتی ہیں مثلا ایک حدیث میں آیا ہے’’اَنْتَ اَبَاجَہْلٍ‘‘ (صحیح بخاری ج ۵ص۹۵ طبع بیروت)
٭ کون نہیں جانتا کہ اسمایٔ ستہ مکبرہ مفردہ جب غیر یائے متکلم کی طرف مضاف ہوں تو ان کا اعراب حالت رفعی میں واو‘ حالت نصبی میں الف اور حالت جری میں یا کے ساتھ ہوتا ہے قرآن و حدیث اور لغت عرب میں استعمال کثیر یہی ہے اس کے مطابق حدیث میں ’’اَنْتَ اَبُوْجَہْلٍ‘‘ ہونا چاہئے تھا مگر مستملی کے علاوہ بخاری کے تمام نسخوں میں ’’اَنْتَ اَبَا جَھْلٍ‘‘ مروی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے تحت فرمایا قولہٗ’’اَنْتَ اَبَاجَہْلٍ کَذَا لِلْاَ کْثَرِ وَلِلْمُسْتَمِلِّی وَحْدَہٗ اَنْتَ اَبُوْجَھْلٍ وَالْاَ وَّلُ ھُوَ الْمُعْتَمَدُ‘‘ یعنی صرف مستملی کے نسخے میں ابوجہل ہے۔ اس کے علاوہ بخاری کے سب نسخوں میں ’’اَنْتَ اَبَاجَہْلٍ‘‘ روایت کیاگیا ہے اور یہی معتمد ہے(فتح الباری ج ۷ص۲۳۵ طبع مصر) اور ظاہر ہے کہ یہ استعمال قلیل ہے اس کی ایک مثال امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے قول ’’وَلَوْرَمَاہُ بِاَبَاقُبَیْسٍ‘‘ میں بھی پائی جاتی ہے ۔ اگر قلت استعمال کو کسی ترکیب کے عدم جواز اور اسکے غیر فصیح ہونے کی دلیل مان لیاجائے تو حدیث کی یہ ترکیب بھی ناجائز اور غیر فصیح ہوگی اور امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ کلام بھی غلط اور غیر فصیح قرارپائے گا اور یہ صراحتاً باطل ہے۔
٭ بحمداللہ روز روشن کیطرح واضح ہوگیا کہ پھلواروی صاحب کا طعن محض بیجا ہے اور صرف قلت استعمال کیوجہ سے کسی ترکیب کو نادرست اور غیر فصیح قرار دینا علم و دانش کی روشنی میں ہرگز درست نہیں۔ حدیث لَوْلَاکَ کے معنی بالکل صحیح ہیں اور اسکی صحت ترکیب قطعاً بے غبار ہے۔

انتالیسواں اعتراض اور اسکا جواب

’’فِی الدَیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ‘‘۔’’فِیْدِیْنِنَا وَدُنْیَانَا‘‘
٭ پھلواروی صاحب نے دلائل الخیرات سے حسب ذیل دعا نقل کی’’اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الْدِّدْنِ وَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ‘‘ حزب البحر سے بھی’’فِیْ دِیْنَنَاوَدُنْیَانَا‘‘ کے الفاظ نقل کئے۔ دعا کے ان الفاظ کو ترک دینا اور رہبانیت پر محمول کیا۔ دلائل الخیرات کے مؤلف یا ناقل کو نا عاقال قراردیا اور ان اکابرامت کے خلاف خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور اس دعا پر اعتراض کرتے ہوئے کہا’’دنیا کے مقابلے میں آخرت ہے یعنی اس جہاں کی زندگی اور آنیوالے جہاں کی زندگی رہا دین تو وہ دنیا کے مقابلے میں یا دنیا سے الگ کوئی شے نہیں یہ آخرت کے مقابلے میں بھی کوئی چیز نہیں۔ اسی موجودہ زندگی میں اور دنیا ہی کے اندر ہوتا ہے یہی دنیاوی زندگی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے’’دین‘‘ دنیا سے ہٹ کر یا دنیا کو چھوڑ کر زندگی بسر کرنا کوئی دین نہیں‘‘(انتہیٰ)
٭ میں عرض کروں گا دلائل الخیرات یا حزب البحر میں دین اور دنیا کا لفظ تو ضرور آیا ہے لیکن یہ کہیں نہیں آیا کہ دنیا سے ہٹ کر یا دنیا کو چھوڑ کر زندگی بسر کرنا دین ہے۔ نہ دلائل الخیرات اور حزب البحر میں یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کی زندگی بسر کرنا دین نہیں۔
٭ رضائے الہی کے مطابق دنیاوی زندگی بسر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنی دنیا کی ہر چیز رضائے الہی کے تابع کردیں دنیا تابع ہو اور رضاء الہی متبوع تابع متبوع کا ہمیشہ غیر ہوتا ہے۔ اگر دین و دنیا میں کوئی مغائرت ہی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا مفہوم ہی نہیں رہتا ہمیں جس چیز کو رضاء الہی کے تابع کرنا ہے وہی دنیا ہے اور رضاء الہی کے تابع کرنا دین ہے اور اپنے تشخص میں یہ دونوں چیزیں جداگانہ حیثیت رکھتی ہیں خلاصہ یہ کہ ہمارا مال اور اور ہماری اولاد دنیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اَلْمَالُ وَالَبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘‘(پ۵۱ الکہف ۴۶) اور اپنے مال کو رضایٔ الہی کے مطابق خرچ کرنا اور رضاء الہی کے مطابق اولاد کی پرورش کرنا دین ہے۔ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ ہم اپنی دنیا یعنی مال و اولاد کے حق میں تجھ سے عفو و عافیت کے طالب ہیں کہ وہ ہلاک ہونے سے محفوظ رہیں اور جب تیری رضا کے مطابق ہم اپنا مال خرچ کریں اور اپنی اولاد کی تربیت کریں تو ہماری یہ نیکی بھی ضائع نہ ہونے پائے تاکہ آخرت میں ہم اس کے ثواب سے محروم نہ ہوجائیں۔ یہ مفہوم ہے’’فِیْ دِیْنَنِا وَدُنْیانَا‘‘ اور’’فِی الدِّ دْنِ وَالدُّنُیَا وَالْاٰخِرَۃِ کا۔
٭ بتائیے اس میں کون سی غلطی ہے؟ اسے غلطی کہنا دلائل الخیرات اور حزب البحر اور ان کا ورد کرنے والے صلحاء امت کے خلاف عناد ظاہر کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔

چالیسواں اعتراض اور اسکا جواب

صلوۃ معکوس
٭ اسی ضمن میں پھلواروی نے رہبانیت کا ذکر کرتے ہوئے درپردہ حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا بھی مذاق اڑایا ہے وہ لکھتے ہیں ’’جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ فلاں بزرگ بارہ سال تک الٹے لٹکے رہے اور صلوۃ معکوس ادا کرتے رہے۔ استغفراللہ۔ اس قسم کی رہبانہ زندگی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں یہ سب بزرگوں پر اتہام ہے اور اگر فی الواقع کسی نے ایسا کیا ہے تو اس نے صحیح کام نہیں کیا۔ وہ طہارت و وضو کیسے کرتا رہا۔ نماز کس طرح ادا کرتا رہا۔ جماعت میں کیونکر شریک ہوتا رہا بال بچوں یا پڑوسیوں کا کیا حق ادا کرتا رہا‘‘(ص۲۴)
٭ معلوم نہیں پھلواروی صاحب نے بارہ سال تک صلوۃ معکوس پڑھنے کا قصہ کہاں سے سن لیا واقعہ یہ ہے کہ حضرت بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے محض بطور ریاضت‘ اصلاح نفس کیلئے صرف چالیس رات‘ عشاء کے بعد سے صبح یعنی تہجد تک چند گھنٹوں کیلئے کنواں میں الٹا لٹکنے کی مشقت اختیار فرمائی(اخبار الاخیار فارسی ص۵۳ طبع مجتبائی۔ از شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی) جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ نفس کی سرکشی دور ہو اور وہ رضائے الہی کی خاطر مشقت و تکلیف برداشت کرنے کا عادی ہوجائے۔ اس موقع پر پھلواروی صاحب نے طہارت‘ وضو‘ نماز‘ جماعت‘ ادائیگی حقوق وغیرہ کا ذکر کے جو شکوک و شبہات وارد کئے ہیں سب بے محل اور لایعنی ہیں کیونکہ چند گھنٹے کی اس ریاضت کے دوران نہ کسی نماز کا وقت آتا تھا نہ رفع حاجت کی ضروریات پیش آنے کا کوئی موقع ہوتاتھا ظاہر ہے کہ جس کام میں رضائے الہی کے حضول کا مقصد شامل ہووہ توجہ الی اللہ سے خالی نہیں ہوسکتا۔
٭ مومن کی نماز خشوع و خضوع اور توجہ الی اللہ پر مشتمل ہوتی ہے اس مناسبت سے اس ریاضت کو اگر کسی نے ’’صلوۃ معکوس‘‘ سے تعبیر کردیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا یہ عمل ارکان صلوۃ پر مشتمل تھا بلکہ خشوع و خضوع اور خشیت الہیہ کی بنا پر اسے صلوۃ معکوس کہہ دیاگیا۔ یہ عمل کوئی عبادت مقصودہ نہ تھا جسکی بنا پر احداث فی الدین کا الزام حضرت بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ پر عائد کیاجاسکے۔ بلکہ ایک روحانی علاج تھا معالجین بطور علاج مریضوں کو اس قسم کی ورزش بتاتے ہیں کہ کچھ دیر پائوں اوپر اٹھائے رکھیں بتقاضائے کمال عبدیت مشقت برداشت کرنا خود حضورﷺ کا فعل مبارک ہے۔ رات کو کھڑے کھڑے حضورﷺ کے پائوں مبارک متورم ہوجاتے تھے۔(بخاری ۱ص ۱۵۲)
٭ رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت ابولبابہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ایک غلطی سرزد ہوگئی تھی جس کا ازالہ صرف توبہ اور استغفار سے بھی ہوسکتا تھا مگر حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے اپنے نفس کی علطی کی سزا دینے کیلئے اپنے آپ کو زنجیر کے ساتھ ستون سے باند دیا ساتھ ہی یہ قسم بھی کھالی کہ میں نہ کچھ کھائوں گا نہ کچھ پیئوں گا تاوقتیکہ میری غلطی معاف نہ ہوجائے چنانچہ زنجیر کے ساتھ وہ مسلسل سات دن تک بندھے رہے پیشاب وغیرہ اور نماز کیلئے ان کی بیٹی ان کی زنجیر کھول دیتی تھی۔ فراغت کے بعد وہ پھر بدستور اپنے آپ کو زنجیر کے ساتھ ستون سے باندھ دیتے تھے سات دن تک نہ انہوں نے کچھ کھایا نہ پیا یہاں تک کہ جب انہیں نماز کیلئے کھولا گیا تو بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ۔ ان سے کہا گیا کہ آپ کی توبہ قبول ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا للہ کی قسم میں خود اپنے آپ کو نہ کھولوں گا جب تک حضورﷺ تشریف لاکر مجھے نہ کھولیں حضورﷺ تشریف لائے اور انہیں اپنے دست مبارک سے کھولا(اسدالغابتہ فی معرفتہ الصحابہ ج ۵ص۲۸۴ں۲۸۵ طبع تہران) مگر ان کے مسلسل بندھے رہنے اور طویل مشقت پر رسول اللہ ﷺ نے ان پر انکار نہ فرمایا ثابت ہوا کہ اصلاح نفس کیلئے بطور علاج اس قسم کی مشقت اٹھانا اور تکلیف جھیلنا بلا شبہ جائز ہے۔
٭ قارئین پر واضح ہوگیا ہوگا کہ بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا یہ چلا معکوس شرعاً و عقلاً بے غبار ہے اور پھلواروی نے اس پر جو شکوک و شبہات وارد کئے ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں۔

خرق عادت یا غرق عادت
٭ یہ وہ عنوان ہے جس پر پھلواروی صاحب نے اپنے اس مضمون کا اختتام فرمایا ہے اللہ والوں کے خلاف وظائف و اعمال کے بہانے زہرافشانی میں انہوں نے پہلے ہی کوئی کمی نہ چھوڑی تھی لیکن اس عنوان کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کا سینہ عداوت اولیاء کا گنجینہ ہے معجزات و کرامات اور اہل اللہ کے خوارق عادات کی توہین تضحیک میں انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی خوارق انبیاء‘ اولیاء کرام کا ذکر کتاب و سنت میں اس کثرت اور وضاحت کیساتھ وارد ہے کہ کوئی ادنی مسلمان بھی اس میں متردد نہیں ہوسکتا معجزہ صدق نبوت کی دلیل ہے اور کرامت ولی کی بزرگی کا نشان جس کی نظر میں نبی‘ ولی کی وقعت نہ ہو اس کے نزدیک معجزہ اور کرامت کی کیا وقعت ہوسکتی ہے؟
٭ بیشک معجزہ فضیلت ہے لیکن نبی کی افضلیت کا معیار نہیں۔ اسیطرح کرامت بھی بزرگی ہے مگر بزرگی کا مدار نہیں معجزہ کا صدور غیر نبی سے نہیں ہوسکتا ۔ کرامت کا ظہور بھی صرف ولی سے ہوتا ہے۔ اسلئے معجزہ ہو یا کرامت مسلمان دونوں کی حرمت و عظمت کا قائل ہے۔
٭ حضرات انبیائے کرام اور اولیاء عظام کے خوارق عادات کو ان کی حرمت و فضیلت کے معنی سے خالی سمجھنا مسلمان کی فہم نہیں لفظ کرامت کے معنی ہی بزرگی ہیں۔ پھر اسے بزرگی سے غیر متعلق سمجھنا کیوں کر صحیح ہوگا؟

اکتالیسواں اعتراض اور اسکا جواب

کرامت کو قے کہنے کا مطلب
٭ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ کسی بزرگ نے کرامت کو قے کہا ہے تویہ قول محض بطور استعارہ ہوگا یعنی اظہار کرامت اسطرح مکروہ اور ناپسندیدہ ہے جس طرح قے ناپسندیدہ اور مکروہ ہے پھلواروی صاحب کا کرامت کو حقیقتاً قے سمجھنا ایسا ہی جیسے کسی بہادر انسان کو دیکھنے والا رَاَّیْتُ اَسَدًا کہے اور سننے والا اسد کے معنی درندہ سمجھ لے اسمیں شک نہیں کہ اہل اللہ نے اظہار کرامت کو ہمیشہ ناپسند کیا ہے۔

بیالیسواں اعتراض اور اسکا جواب

سادھو سے کرامت کا ظہور
٭ کرامت صرف ولی سے ظاہر ہوتی ہے پھلواروی صاحب کرامات اولیاء کے منکر ہونے کے باوجود سادھو سے بھی ظہور کرامت کے قائل ہیں جیسا کہ انہوں نے فرمایا’’ کرامت کی وساطت سے جو ارادت ایمانی پیدا ہوتی ہے وہ مستحکم نہیں ہوتی آج اگر ایک مسلمان بزرگ کی دو کرامتیں دیکھ کر کوئی معتقد ہوگا تو کل وہی کسی سادھو کی چار کرامتیں دیکھ کر اس کا دم بھرنے لگے گا‘‘(ص۳۰) کرامتیں اگر سادھو سے بھی ظاہر ہوسکتی ہیں تو پھر ان کے کرامت ہونے کا کیا مفہوم رہا؟ دراصل پھلواروی صاحب یہی کہنا چاہتے ہیں کہ کرامت لغو اور بے معنی ہے۔

تینتالیسواں اعتراض اور اسکا جواب

حضرت یحییٰ منیری کے قول کی وضاحت
٭ پھلواروی صاحب لکھتے ہیں’’دنیا کرامات کی پجاری ہے مگر خود مخدوم الملک کرامت کو بت پرستی قرار دیتے ہیں جی ہاں صاف لفظوں میں بت پرستی فرماتے ہیں وہ کرامات کو انسانی سطح سے بہت گری ہوئی اور گھٹیا چیز قرار دیتے ہیں۔ مخدوم الملک کی ایک مسجع عبارت سنیئے فرماتے ہیں۔ اگر برآب روی خسی وگربرہوا پری مگسی آں کربکن کہ گویند کسی‘‘ (ص۲۸) انتہیٰ
٭ سلف صالحین سے لے کر آج تک کتاب و سنت کے مطابق یہی عقیدہ ہے کہ اولیاء کی کرامتیں حق ہیں۔ اس اعتقاد کو کرامت کی پوجا کہنا پوری امت مسلمہ کو مشرک قرار دینے کے مترادف ہے العیاذباللہ‘ مخدوم الملک حضرت احمد یحییٰ منیری کا مسجع کلام جو پھلواروی صاحب نے نقل کیا ہے اس کے کسی ایک لفظ کا بھی یہ مفہوم نہیں کہ کرامت بت پرستی ہے وہ تو صرف اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ خوارق عادات کا ظہور مثلاً پانی پر چلنا یا ہوا میں اڑنا سالک راہ معرفت کیلئے منتہائے کمال نہیں یہ تو ایسی باتیں ہیں جو تنکے اور مکھی میں بھی پائی جاتی ہیں۔ انسانیت کا کمال تو یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے قرب و معرفت کا وہ مقام حاصل کرے جسے وصول اِلے اللہ سے تعبیر کیاجاتا ہے۔


غرق عادت کی اصطلاح
٭ خرق عادت کی اصطلاح تو متقدمین اسلاف کرام سے منقول ہوتی چلی آرہی ہے لیکن غرق عادت کا لفظ کبھی سننے میں نہیں آیا۔ یہ صرف پھلواروی صاحب کی اختراع ہے ہمیں اس سے بحث نہیں کہ خرق عادت کے مقابلے میں غرق عادت کا لفظ انہوں نے کیوں بولا لیکن ہم اب تک یہ نہ سمجھ سکے کہ اس لفظ سے ان کی کیا مراد ہے؟ اگر امور عادیہ مراد ہیں تو غرق عادت سے ان کا کیا تعلق ایسی صورت میں وہ عادت اور خرق عادت بولتے غرق عادت کا لفظ تو اس مقام پر قطعاً بے معنی اور مہمل ہے۔


معجزہ و کرامت اسباب سے متعلق نہیں ہوتے
٭ ہم نے مانا کہ اسباب عادیہ ظاہرہ کے علاوہ اسباب خفیہ بھی ہوتے ہیں لیکن محقیقین سلف صالحین کا مسلک یہی ہے کہ خوارق انبیاء و اولیاء کرام یعنی معجزات و کرامات جس طرح اسباب عادیہ ظاہرہ سے متعلق نہیں ہوتے بالکل اسی طرح ان کا تعلق اسباب خفیہ سے بھی نہیں ہوتا بلکہ ہر قسم کے اسباب کے بغیر اللہ تعالیٰ انہیں ظاہر فرماتا ہے اور یہی خرق عادت ہے۔

چونتالیسواں اعتراض اور اسکا جواب

خر ق عادت کو ناممکن کہنا
٭ اہل اللہ کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’خرق عادت ممکن ہی نہیں‘ قانون قدرت اٹل ہوتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی‘‘لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ۔ وَلَنْتَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً‘‘ (انتہیٰ کلامُہٗ)
٭ پھلواروی صاحب نے اس حقیقت کو بھی نہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا خارق عادت فعل جو نبی کی تصدیق کیلئے نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوا معجزہ کہلاتا ہے(دیکھئے شرح مواقف ج۸ص۲۲۳ں۲۲۴ طبع مصر) ولی کی کرامت بھی اس کے نبی کا معجزہ ہوتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے جوخرق عادت کے طورپر ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے۔ اسی لئے اسے کرامت کہاجاتا ہے۔ دونوں خارق عادت فعل اللہ تعالیٰ کے ہیں پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’خرق عادت ممکن ہی نہیں‘‘ معجزات و کرامات کی نفی صریح ہے صرف یہی نہیں بلکہ یہاں انتہائی افسوس ناک اور غارت گرایماں پہلو یہ ہے کہ خرق عادت کو ناممکن کہہ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بھی انکار کردیا گیا۔ بندے کے کسی فعل کو ناممکن کہہ سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فعل واقعی کو ناممکن کہنا بندے کیلئے ممکن نہیں کیونکہ وہ خرق عادت کام اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔
٭ قانون قدرت یقیناً اٹل ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی لیکن کس کی طرف سے؟ ہمارا ایمان ہے کہ بندوں کی طرف سے تبدیلی ناممکن ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے قانون کو بتقاضائے حکمت بدل سکتا ہے وہ قانون عام ہویا خاص کیونکہ قانون بنانے والا اپنے قانون کو بدلنے کا حق رکھتا ہے۔

پینتالیسواں اعتراض اور اس کا جواب

قدرت خداوندی کا انکار
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’انسان نئے نئے قوانین دریافت تو کرتا ہے بناتا نہیں اور جب بناتا نہیں تو توڑ بھی نہیں سکتا‘‘ انتہیٰ کلامہٗ۔ میں عرض کروں گا کہ اہل اللہ کے خوارق عادات کے ضمن میں ان کی یہ بات بالکل بے محل ہے قوانین فطرت اہل اللہ نے نہ بنائے ہیں نہ انہیں کبھی توڑا ہے نہ وہ توڑ سکتے ہیں ان کا بنانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور جس چیز کو وہ بنا سکتا ہے اسے توڑ بھی سکتا ہے۔ یہی خرق عادت ہے ۔ جسے پھلواروی صاحب ناممکن کہہ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کررہے ہیں۔

چھیالیسواں اعتراض اور اسکا جواب

معجزات و کرامات کو نظربندی کہنا
٭ معجزات و کرامات کے ضمن میں پھلواروی صاحب کا اسباب خفیہ کا ذکر کرکے بازی گر‘ جادوگر‘ ہپناٹزم کے تماشوں کا ذکر کرنا محض یہ تاثر دینے کیلئے ہے کہ اہل اللہ کے خوارق عادات معجزات و کرامات سب اسی نوعیت کے ہیں حالانکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ وہ سب افعال الہیہ ہیں۔ ان کا ظہور من جانب اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جادو اور بازی گری سے ان کا کیا تعلق؟
٭ پھلواروی صاحب کی یہ تحریر دراصل ان کے اسی بعض و عناد کا اظہار ہے جس کا مظاہرہ وہ ابتداء سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

سینتالیسواں اعتراض اور اسکا جواب

کرامت کو لااکراہ فی الدین کے منافی کہنا
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’کرامت یا خرق عادت ایک قسم کا دبائو ہے جسے دیکھ کر انسان ڈر سا جاتا ہے اور بات ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہ کسی تک لا اکراہ فی الدین کے منافی ہے’’انتہی کلامہٗ
٭ اس عبارت سے پھلواروی صاحب کا مافی الضمیر کھل کر سامنے آگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں اور خوارق انبیاء و اولیاء کرام کو ایک قسم کا دبائو قرار دے رہے ہیں جسے دیکھ کر انسان ڈر سا جاتا ہے اور بات ماننے پر مجبور سا ہوجاتا ہے۔
٭ جن آیات قدرت کو دیکھ کر انسان کو خوف لاحق ہو پھلواروی صاحب انہیں لا اکراہ فی الدین کے منافی سمجھتے ہیں حالانکہ سنت الہیہ یہی ہے کہ معجزات و خوارق عادات کے ذریعے لوگوں کو ڈرایا جائے قرآن کی جو آیت پھلواروی صاحب کے ذہن کو جھنجوڑ رہی ہے اس کے آخری الفاظ میں ارشاد فرمایا وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیَاتِ اِلَّا تَخُوِیْفًا(پ۱۵ الاسراء آیت نمبر۵۹)یعنی ہم نشانیاں اسی لئے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں۔
٭ اگر یہ لااکراہ فی الدین کے خلاف ہے تو کیا پھلواروی صاحب کے نزدیک ک میں تعارض بھی پایاجاتا ہے؟ خوارق عادت سے لوگوں کا ڈر محسوس کرنا لااکراہ فی الدین کے منافی ہوتا تو انبیاء علیہ السلام صرف مبشر ہوتے مُنْذِرْ و نَذِیْر کبھی نہ ہوتے۔ پھلواروی صاحب جو سنت الہیہ کی آڑ لے کرخوارق عادت کے منکر ہیں کاش اس حقیقت پر غور فرماتے کہ آیات و معجزات کے ذریعے لوگوں کو ڈرانا سنت الہیہ ہے۔
٭ جیسا کہ ہم نے ابھی آیت قرآنیہ سے ثابت کیا۔ نبوت ختم ہونے کیساتھ معجزات کا سلسلہ تو ختم ہوگیا لیکن اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے ساتھ لوگوں کو ڈرانے کا سلسلہ اب تک جاری ہے بلکہ قیامت تک جاری رہے گا حدیث شریف میں وارد ہے کہ ایک مرتبہ سورج گرہن کے موقع پر رسولﷺ نے کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا
ھٰذِہِ الْاٰیَاتُ الَّتِیْ یُرْسِلُ اللّٰہُ لَا تَکُوْنُ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیٰوتِہٖ وَلٰکنْ یُّخَوِّفُ اللّٰہُ بِھَا عِبَادَہ (بخاری‘ مسلم‘ مشکوۃ ص۱۳۰طبع دہلی)
ترجمہ٭ یہ قدرت کی نشانیاں جنہیں اللہ بھیجتا ہے کسی کی موت یا پیدائش کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ اللہ انکے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔
٭ قارئین کرام! غور فرمائیں قرآن و حدیث کی روشنی میں پھلواروی صاحب کی یہ بات باطل محض نہیں تو کیا ہے؟

اڑتالیسواں اعتراض اور اس کا جواب

کھلی تضاد بیانی
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’خاتم النبیین ﷺ کاکمال یہ ہے کہ قانون قدرت کو توڑ کر کرامت پیدا کرنے کا سلسلہ ختم کردیا‘‘(انتہیٰ کلامہٗ)
٭ پھلواروی صاحب اپنی اس عبارت میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قانون قدرت توڑ کر کرامت پیدا کرنے کا جو سلسلہ چلا آرہا تھا خاتم النبیین ﷺ نے اسے ختم کردیا۔ انتہائی حیرت کامقام ہے کہ قانون قدرت کا توڑنا تو ممکن ہی نہیں پھلواروی صاحب نے تو اسے اللہ تعالیٰ کیلئے بھی ناممکن قرار دیا ہے پھر اس سلسلے کو ختم کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا یہ پھلواروی صاحب کی کھلی تضاد بیانی نہیں؟

انچاسواں اعتراض اور اسکا جواب

امور عادیہ کو خوارق عاد کہنا
٭ اس کے بعد پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’اور جو معجزہ ظاہر ہوا وہ کم اسباب کے اندر رہ کر اور قانون قدرت سے ہم آہنگ رہ کر ظاہر ہوا‘‘ (انتہیٰ کلامہٗ)
٭ میں عرض کروں گا کہ جو کام خارق عادت نہ ہو اور وہ اسباب میں رہ کر ظاہر ہوں انہیں معجزہ کہنا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ پھلواروی صاحب نے یہ بات کہہ کر گویا معجزے کی بنیاد ہی اکھاڑ دی ہم شرح مواقف کے حوالے سے ابھی بتا چکے ہیں کہ معجزہ خارق عادت امر ہے جو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اسی کیطرف سے صدق نبوت کی دلیل کے طورپر نبی سے ظاہر ہوتا ہے دراصل پھلواروی صاحب کا مقصد ہی یہ ہے کہ معجزات اور خوارق عادات کا تصور مسلمان کے ذہن سے نکال دیں۔

پچاسواں اعتراض اور اسکا جواب

تخت سلیمانی کو ہوا اڑاتی تھی
٭ اس مقام پر پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کو جن لے کر سفر کراتے تھے‘‘ قرآن کے خلاف ہے اس میں شک نہیں کہ شیاطین اور جنات سلیمان علیہ السلام کیلئے مسخر تھے لیکن حضرت سلیمان کے تخت کو لے کر ان کا سفر کرانا صحیح نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایافَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآئً حَیْثُ اَصَابَ(پ۲۳آیت۳۶)’’ یعنی ہم نے سلیمان علیہ السلام کیلئے ہوا مسخر کردی وہ ان کے حکم کے ساتھ نرم روی سے چلتی جہاں وہ ارادہ فرماتے‘‘
٭ یہاں جنوں کا نہیں بلکہ ہوا کا ذکر ہے کہ سلیمان علیہ السلام جہاں چاہتے تھے ہوا ان کے حکم سے چلتی تھی یعنی ان کے تخت کو لے جاتی تھی۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ معجزات میں انبیاء علیہ السلام کے حکم اور ارادے کا پایاجانا بھی قرآن کے خلاف نہیں بلکہ قرآن سے ثابت ہے۔


معجزہ و کرامت مقدور نبی و ولی ہوتے ہیں
٭ یہ صحیح ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے قصد و التفات کے بغیر بھی ان سے خوارق عادت کا صدورناممکن نہ تھا بناء برین اہل اللہ کیلئے خوارق عادات کا اظہار ممکن اور تحت قدرت الہیہ ہے ورنہ قادر مطلق کا عجز لازم آئے گا۔ تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا
٭ معجزہ ہو یا کرامت دراصل خرق عادت کے طورپر وہ اللہ تعالیٰ ہی کاکام ہوتا ہے بعض علماء نے کہا کہ معجزہ کی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کے تحت قدرت نہ ہو اور بعض نے کہا کہ یہ شرط بے معنی ہے یعنی ہوسکتا ہے کہ نبی معجزے پر قدرت رکھتا ہو مگر یہ اختلاف محض نزاع لفظی ہے کیونکہ خرق عادت کام کی جو قدرت اللہ تعالیٰ نے نبی کو عطا فرمائی جو لوگ اسی قدرت کو معجزہ کہتے ہیں انکے نزدیک معجزہ نبی کا مقدور نہیں کیونکہ خرق عادت کی اس قدرت پر نبی قادر نہیں ہوتا اور جن لوگوں نے اس فعل خارق للعادۃ کو معجزہ کہا جو اس قدرت معجزہ سے ظاہر ہو رہا ہے انہوں نے معجزے کا نبی کیلئے مقدور ہونا تسلیم کیا۔
٭ خلاصہ یہ کہ جنہوں نے خرق عادت کی قدرت کو معجزہ قرار دیا وہ خارق عادت فعل کو حقیقتاً معجزہ نہیں کہتے ہاں ان کے نزدیک وہ مجازًا معجزہ ہے اور جن لوگوں نے قدرت کی بجائے اس خارق للعادۃ فعل کو معجزہ کہا ان کے نزدیک وہ فعل حقیقتاً معجزہ ہے اور وہ نبی کا مقدور ہے یعنی نبی میں قدرت معجزہ کا انکار کسی نے نہیں کیا فرق اتنا ہے کہ کسی نے عین قدرت کو معجزہ کہا جو نبی کی مقدور نہیں اور کسی نے اس قدرت کی وجہ سے خارق عادت فعل کو معجزہ کہا جو قدرت معجزہ کی وجہ سے نبی کا مقدور ہے(ملحضًا شرح مواقف ج۸ص۲۲۳۔۲۲۴ طبع مصر)
٭ بہر حال معجزہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے اور اسی کی جانب سے ہے خواہ وہ قدرت معجزہ ہو یا فعل خارق للعادۃ اور اسے اللہ تعالیٰ کیلئے ناممکن کہنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کرنا ہے یہ بحث افعال خارقہ للعادۃ سے متعلق تھی رہا قرآن تو یقینا وہ معجزہ ہے ایسا دائمی اور ابدی معجزہ جو بقیہ معجزات کو حاوی ہے بلکہ انبیائے سابقین علیہ السلام کے معجزات پر بھی مشتمل لیکن وہ فعل نہیں اللہ تعالیٰ کاکلام قدیم ہے اسلئے وہ افعال خارقہ للعادۃ کے حکم سے بالا تر ہے مختصر یہ کہ ہم نے قرآن سے ثابت کردیا کہ پھلواروی صاحب کا یہ قول غلط ہے کہ ’’حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کو جن لے کر سفر کراتے تھے‘‘

اکیاونواں اعتراض اور اسکا جواب

تخت بلقیس کو اٹھا لانے والا
٭ اس مقام پرپھلواروی صاحب کا یہ کہنا غلط ہے کہ ’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے چشم زدن میں جنوں سے بلقیس کا تخت منگوایا‘‘ قرآن مجید میں ہے
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰیِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقظوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ(پ۱۹ النمل آیت۳۹)
٭ یہ بات قوی ہیکل خبیث جن نے کہی تھی کہ آپ کے دربار برخواست کرنے پہلے بلقیس کا تخت میں آپ کے پاس لے آئوں گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاقَالَ الَّذِیْ عِنْدَ ہٗ عِلْمٌ مِّنَالْکِتَابِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ۔ جسکے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے وہ تخت میں آپ کے پاس لے آئوں گا(النمل آیت۴۰) جمہور مفسرین کے نزدیک وہ آصف بن برخیا ہیں جو انسان تھے بعض نے کہا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے بعض اقوال میں دوسرے انسانوں کا ذکر وارد ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام تھے ایک قول کے مطابق وہ جبریل علیہ السلام تھے لیکن پلک جھپکنے سے پہلے تخت لانے کی بات کسی ’’جن‘‘ نے نہیں کی۔ بالفرض کسی قول شاذ میں ’’جن‘‘ کا لفظ آیا بھی ہو جو ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ تو قول شاذ پھلوروی صاحب کے نزدیک پہلے ہی ناقابل قبول ہے پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ انہوں نے کس بنا پر یہ بات کہہ دی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے چشم زدن میں جنون سے بلقیس کا تخت منگوایا۔

باونواں اعتراض اور اسکا جواب

عادی امور کو معجزات بتانا صحیح نہیں
٭ پھلواروی صاحب نے اس مقام پر بعض سابقین انبیاء و مقربین کے خوارق معجزات و کرامات کے بالمقابل جو حضورﷺ کے چند امور عادیہ کو معجزہ قرار دے کر نقل کیا ہے انتہائی مضحکہ خیز ہے ہمارا ایمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ہر قول و فعل‘ ہر ادا‘ ہرحال اور ہرکام قیامت تک بنی نوع انسان کیلئے مشعل ہدی اور مینار ہدایت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امور عادیہ کو معجزات کی جگہ لکھ دیاجائے پھلواروی صاحب کا یہ طرز عمل علم و دانش کی روشنی میں لایعنی اور بے محل ہے۔

تریپنواں اعتراض اور اسکا جواب

وَمَا مَنَعَنَااَنْ نُّرْسِلَ بِاْلآیَاتِ کا مفہوم
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ک کی ایک آیت میرے دماغ کو اکثر جھنجوڑتی رہتی ہے جو یہ ہے ۔ وَمَا مَنَعَنَااَنْ نُرْسِلَ بِلْآیَاتِ اِلَّا اَنْ کَذَّبَ بِھَاالْاَوَّلُوْنَ ہمیں معجزات بھیجنے سے صرف اسی بات نے روک دیا ہے کہ گذشتہ امتوں نے ان کی تکذیب کی۔ ایک شے کو آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود جھٹلانے کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ معجزہ کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے اور اسے من جانب اللہ سمجھنے کے بجائے کھیل تماشہ بازی گری جادو اور نظر بندی وغیرہ سمجھتے ہیں(انتہیٰ کلامہٗ)
٭ میں عرض کروں گا کہ آیت نہیں بلکہ اس کا غلط مفہوم پھلواروی صاحب کے ذہن کو اکثر جھنجوڑتا رہتا ہے۔ مضمون آیت بالکل واضح ہے کہ قریش مکہ جن معجزات کو طلب کررہے ہیں اگر ہم انہیں ظاہر فرما دیں تو جس طرح پہلے لوگ اس قسم کے معجزات کا انکار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے یہ لوگ بھی انکارکرکے ہلاکت کے مستحق ہوجائیں گے طلب کردہ معجزات و آیات ہم نے صرف اس لئے نہیں بھیجے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ انہیں دیکھ کر ایمان نہیں لائیں گے اور مکذبین اولین کی طرح یہ لوگ‘ ہلاکت و عذاب کے مستوجب قرار پائیں گے۔ مطلوبہ آیات کو دیکھنے کے بعد ان کا انکار کرنے والوں کو اپنے عذاب میں ہلاک کردینا ہماری سنت ہے ہم نہیں چاہتے کہ اپنے محبوب ﷺ کی موجودگی میں انہیں عذاب عام میں مبتلا کرکے ہلاک کریں بس یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان کی مطلوبہ آیات نہیں بھیجیں۔
٭ آیت کریمہ کے اس واضح مفہوم میں کوئی ایسی بات ہی نہیں جو ذہن کو جھنجوڑنے والی ہو ایک شے کو آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود جھٹلانے کا یہی مطلب ہے کہ وہ معجزہ دیکھ بھی ایمان نہ لائے لیکن پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ وہ اسے من جانب اللہ سمجھنے کے بجائے کھیل تماشہ بازی گری جادو اور نظر بندی وغیرہ سمجھتے رہے لحیح نہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے ان معجزات کو من جانب اللہ سمجھنے کے باوجود محض ازراہ عناد‘ سحر یا نظر بندی کہا ہو اور حقے کی معرفت کے باوجود تمرد اور سرکشی اختیار کرکے اپنے کفر پر جمے رہے ہوں قرآن سے ثابت ہے کہ انکار کرنے والوں نے حق کو پہچان کر بھی اس کے ماننے سے انکار کردیا جان بوجھ کر حق کو چھپایا اور حق کو پہچان کر اس کے ساتھ کفر کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایافَلَمَّا جَآئَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْابِہٖ جب ان کے پاس جانا پہچانا حق آگیا تو اس کے ساتھ انہوں نے کفر کیا(پ۱ البقرہ ۸۹) نیز فرمایا اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُالْکِتَابَ یَعْرِنَوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَ ھُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْھُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ رسول اللہ ﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں اور ان میں سے ایک گروہ جان بوجھ کر حق کو چھپاتا ہے۔(البقرہ ۱۴۶)
٭ ان آیات سے ثابت ہوا کہ معاندین کفار نے حق کو جاننے اور پہچاننے کے بعد بھی حق کا انکار کیا اور از راہ عناد اپنے کفر پر جمے رہے لہذا پھلواروی صاحب کا یہ کہنا صحیح نہیں۔

چونواں اعتراض اور اسکا جواب

معجزات کو وقتی کہنا نافہمی ہے
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’ًگذشتہ سارے معجزات وقتی تھے منکرین نے ان کو آنکھوں سے دیکھ بھی قبول حق سے انکار کردیا۔(انتہیٰ)
٭ پھلواروی صاحب کی تضاد بیانی انتہائی تعجب انگیز ہے کبھی وہ خرق عادت کو ناممکن کہہ کر معجزات کا انکار کردیتے ہیں اور کبھی ان کو وقتی معجزات کہہ دیتے ہیں ۔ معجزات تو درکنار اگر وہ پچھلے نبیوں کو بھی محض وقتی انبیاء علیہ السلام کہہ دیں تو کون انہیں روکے گا؟ نبی کی نبوت کبھی زائل نہیں ہوتی وہ ابد تک ہمہ وقتی ہے ان کے معجزات کو محض وقتی کہنا نافہمی ہے۔

پچپنواں اعتراض اور اسکا جواب

قرآن حقانیت معجزات انبیاء کا امین ہے
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’آج اگر کوئی ان معجزات کے وجود یا وقوع ہی سے انکار کردے اور یہ دعوی کرے کہ سب من گھڑت افسانے ہیں یہ کبھی وقوع میں آئے ہی نہیں تو ہم ان کے وجود کو کیسے ثابت کرسکتے ہیں؟ لیکن قرآن کے زندہ و پائندہ اعجاز سے کسی دور میں بھی انکار کی گنجائش نہیں‘‘ انتہیٰ
٭ میں عرض کروں گا آپ مانتے ہیں کہ قرآن کے زندہ و پائندہ اعجاز سے کسی دور میں بھی انکار کی گنجائش نہیں اسی قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہ السلام کے معجزات کو بیان فرما کر انہیں زندہ و پائندہ کردیا کسی دور میں بھی قرآنی اعجاز کے انکار کی گنجائش نہ ہونا ان معجزات کے انکار کی گنجائش نہ ہونے کو مستلزم ہے جب بھی کوئی دعوی کرے گا کہ یہ سب افسانے ہیں یہ کبھی وقوع میں آئے ہی نہیں ہم اسی وقت ان کے وجود اور وقوع کو قرآن سے ثابت کریں گے۔


ہر مطالبے کا استیفاء
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ‘ میں نے جن غلطیوں کی نشان دہی کی ہے وہ اگر لغوی ہیں لغت ہی سے اس کا جواب دینا چاہیئے صرف و نحو کی بات ہے تو صرف صرف و نحو ہی کے قواعد سے اس کی تردید کرنی چاہئے میری گذارشوں کا یہ جواب نہیں کہ فلاں صاحب علم بزرگ نے تو ان غلطیوں کی نشاندہی کی نہیں لہذا تمہاری نشان دہی غلط ہے‘‘(ص ۱۶)
٭ پھلواروی صاحب کے اس مطالبے کو حرف بحرف ہم نے پورا کردیا ہم نے ان کے جواب میں اس بات پر اکتفاء نہیں کیا کہ فلاں صاحب علم بزرگ نے ان غلطیوں کی نشان دہی نہیں کی لہذا پھلواروی صاحب کی نشاندہی غلط ہے بلکہ پھلواروی صاحب نے جن لغوی غلطیوں کی نشان دہی کی ہے ہم نے لغت ہی سے ان کا جواب دیا ہے اور صرف و نحو کی بات کی تردید ہم نے صرف و نحو ہی کے قواعد سے کی ہے اور ان کی فکر غلطیوں کا جواب فکری ہی اندازسے دیا ہے۔
٭ پھلواروی صاحب کے اعتراضات کا خلاصہ ہم نے اپنے الفاظ میں پیش نہیں کیا بلکہ ان کا ہر اعتراض انہی کی عبارت میں نقل کردیا ہے اور ان کے مدلل جوابات لکھ دیئے ہیں۔ علم و دانش اور عدل و انصاف کی روشنی میں ناظرین کرام پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہوگی کہ پھلواروی صاحب نے جو غلطیاں درودتاج اور دیگر وظائف میں نکالی ہیں درحقیقت وہ درود تاج وغیرہ کی غلطیاں نہیں بلکہ خود ان کی اپنی غلطیاں ہیں اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا وہی درست ہے اسی لئے انہوں نے آگے چل کر صاف کہہ دیا کہ ’’ہمارے لئے آسان راستہ یہ ہے کہ درودتاج کے متعلق یہ مان لیں کہ ایسی بے سروپا عبارت کے مصنف حضرت شاذلی نہیں ہوسکتے‘‘
٭ قارئین کرام!کو یاد ہوگا کہ پھلواروی صاحب نے اس مضمون کی ابتداء ان الفاظ سے کی تھی ’’درودتاج کے بعض مقامات مجھے کھٹکتے ہیں علمائے کرام سے کچھ طالب العمانہ استفسار کرنے کی جسارت کررہا ہوں اپنی علمی بے بضاعتی کا مجھے اقرار بھی ہے اور پورا احساس بھی‘‘(۷) مگر ان کے مضمون کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ طالب علمانہ استفسار اور اپنی علمی بے بضاعتی کا احساس و اقرار محض ایک لبادہ ہے جو اس مقام پر پہنچ کر اچانک اتر گیا اور حقیقت واضح ہوگئی کہ استفسار مطلوب نہ تھا بلکہ یہ منوانا مقصود تھا کہ درودتاج کی عبارت بے سروپاہے جو حضرت شاذلی کی تصنیف نہیں ہوسکتی ہمیں اس سے بحث نہیں کہ درودتاج حضرت شاذلی کی تصنیف ہے یا نہیں ہمیں تو صرف یہ بتانا تھا کہ پھلواروی صاحب نے جس چیز کو غلط سمجھا وہ علط نہیں بلکہ صحیح ہے صحیح کو غلط سمجھنا اور اپنی غلط فہمی کو غلط فہمی نہ کہنا ایسا جہل مرکب ہے جس سے کبھی بھی نجات نہیں مل سکتی کسی نے سچ کہا

آنکس کہ نداند و بداند کہ بداند
درجہل مرکب ابدالدھر بماند

Reference Website

 

Bayans Murshid-e-Kamil

Annual Mehfil e Milad
Birthday Mehfil
Milad un Nabi Lahore
Milad un Nabi Lahore

Urs Mubarik complete List

Golden Sayings

Read Golden Sayings of Murshid E Kamil

Books & Booklets

Download Murshid E Kamil Books & Booklets

Waseel-e-Nijaat Part-47

Beliefs of Aqaid Ahle Sunnat Wa Jammat

Murshid Pak - Bayans

Murshid Pak - Bayans on Youtube